لاہور میں موسلا دھار بارش: اربن فلڈنگ کیا ہے اور زیادہ بارش ہونے پر پانی شہریوں کے گھروں تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 22, 2023

Getty Images

سنیچر کو صبح سویرے سے موسلا دھار بارش کے باعث صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے مختلف علاقے ایک بار پھر زیرِ آب آ گئے ہیں جس کے بعد سے ایک بار پھر شہر میں اربن فلڈنگ کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ بارش لاہور کے علاقے گلشن راوی میں 183 اور لکشمی چوک میں 169 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ اس کے علاوہ بھی لاہور کے متعدد نشیبی علاقوں میں شدید بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔

کمشنر لاہور کے مطابق ضلع انتظامیہ کی جانب سے نکاسی آب کا کام جاری ہے اور اس وقت بھی کچھ علاقوں میں بوندا باندی جاری ہے۔

اس سے قبل جولائی کے آغاز میں بھی لاہور میں شدید بارشوں کے باعث ایک 11 سالہ بچے سمیت کم سے کم 11 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ اس دوران دو مختلف سپیلز میں لکشمی چوک میں 291اور گلشنِ راوی کے علاقے میں 268 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔

تب ان بارشوں کے باعث لاہور کی رہائشی رمشا مصطفیٰ کو اپنے بچوں اور شوہر سمیت چند دن تک کے لیے اپنی والدہ کے گھر باامر مجبوری اُس وقت قیام کرنا پڑا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے کرائے پر گھر لیا ہوا تھا۔ پہلے ہی اس کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن لاہور میں حالیہ بارشوں کے باعث نہ صرف گھر کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا بلکہ حال یہ تھا کہ گیٹ اور دروازوں سے بھی بارش کا پانی گھر میں داخل ہو گیا۔ جس سے ہمارا سامان بھی خراب ہو گیا۔‘

رمشا کا کہنا ہے کہ ’ہماری گلی میں پہلے ہی اکثر گٹر اُبل رہے ہوتے ہیں اور عام دنوں میں بھی یہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس پر اگر بارش ہو جائے تو ہماری معاملات زندگی شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث حالات مزید ابتر ہو گئے۔ گٹر اور بارش کا پانی گھر میں آ گیا، اتنی بدبو ہو گئی کہ گھر بیٹھنا محال ہو گیا۔ گھر اور گلی میں جمع ہونے والا یہ پانی کئی روز تک کھڑا رہا مگر نکاسی آب کے لیے کوئی حکومتی مشینری حرکت میں نہیں آئی۔‘

ان کے مطابق ’کمزور چھت اور گھر میں بدبودار پانی داخل ہونے کی وجہ سے ہم سب میری امی کے گھر چلے گئے تاکہ مزید کسی آفت سے محفوظ رہ سکیں۔‘

یہ کہانی رمشا اور اُن کے اہلخانہ تک ہی محدود نہیں بلکہ لاہور میں حالیہ دنوں میں ہونے والی اربن فلڈنگ سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ بڑے مالی نقصانات کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

اربن فلڈنگ کیا ہوتی ہے؟

اربن فلڈنگ اس صورتحال کو کہا جاتا ہے جب شہری علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے یعنی کسی شہر کے نکاسی آب اور ندی نالوں میں گنجائش سے زیادہ پانی آ جائے۔

شہروں میں یہ صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب شدید بارشوں کے نتیجے میں شہر کا نکاسیِ آب کا انفراسٹرکچر مزید پانی کا بوجھ سہارنے میں ناکام ہو جائے۔ ہر شہر کی ایک مخصوص صلاحیت ہوتی ہے یعنی وہ کتنے پانی کا بوجھ سہار سکتا ہے۔

عام طور پر پانی کے نکاس کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں ’ڈسپوذل سٹیشنز‘ بنائے جاتے ہیں، جو پمپس کے ذریعے جمع شدہ پانی کو قریبی ندی نالوں یا پھر دریاؤں میں پھینکتے ہیں لیکن جب ڈسپوزل سٹیشن مکمل طور پر کام نہیں کر رہے پوتے یا پھر ان کی گنجائش سے زیادہ پانی آ جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں باقی بچ جانے والا پانی سڑکوں اور گلی محلوں میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔

اور یہ معاملہ پاکستان میں صرف لاہور کی حد تک محدود نہیں بلکہ کراچی اور راولپنڈی جیسے بڑے شہر ماضی میں متعدد مرتبہ اربن فلڈنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔

اربن فلڈنگ کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟

اربن فلڈنگ کی واحد وجہ معمول سے زیادہ بارش نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجوہات میں انتظامی سطح پر لیے گئے فیصلے بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لاہور شہر میں حالیہ بارشوں کے دوران کئی انڈر پاس ایسے تھے جہاں کئی کئی فٹ بارشی پانی جمع ہو گیا جس کی وجہ ’شہر کے گرد موجود ڈسپوزل سٹیشنز کا مکمل طور پر کام نہ کرنا‘ تھا۔

لاہور میں سول انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے بیشتر شہروں کا یہ مسئلہ ہے کہ ان کے ڈسپوزل سٹیشنز اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق کام نہیں کرتے ہیں یا پھر کچھ خراب ہوتے ہیں۔

