Getty Images
’عالمی اداروں کو تشویش ہے کہ پاکستان میں ستمبر میں بڑی سرمایہ کاری ہونی ہے۔ ورلڈ بینک پوچھ رہا ہے کہ بڑے معاہدوں پر دستخط کون کرےگا؟ ان معاملات کے پیش نظر نگراں حکومت کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔‘
حکمراں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اوررکن قومی اسمبلی ایاز صادق نے بڑے ہی اطمینان سے یہ نکتہ پارلیمان کےسامنے رکھا۔
وہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بدھ کے روز ہونے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کر رہے تھے۔ اس مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں چند ترامیم کثرت رائے سے منظور کی گئی ہیں اور نئے مجوزہ قانون کو انتخابات (ترمیمی) بِل 2023 کا نام دیا گیا ہے۔
بدھ کے روز ہونے والی اجلاس کے دوران ایک چیز بہت واضح تھی اور وہ یہ کہ بہت سے اراکین پارلیمان اس معاملے پر ابہمام کا شکار نظر آئے کہ نگراں حکومت کو بااختیار بنانے سے متعلق متنازع نئی ترمیم دراصل کیا ہے اور اس کا اظہار انھوں نے اجلاس میں اپنی تقریروں کے دوران بھی کیا۔
جب مجوزہ بِل کی شق وار منظوری کا عمل جاری تھا جو وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کئی بار تیزی سے چند ترامیم پڑھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن جماعت اسلامی کے سینیٹر اس ’تیز رفتاری‘ کی راہ میں حائل رہے اور وہ وزیر قانون کو ٹوک کر وضاحت پیش کرنے کی درخواست کرتے رہے۔
تاہم اجلاس شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اور اراکین کی ابتدائی تقریروں کے بعد یہ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ حکمران مسلم لیگ کی اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اصل جھگڑا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 230 میں مجوزہ ترامیم کا ہے۔
سیکشن 230 نگراں حکومت کے اختیارات کی وضاحت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ نگراں حکومت کس نوعیت کے فیصلے لے سکتی ہے اور کون سے فیصلے کرنے کے حوالے سے بااختیار نہیں ہے۔ اور اب مسلم لیگ نواز کی حکومت چند ترامیم کے ذریعے نگراں حکومت کو اضافی اختیار دینا چاہتی ہے جس کا جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ ستمبر میں پاکستان کو چند بین الااقوامی معاہدوں کی تکمیل کرنی ہے جن میں پرائیوٹائزیشن، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے شامل ہیں۔
سیکشن 230 پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ قانون کے مطابق نگراں حکومت کا کام محض روزمرہ کے معاملات کو اس وقت تک چلانا ہے جب تک نئی منتخب حکومت نہیں آ جاتی اور نگراں حکومت کو اضافی اختیارات دے کر ایک منتخب حکومت کے برابر لانا ’آئین کے قتل‘ کے مترادف ہے۔
بہت سے اراکین نے اپنے تقریروں میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ نگراں حکومت کو بااختیار بنانے سے متعلق ترمیم ’دراصل آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے ہے۔‘
بل کی شق وار منظوری کے عمل کے دوران ایک موقع پر چند ارکانِ پارلیمان اٹھ کر باہر جانے لگے جس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو بل پڑھنے کے عمل کو روکنا پڑا اور انھوں نے کہا کہ ’جنابِ سپیکر اگر اس طرح ہو گا تو یہ ممکن نہیں کہ کارروائی آگے بڑھ سکے۔‘ لیکن جن باہر جاتے ہوئےارکان کے بارے میں یہ سمجھا گیا کہ وہ واک آؤٹ کر رہے ہیں، وہ دراصل مجھے کہ کارروائی ختم ہو چکی ہے اور بل منظور ہو چکا ہے جبکہ ابھی الیکشن ایکٹ کی 54 میں سے صرف 28 شِقیں ہی پڑھی گئی تھی۔
Getty Imagesبظاہر تمام بڑی سیاسی جماعتیں ان ترامیم پر متفق نظر آئیںاتنے اختیارات تو کبھی منتخب حکومت کو نہیں دیے‘
مشترکہ اجلاس کے دوران مختلف سینیٹرز اور ارکانِ اسمبلی نےتحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس قسم کےاختیارات تو کبھی منتخب حکومت کو نہیں دیے گئے تو نگراں حکومت کو کیسے دیے جا رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت کو اختیار دیا جا رہا ہے جو صرف 60 یا 90 دن تک حکومت سنبھالے گی۔‘
بیرسٹر علی ظفر نے تجویز دی کہ ’ستمبر کے معاہدوں کی تاریخ آگے کر دی جائے یا پھر ترامیم میں نرمی کی جائے۔ ورنہ سپریم کورٹ ان متنازع ترامیم کو دس دن میں اڑا دے گی۔‘
لیکن تمام تر اعتراضات کے باوجود سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’دی ہاؤس از اِن آرڈر‘جس کے بعد کسی جانب سےکوئی اختلافی نوٹ نہیں آیا۔ جبکہ پریس گیلری میں یہ سوال کیا جاتا رہا کہ ’ہاؤس تو آرڈر میں ہے، لیکن کیا کورم پورا ہے؟‘ اور ظاہر ہے اس بات کا جواب بھی کچھ دیر بعد ظاہر ہو گیا۔ اور تقریباً ایک گھنٹے کےدوران یہ بِل کثرتِ رائے سے منظور ہو گیا۔
بل میں مزید کیا ہے؟Getty Images
الیکشن ایکٹ کی شق 230 کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے۔ مجوزہ ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے لے سکے گی۔
الیکشن ایکٹ میں جو دیگر ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت الیکشن کے دن پولنگ ختم ہونے کے بعد پریزائڈنگ افسر انتخابی نتائج رات دو بجے تک الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسر کو بھیجنے کا پابند ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہو پایا تو تاخیر کی ٹھوس وجہ تحریری طور پر بتانے کا پابند ہو گا۔
ترمیمی بل کے مطابق نئی حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جائیں گی۔
بل کے تحت پولنگ کے دن سے پانچ روز قبل پولنگ سٹیشن تبدیل نہیں کیا جا سکے گا جبکہ امیدوار قومی اسمبلی کی نشست ایک کروڑ تک جبکہ صوبائی نشست کی انتخابی مہم پر 40 لاکھ تک خرچ کر سکیں گے۔
بل میں اسی نوعیت کی چند دیگر ترامیم بھی پاس ہوئی ہیں جن پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے تھا۔
’کوئی نئی تبدیلی نہیں ہے‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کی شق وار منظوری کے دوران ایوان کو بتایا کہ انتخابی اصلاحات بل میں کوئی نئی تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو معاہدے وفاقی حکومت نے پہلے سے طے کر لیے ہیں ان پر صرف نگران حکومت کو کام کرنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کوشش ہے کہ پاکستان کے عالمی اداروں کے ساتھ جو معاہدےہوئے ہیں وہ خراب نہ ہوں۔‘
ایوان کو وزیر قانون کی جانب سے بارہا یقین دلایا جاتا رہا کہ اس وقت جتنی بھی ترامیم ہیں ان پر ممبران کا ’سو فیصد اتفاق ہے۔‘