BBC
طارق خان پاکستان کے شہر ملتان میں اپنے آموں کے پروسیسنگ پلانٹ میں ایک مزدو سے گفتگو کر رہے تھے۔ پسینے میں شرابور طارق آم کے ڈبوں کے ڈیزائن کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ان ڈبوں میں آم برآمد کیے جانے تھے۔
چینی حکام نے تین کمپنیوں کو پاکستان سے اپنے ملک آم برآمد کرنے کی منظوری دی ہے، ان میں سے ایک کمپنی طارق خان کی ہے۔
وہ اب بھی اپنے آرڈرز ہوائی جہاز کے ذریعے بھیج رہے ہیں، لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے انھیں جلد ہی یہ آرڈر سڑک کے ذریعے بھیجے جانے کی امید ہے۔
کنویئر بیلٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’چین کے قرنطینہ کے قوانین بہت سخت ہیں۔ وہاں کچھ بھی بھیجنا آسان نہیں ہے۔‘
ان کے پروسیسنگ پلانٹ پر بہت گرمی تھی اور وہاں ہر طرف آموں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
طارق کہتے ہیں کہ ’ہم آموں کو 48 ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک گھنٹے تک ٹریٹ کرتے ہیں، پھر انھیں خشک کر کے احتیاط سے پیک کرتے ہیں۔۔۔ چینی خریدار ایسے آم نہیں لیتے جن میں معمولی سا بھی داغ ہو۔‘
چین پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے ایک بڑی منڈی ہے لیکن انھیں ہوائی جہاز سے بھیجنا مہنگا ہے۔
طارق کہتے ہیں کہ ’اس سے فائدہ اٹھانے کا واحد طریقہ سڑک کی تعمیر اور مرمت ہے۔‘
BBCپاکستان کتنے آم برآمد کرتا ہے؟
چین بھی سینکڑوں برسوں سے آم کاشت کر رہا ہے لیکن وہ اپنے ملک کی مانگ پوری نہیں کر پا رہا ہے۔ ہر سال یہ تھائی لینڈ، ویت نام، کمبوڈیا جیسے ممالک سے بڑی مقدار میں آم درآمد کرتا ہے۔
سال 2020 میں چین نے 84 ہزار ٹن آم درآمد کیے تھے۔ انڈیا اور پاکستان بھی چین کو آم برآمد کرتے ہیں لیکن ان کا تجارتی حجم کم ہے۔
چین کے محکمہ کسٹمز کے مطابق 2022 میں پاکستان سے چین بھیجے گئے آموں کی مالیت 55 ہزار 605 ڈالر تھی جو کہ 2021 میں 127200 ڈالر سے بہت کم ہے۔
آم کی مقدار کے حوالے سے بات کریں تو سال 2022 میں پاکستان سے 23.95 ٹن آم برآمد کیے گئے اور 2021 میں 37.22 ٹن آم برآمد کیے گئے۔
آم ایک خراب ہونے والا پھل ہے۔ چین کی درآمدات سے متعلق سخت قوانین اور مہنگی قیمتیں پاکستان سے برآمدات میں سب سے بڑا چیلنج ہیں۔
پاکستان عام طور پر ملک کے اندر آم فروخت کرتا ہے یا صرف ایران کو درآمد کرتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ اس کی وجہ چین پاکستان راہداری پر کام کا آغاز ہے۔
طارق خان کے مطابق چینی انجینئرز، کمپنی کے لوگ اور مزدور پاکستان کے آموں کا ذائقہ اپنے ملک میں لے گئے ہیں، وہ واپسی پر بازار سے کچھ آم لے جاتے ہیں۔ اس لیے وہاں ان کی مانگ بڑھ گئی ہے۔
BBC’چین میں آم کی بہت مانگ ہے‘
طارق خان کہتے ہیں کہ اس سال چین سے کچھ وفود آئے ہیں، وہ ہر قسم کی چیزوں، تازہ آموں کے ساتھ ساتھ آم کے گودے اور مصنوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس کے لیے برآمد کنندگان سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، لیکن جب تک اس بات کی ضمانت نہ ہو کہ برآمدات کو آسان بنایا جائے گا اور یہ مالی طور پر مستحکم ہو گی، اور اس سب میں اگر لوگ رضامند نہیں ہوں گے تو یہ تجارت آگے نہیں بڑھے گی۔
عبدالغفار ملتان میں محکمہ زراعت میں ڈائریکٹر ہارٹیکلچر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ ایکسپورٹ کے لیے آموں کی نئی قسمیں بنانے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے آموں میں سے ’سفید چونسہ' اور ’چناب گولڈ‘ کی اقسام کو چین میں خاص طور پر سراہا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہر علاقے کے لوگوں کے ذائقے مختلف ہوتے ہیں۔ چینی آم ہمارے جیسے نہیں ہیں، لیکن گذشتہ برسوں میں محدود رسمی اور غیر رسمی برآمدات کے ساتھ وہاں مارکیٹ تیار ہوئی ہے۔‘
چینی لوگ کیسے آم پسند کرتے ہیں؟Getty Images
