Getty Images
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر بالا کے رہائشی نصر اللہ کی چند سال قبل انڈیا کی ریاست اتر پردیش کی ایک خاتون انجو سے سوشل میڈیا کے ذریعے بات چیت ہونا شروع ہوئی جو وقت کے ساتھ محبت میں بدل گئی اور اب انجو اس پاکستانی نوجوان سے ’ملنے‘ کے لیے پاکستان پہنچ گئی ہیں۔
بی بی سی ہندی کو معلوم ہوا ہے کہ انڈین شہری انجو پہلے سے شادی شدہ ہیں اور وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ انڈیا کے الور شہر کے علاقے بھیواڑی میں رہتی تھیں۔
صحافی موہر سنگھ مینا نے بی بی سی ہندی کے لیے بھیواڑی میں موجود انجو کے چالیس سالہ شوہر اروند سے بات کی ہے۔
انجو کے شوہر نے بتایا ہے کہ ان کی اہلیہ ’21 جولائی کو یہ کہہ کر گھر سے نکلی تھیں کہ وہ جے پور جائیں گی۔ تب سے ہم ان سے واٹس ایپ پر بات کر رہے تھے۔‘
’23 جولائی کی شام جب بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی تو انجو سے پوچھا گیا کہ وہ کب واپس آئیں گی۔ تو انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور جلد ہی واپس آ جائیں گی۔‘
اروند کے مطابق انجو نے کسی کو اپنے پاکستان جانے کے بارے میں کبھی شک نہیں ہونے دیا اور انھیں بس اتنا معلوم تھا کہ انجو کے پاس کئی سال پہلے بنوایا گیا پاسپورٹ تھا۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا کے رہائشی نصر اللہ سے ملنے اور مبینہ طور پر ’منگنی‘ کرنے کے لیے آنے والی انڈین خاتون انجو کا کہنا ہے کہ انھوں نے انڈیا میں اپنے شوہر اور بچوں کو بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان جا رہی ہیں۔
انڈیا کے ٹی وی چینل زی نیوز سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کرتے ہوئے انڈین خاتون انجو کا کہنا تھا کہ ’شوہر کو یہ علم تو تھا ہی کہ میں باہر جا رہی ہوں اور میں نے سوچا کہ جب میں بارڈر پار کر لوں گی تو انھیں بتا دوں گی اور میں نے انھیں بتایا بھی تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی تھی کہ میں اپنے بیٹے کو بھی پاکستان ساتھ لے کر آؤں لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کو بھی پاسپورٹ کی ضرورت ہو گی۔
زی ٹی وی کے اینکر کے اس سوال پر کہ کیا آپ پاکستان میں نصراللہ سے شادی کرنے والی ہیں، انجو نے کہا کہ وہ پاکستان نصراللہ سے شادی کرنے نہیں آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نصراللہ ان کے دوست ہیں اور وہ یہاں ان سے ملنے آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری ان کے پورے خاندان سے ملاقات ہوئی ہے اور یہ سب لوگ بہت اچھے ہیں اور میرا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔
’میرا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ وہ بس میرے دوست ہیں، ان سے ملنے اور پاکستان گھومنے آئی ہوں۔‘
پاکستان جانے کا خیال کیسے آیا کے سوال پر انجو نے کہا کہ ہماری سوشل میڈیا کے ذریعے بات چیت ہوتی تھی۔۔۔مجھے وہاں جانے کے متعلق کچھ پتا نہیں تھا تو میں نے نصراللہ سے کہا کہ وہ انڈیا آ جائیں لیکن اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ پھر میں نے نصراللہ سے کہا کہ میری درخواست کے لیے کاغذات جمع کروا دو۔
ایک سوال میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے نصر اللہ سے ملنے کا شوق تو تھا ہی لیکن میں یہاں آنا چاہتی تھی کیونکہ عام جگہوں پر تو سب چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان آنے کا خطرہ تو کوئی کوئی مول لیتا ہے۔
انجو نے بتایا کہ میں نصراللہ سے کہتی تھی کہ مجھے دیر اور اپنا علاقہ دکھاؤ۔
انجو نے انڈیا میں اپنے ایک دفتری ساتھی کی جانب سے ہراساں کرنے اور تنگ کرنے کے متعلق بھی بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مجھے اغوا کرنے اور مارنے کی دھمکی دیتے تھے اور میں نے اس متعلق پولیس کو بھی بتایا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسا نہیں کہ انڈیا میں ان کے شوہر سے ان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف پاکستان گھومنے آئی ہیں۔
ادھر ڈسڑکٹ پولیس افسر دیر بالا مشتاق احمد خان نے سوموار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے نصراللہ اور ان کے خان کو پابند کیا ہے کہ انڈین خاتون انجو ایک ماہ بعد 21 اگست سے پہلے دیر بالا چھوڑ دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انجو کے پاس صرف اپر دیر کی رہائش کا ایک ماہ کا ویزہ اور این او سی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انڈین خاتون انجو سے رسمی انٹرویو کیا ہے۔
