سعید احمد اس وقت سو رہے تھے جب اچانک کسی نے انھیں چِلا کر بتایا ان کا بھتیجا نثار احمد ’سیلاب میں پھنس گیا ہے۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا میں چترال کے علاقے ایوان کے رہائشی سعید احمد بتاتے ہیں کہ ’میں جب موقع پر پہنچا تو دیکھا نثار احمد دریا کے درمیان (پتھروں پر) کھڑا تھا۔ اس کے دونوں طرف ٹھاٹھے مارتا پانی بہہ رہا تھا۔‘
’ایسا لگ رہا تھا کہ اس تیز رفتار پانی میں کوئی بھی نثار احمد کی مدد نہیں کر سکے گا۔‘
دراصل سنیچر کو نوجوان نثار احمد دریائے کنڑ میں حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والی اونچی لہروں کے بیچ پھنس گئے تھے۔
وہ دریا میں تیرتی ہوئی لکڑی کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی دوران پانی کچھ دیر رُکا اور پھر اس نے تیزی سے اپنا رُخ تبدیل کر لیا جس سے نثار اس کے بیچ و بیچ پھنس گئے۔
سعید احمد کہتے ہیں کہ جب دریا نے اپنا رخ تبدیل کیا تو اس وقت وہاں بہت سے لوگ جمع تھے جو فوراً خطرے کی جگہ سے نکل گئے۔ مگر ذہنی طور پر معذور اور مرگی کے مریض نثار ایسا نہ کرسکے۔
صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے لوگوں نے فوراً ریسکیو حکام سے رابطہ کیا تاکہ نثار کو اس مشکل سے نکالا جائے۔
’ایک کلو میٹر فی منٹ سے بھی تیز‘ پانی میں تیراکی کرنے والے غوطہ غور
چترال میں سیلاب کے خطرے کے باعث ریسکیو حکام الرٹ پر تھے۔ ریسیکو اہلکار اور ماہر غوطہ خور قاضی احتشام الحق مدد کی کال موصول ہونے پر ساتھی رشید احمد کے ہمراہ آدھے گھنٹے میں موقع پر پہنچ گئے۔
قاضی نے بتایا کہ اس جگہ ’دریا کی صورتحال انتہائی خظرناک تھی، پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔
’پانی میں پتھر تھے۔ دریا پہلے کسی رکاوٹ کی وجہ سے رُکا تھا۔ پھر یہ دوبارہ چلا تو اس نے نہ صرف اپنا رُخ تبدیل کیا بلکہ پتھر بھی اپنے ساتھ لا رہا تھا۔‘
ان حالات میں دریا میں غوطہ لگانا موت میں منھ میں جانے کے مترادف تھا مگر قاضی اور ان کے ساتھی حفاظتی سامان کے ساتھ دریا میں کود گئے۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ نثار کی جانب بڑھتے ہوئے ’جگہ جگہ بڑے پتھروں سے سامنا ہو رہا تھا۔ ہمیں کم از کم 25 میٹر تک تیر کر متاثرہ نوجوان کی مدد کرنا تھی۔‘
https://twitter.com/ChitralToday/status/1682627330064146432
ان کے مطابق سیلاب کے باعث دریا کے بہاؤ کی رفتار ’ایک کلو میٹر فی منٹ سے بھی زیادہ تھی۔‘
’پانی ہمیں اپنے ساتھ بہانے کے لیے زور لگا رہا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس صورتحال کا مقابلہ ’مخصوص تکنیک‘ اور ’ہوش‘ کے ساتھ تھا۔
قاضی کا کہنا ہے کہ ’ہمارا تیراکی کا سفر تو ڈیڑہ منٹ کا تھا مگر ہمیں لگا کہ ہم ڈیڑہ گھنٹے تک تیراکی کرتے رہے ہیں۔‘ اس دوران ان کے ہاتھ پیر بے حد تھک چکے تھے۔
’نوجوان تعاون نہیں کر رہا تھا‘
ریسکیو اہلکار قاضی احتشام الحق کہتے ہیں کہ ’جب ہم نوجوان نثار احمد تک پہنچے تو وہ بہت ڈرا ہوا تھا۔
’وہ ہمارے ساتھ تعاون پر آمادہ نہیں تھا اس کو بڑی مشکل سے تعاون پر آمادہ کیا۔ وہ تعاون پر بھی اس صورت میں آمادہ ہوگیا کہ وہاں کا ایک مقامی نوجوان تنزیل الرحمن بھی تیر کر موقع پر پہنچ گیا تھا۔‘
تنزیل الرحمن نے نثار سے بات کی اور واپس آنے پر امادہ کیا۔ نثار احمد کو لائف جیکٹ پہنائی گئی اور اس کو ٹیوب پر بٹھا کر ٹیوب کو رسیوں سے باندھ دیا گیا۔
مگر واپسی کا سفر طے کرنا مشکلات سے کم نہ تھا۔ قاضی کے مطابق ’ہم دو لوگ ایک ایک ہاتھ سے تیراکی کر رہے تھے جبکہ دوسرے ہاتھ سے نوجوان کو سنبھال رہے تھے۔‘
بغیر لائف جیکٹ دریا میں اترنے والے تنزیل الرحمن ریسکیو اہلکاروں کا پیچھا کرتے ہوئے دریا میں کود گئے تھے تاکہ نثار کی جان بچائی جاسکے۔
تنزیل بتاتے ہیں کہ واپسی کے سفر میں دو منٹ لگے مگر راستے میں کئی مرتبہ ’پتھر اور پانی کے تیز ریلوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘
انھوں نے ریسکیو اہلکاروں کو سراہا کہ ان کی مہارت کی بدولت وہ پتھروں اور پانی کے بہاؤ سے بچنے میں کامیاب رہے۔
’جب ہم کنارے پر پہنچے تو اس کے چند منٹ بعد ہی وہ محفوظ جگہ بھی پانی کے نیچے آگئی تھی۔‘
سعید احمد کے مطابق ان کے بھتیجے کا محفوظ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ’اس معجزے کا سبب ریسیکو 1122 کے اہلکار اور ہمارے علاقے کا نوجوان بنا۔‘
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’اگر ریسیکو اہلکاروں کو چند منٹ کی اور تاخیر ہوتی تو نثار کا بچنا سعید مشکل ہوتا۔‘
https://twitter.com/fayazcl/status/1682628979306446848
خیبر پختونخوا میں سیلاب کی صورتحال
خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق یہاں تیز بارشوں سے حادثات کے نتیجے صوبہ بھر میں اب تک چار افراد ہلاک جبکہ ایک شخص زخمی ہوا ہے۔سیلاب اور بارشوں کے باعث 12 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق لوئر چترال میں سیلاب سے نو گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب کے سبب اپر اور لوئر چترال کا پشاور سے زمینی راستہ منقطع ہے جس کو بحال کرنے کی کوشش جاری ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ مون سون کی بارشوں سے سب سے زیادہ چترال کا علاقہ متاثر ہوا ہے جہاں بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ وادی کیلاش سمیت بعض علاقوں میں لوگوں نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی خان کے مطابق سیلاب سے منقطع سڑکوں اور پلوں کی مرمت کا کام جاری ہے۔