غفار کہتے ہیں کہ ’وہ خوشبودار، فائبر سے پاک، بڑے، پیلے آم خریدنا چاہتے ہیں۔ سفید چونسہ اور چناب گولڈ اس معیار پر مکمل طور پر پورا اترتے ہیں۔
غفار کے مطابق چین میں تین طرح کی مارکیٹیں ہیں۔ ایک گفٹ مارکیٹ، ایک سپر مارکیٹ اور ایک مقامی بازار۔
وہ کہتے ہیں کہ ’گفٹ مارکیٹ بہت متنوع اور مہنگی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے ڈبوں کو ڈیزائنرز خود بناتے ہیں۔ یہ فی الحال پاکستانی ایکسپورٹ کے لیے موزوں نہیں ہے۔ دوسری طرف، مقامی مارکیٹ بہت سستی ہے، لیکن چینی سپر مارکیٹیں پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بہترین اور موزوں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’چین میں پاکستانی آموں کی بہت زیادہ مانگ ہے اور چین نے بھی حال ہی میں پابندیوں میں نرمی کی ہے، اس لیے مستقبل کے لیے اچھی امیدیں ہیں۔‘
پڑوسی ممالک کے ساتھ پھلوں اور سبزیوں کی تجارت قیمتوں پر منحصر ہے۔
ابراہیم واہلہ نے حال ہی میں اپنے خاندان کے آم کے کاروبار میں قدم رکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آم کے معیار کو پہلے سے یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ پھل آ جانے اور اسے اتارنے کے بعد اسے زیادہ بہتر نہیں کیا جا سکتا۔‘
عام کسانوں کا چیلنج
براہیم واہلہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت صرف ایک فیصد برآمد کنندگان ہی اس پر پیشرفت کر رہے ہیں۔ پیداوار کرنے والے شاذ و نادر ہی اس بات سے واقف ہیں کہ اس منڈی سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر آم کی کاشت چینی ضروریات کے مطابق صحیح طریقے سے نہیں کی گئی تو پاکستان برآمدات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔‘
چین پاکستانی کاشتکاروں کو آموں کی فصل میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی اجازت نہیں دیتا۔
ابراہیم کہتے ہیں کہ ’ہر ملک کی مختلف مٹی، موسمی حالات، کیڑوں اور پھلوں کی اقسام ہیں۔ اس لیے ایسی پابندیاں لگانا مناسب نہیں ہے۔‘
ابراہیم کا کہنا ہے کہ اس وقت چھوٹے کسانوں کا اس کاروبار میں کوئی حصہ یا دلچسپی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آم کے کاشتکار کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اچھی رقم کی ضمانت کے بغیر کسان نئی کیڑے مار ادویات اور کھادوں میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہیں گے۔
ابراہیم کے مطابق چینی مارکیٹ میں برآمد کنندگان، پروڈیوسر اور درآمد کنندگان ایک شیطانی چکر میں پھنس گئے ہیں۔
لیکن باغبانی کے ڈائریکٹر عبدالغفار کا خیال ہے کہ حالات جلد ہی بدل جائیں گے۔
BBC’پاکستان کو انڈیا پر برتری حاصل ہے‘
عبدالغفار کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب یہ سڑک ( سی پیک) کا منصوبہ مکمل ہو جائے گا، تو پیداوار کو ریفریجریٹرز میں لوڈ کیا جائے گا جو براہ راست چین میں اتریں گے۔ پراسیسنگ اور پیکنگ کے بعد، پاکستان کے آم تین ہفتوں تک خراب نہیں ہوتے۔ ایک بار جب مارکیٹ کھل جائے گی، برآمدات معاشی طور پر قابل عمل ہو جائیں گی تو اس میں آموں کی پیداوار کرنے والے اور برآمد کنندگان دونوں آئیں گے۔‘"
انڈیا بھی چین کو آم برآمد کرتا ہے لیکن وہ پاکستان کا مقابلہ نہیں کرتا۔ غفار کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں موسم مختلف ہونے کی وجہ سے پاکستان میں آموں کی پکائی کا چوٹی کا موسم انڈیا کی نسبت دیر سے آتا ہے۔
چین پاکستان راہداری کی وجہ سے پاکستان کو براہ راست فائدہ ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ملتان، رحیم یار خان اور سندھ جیسے علاقوں کو براہ راست چینی مارکیٹ سے جوڑے گی۔ لیکن اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے بہت سے لوگ پریشان ہیں۔
عبدالغفار کی امیدوں کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان آم کے شعبے میں تیزی آنے میں وقت لگے گا۔