’اس انٹرویو میں ہم نے نہ تو منگنی اور نہ ہی شادی کی بات سنی ہے۔ بہرحال یہ فیس بک کی دوستی ہے۔ اس سے آگے کا فیصلہ نصراللہ اور ان کا خاندان کرے گا کہ یہ منگنی کرتے ہیں یا شادی، یہ ان کا اپنا گھریلو معاملہ ہے۔‘
مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ رسمی انٹرویو کے بعد ہم نے انجو کی ذاتی زندگی کا خیال رکھا اور ان کو سیکیورٹی فراہم کردی گئی ہے۔
نصراللہ کی انجو سے فیس بک پر دوستی ہوئی تھی۔ اس کے بعد پاکستانی سفارت خانے کو 2022 میں درخواست بھیجی گئی تھی۔ نصراللہ کی اس درخواست پر انڈیا میں پاکستانی سفارت خانے نے انجو کو ویزہ جاری کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انجو نے لاہور کے واہگہ بارڈر پر امریگیشن کی ہے۔ لاہور سے راولپنڈی تک انجو نے بس کا سفر کیا تھا۔
راولپنڈی میں نصراللہ نے انجو کا استقبال کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ کی مہمان نوازی مشہور ہے اور ہم انجو کی مہمان نوازی کریں گے۔
دوسری جانب 29 برس کے پاکستانی نوجوان نصر اللہ کے مطابق وہ اگلے دو سے تین دن میں انجو سے باضابطہمنگنی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے دس بارہ دن بعد انجو واپس انڈیا چلی جائیں گی۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے بعد انجو دوبارہ شادی کے لیے پاکستان آئیں گی۔ یہ میری اور انجو کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مداخلت کی جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا سے بھی دور رہا جائے۔‘
اس وقت انجو دیر بالا میں نصراللہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین شہری کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
یہ کہانی حال ہی میں انڈین نوجوان سچن کی محبت میں گرفتار ہو کر انڈیا پہنچنے والی پاکستانی خاتون سیما حیدر سے ملتی جلتی ہے۔فرق یہ ہے کہ انجو ویزہ لے کر قانونی طریقے سے پاکستان آئی ہیں جس کے لیے ان دونوں کو دو سال کا عرصہ لگا۔
واضح رہے کہ پاکستانی شہری سیما حيدر گذشتہ ہفتے اپنے چار بچوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کی انڈین شہری سچن سے پب جی موبائل گیم کھیلنے کے دوران جان پہچان ہوئی تھی جو کچھ عرصے میں محبت میں تبدیل ہوئی۔
پاکستان اور انڈیا کے شہریوں میں ایسی محبت کی کہانیاں نئی نہیں ہیں تاہم دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے اب دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو کم سے کم ویزے دیتے ہیں۔
انجو کے لیے بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ خصوصاً دیر بالا تک پہنچنے کے لیے جو ایک دور دراز ضلع ہے جس کی ایک سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔
عام طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزہ دیتے ہوئے بہت کم شہروں تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔
تو آخر انجو اور نصر اللہ کی یہ کہانی کیسے شروع ہوئی اور انجو کو پاکستان کا ویزہ اور دیر بالا جانے کی اجازت کیسے ملی؟ لیکن پہلے جانتے ہیں کہ انجو کے شوہر نے اس صورتحال کے بارے میں کیا کہا ہے۔
انجو کا فون کبھی چیک نہیں کیا کیونکہ ’اس سے رشتہ خراب ہوتا ہے‘
انجو کے شوہر اروند نے بی بی سی ہندی کو بتایا ہے کہ ’میں 40 سال کا ہوں اور انجو 35 کے لگ بھگ ہے۔ ہم دونوں اصل میں اترپردیش کے رہنے والے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں سے بھیواڑی میں رہ رہے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری شادی سنہ 2007 میں ہوئی تھی۔ اب ہمارے دو بچے ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر 15 سال ہے اور ایک چھوٹا بیٹا ہے اور وہ دونوں سکول جاتے ہیں۔‘
اروند کا کہنا ہے کہ انھوں نے بارہویں تک تعلیم حاصل کی ہے جبکہ ان کی اہلیہ انجو دسویں پاس ہے۔
اروند کے مطابق ’انجو بھیواڑی میں ہی ایک کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ میں بھی پاس ہی کی ایک اور کمپنی میں کام کرتا ہوں۔‘
اروند کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی بھی انجو کا فون چیک نہیں کیا کیونکہ ’اس سے رشتہ خراب ہوتا ہے۔‘
انجو کے شوہر اروند نے فی الحال اس سلسلے میں پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کروائی ہے۔
’ویزہ حاصل کرنے میں دو سال لگے‘
نصر اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا انجو سے فیس بک کے ذریعے چند سال پہلے رابطہ ہوا تھا۔
لیکن اس پہلے رابطے کے بعد اگلے مراحل بہت جلدی طے ہوئے۔
جب بی بی سی نے انجو سے بات کرنے کی درخواست کی تو نصر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انجو اس وقت میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔
نصر اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ رابطہ دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
نصر اللہ کے مطابق ان کے گھر والے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دونوں میں طے ہوا کہ انجو پاکستان کا دورہ کریں گی، میرے خاندان سے ملیں گی اور ہم پاکستان میں منگنی کریں گے، جس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کر لیں گے۔‘
نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا، مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘
ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔
نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہیں اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘
ان کی کوششیں بلاآخر رنگ لائیں۔ لیکن حکام کو قائل کرنے میں ان کو دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
نصراللہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور پھر دیر بالا داخلے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔‘
’انجو اور میں نے ویزہ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے ہیں۔ اب ایک دفعہ ویزہ لگ گیا ہے تو امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
’مستقبل کا فیصلہ شادی کے بعد کریں گے‘
نصر اللہ بتاتے ہیں کہ انجو انڈیا میں اپنی کمپنی سے چھٹی لے کر پاکستان آئی ہیں اور دوبارہ واپس جا کر اپنی ملازمت جاری رکھیں گی۔
انھوں نے بتایا کہ ’انجو اس وقت میرے گھر میں ہے جہاں پر وہ بالکل پرسکون اور آرام سے رہائش پزیر ہے۔‘
تاہم یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا کی موجودگی سے وہ خوش نہیں۔
’بہت بڑی تعداد میں میڈیا اور لوگ اکھٹے ہوچکے ہیں۔ میں سب سے کہتا ہوں کہ جو ضروری ہوگا میں خود میڈیا کو بتا دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے تعلق کو کوئی مسئلہ بنایا جائے۔ ہمارے تعلق میں مذہب بھی شامل نہیں ہے۔ انجو مذہب تبدیل کرے گی یا نہیں، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہو گا اور میں اس کے فیصلے کا احترام کروں گا جیسے وہ میرے فیصلے کا احترام کرتی ہے۔‘
نصراللہ کا کہنا تھا کہ ان کے تعلق سے انجو کے خاندان کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
’اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہماری پرائیویسی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے تعلق اور زندگی کو بالکل بھی تماشہ نہ بنائیں، ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے ہیں۔‘
Getty Imagesانجو اور نصر اللہ کا رابطہ فیس بک پر ہوا’انجو پختونوں کی مہمان ہے‘
ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں لیکن موسم اور حالات ان کے استقبال کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔
نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت پہنچی جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘
’اہلیان علاقہ شدت سے اس کا انتظار کر رہےتھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم سنیچرکو شاندار استقبالہ دیں گے مگر بدقسمتی سے علاقے میں ایک فوتگی ہو گئی۔ اب ہم یہ استقبالیہ جلد دیں گے۔‘
فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں اور اس کو یہ یقین بھی دلا رہی ہیں کہ وہ کسی بات کی فکر نہ کرے۔‘
ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق کے مطابق دیر بالا پہنچنے والی انڈین لڑکی انجو کے ویزہ کاغذات کی ’پولیس نے جانچ پڑتال کی اور وہ کاغذات بالکل درست ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ انجو کو ایک ماہ کا ویزہ دیا گیا ہے اور ان کو دیر بالا میں داخلے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اتوار کی شام نصراللہ اور انجو کو مقامی پولیس سٹیشن ایک رسمی پوچھ گچھ کے لیے طلب کر رکھا ہے۔
’یہ رسمی انٹرویو تمام غیر ملکیوں کے لیے ہوتا ہے جہاں پر ان سے بات کرنے اور انٹرویو کرنے کے بعد ان کو واپسی کی اجازت دے دی جائے گی۔‘
محمد مشتاق کا کہنا تھا کہ ’پولیس انجو کو مکمل سیکورٹی فراہم کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی پرائیویسی کا بھی مکملخیال رکھے گی۔‘