’مون سون سے پہلے ندی نالوں کی مکمل صفائی کا نہ ہونا یا پھر شدید بارش ہونے کی صورت میں انھیں بروقت پیچھے سے بند نہ کرنے جیسے مسائل بھی اربن فلڈنگ کی وجہ بن جاتے ہیں۔‘

حالیہ اربن فلڈنگ کے دوران لاہور کی مشہور لاہور کنال کا بہاؤ زیادہ ہونے کے باعث اس کا پانی سڑکوں پر آ گیا۔ اس بارے میں کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کا دعویٰ ہے کہ ’انتظامیہ نے نہر کی صفائی ایک سے زائد مرتبہ کروائی تھی۔‘

عمومی طور پر زیادہ بارش کے نتیجے میں کراچی میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔

Getty Images

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہری منصوبہ بندی (اربن پلاننگ) کے ماہر عارف حسن نے ’ڈان‘ اخبار میں لکھے گئے اپنے ایک حالیہ کالم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہر سال کراچی میں بارش ہوتی ہے اور ہر سال یہ گمان کیا جاتا ہے کہ شہر کے مختلف نالوں کے پاس بنے گھروں کی وجہ سے نالہ بھر جاتا ہے اور نتیجہ اربن فلڈنگ کی صورت میں نکلتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں اور اس کے پیچھے ایک پیچیدہ تاریخ ہے، جو اس شہر کے نکاسی آب کے نظام سے جڑی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں بارش یا کسی اور وجہ سے آنے والا پانی شہر کے مختلف نالوں سے ہو کر لیاری اور ملیر ندی سے منسلک نالوں میں گِرتا ہے۔ واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے مطابق کراچی میں اس وقت64 نالے ہیں، جن میں مزید 600 ذیلی نالوں کا پانی جمع ہوتا ہے اور بلآخر یہ نالے ملیر اور لیاری ندی میں جا گرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’کراچی کی آبادی 1947 کے بعد بتدریج بڑھی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کراچی کی آبادی چار لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل تھی مگر اب یہ کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ وقت کے ساتھ آبی گزرگاہوں اور چھوٹے، بڑے نالوں کے پاس آبادیاں بننا شروع ہوئیں۔ اور ان آبادیوں کا کچرا انہی ندی نالوں میں جانا شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں بارش ہونے پر یہ نالے پانی کے رسائی کے کام میں مکمل مفلوج ہونا شروع ہو گئے۔

ان کے مطابق ’بارش کے پانی کے جمع ہونے میں ایک بڑا ہاتھ اس شہر کے انفراسٹرکچر اور ڈیزائن کا ہے جو ہر علاقے میں مختلف ہے، جو پانی کو نکالنے کے بجائے اسے جمع کر دیتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس کا ایک حل کراچی شہر کی باقاعدہ طور پر پلاننگ اور نکاسی آب کے نظام پر جامع اور بہتر پالیسی بنانے سے جڑا ہے۔ ’اس کی پلاننگ آپ کو آج کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے کرنی پڑے گی۔‘

راولپنڈی کی بات کی جائے تو یہی حال راولپنڈی کے نالہ لئی کا ہے، جس میں عام دنوں میں کئی ٹن کے حساب سے کوڑا پھینکا جاتا ہے جس کے باعث بہت زیادہ بارش ہونے کے باعث پانی نشیبی اور قریبی آبادیوں تک جا پہنچتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کے ترجمان نے بتایا کہ نالہ لئی کی صفائی ریگولر بنیادوں پر کروائی جاتی ہے مگر ہر سال دیکھا جاتا ہے کہ اس صفائی کے باوجود یہ کچرا واپس سے اسی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ نالہ لئی کے کناروں کو دکاندار اور رہائشی پارکنگ کی جگہ کہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ نالہ لئی کے ایک جانب کچرے کا انبار اور دوسری جانب مکانات بن چکے ہیں جن کے باعث 2022 میں شدید بارش کے نتیجے میں اس نالے کا پانی ٹنچ بھاٹہ اور بھابھڑا بازار میں جمع ہو گیا تھا۔

ترجمان نے کہا کہ ’ایک تو اس نالہ میں کچرا نہ پھینکا جائے کیونکہ ہر بار کچرا ہونے کے نتیجےمیں اس نالے کی نکاسی کی لائینیں چوک ہو جاتی ہیں جس کا نتیجہ اربن فلڈنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔‘

منصوبہ بندی کے بغیر شہروں میں ہونے والی تعمیرات بھی ایک خاصا بڑا مسئلہ ہے۔

پاکستان میں گذشتہ سال سوات میں آنے والے سیلاب سے ہونے والی تباہی کی بھی ایک بڑی وجہ دریاؤں اور ندیوں کے گرد انسانوں کی جانب سے کی گئی تعمیرات تھیں۔

کراچی کا گجر نالہ انھی تعمیرات کا منھ بولتا ثبوت ہے جس کی چوڑائی انھی تعیمرات کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے تنگ ہوتی چلی گئی اور اسی نتیجے میں بارشوں اور پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے کی وجہ نالے سے باہر آجاتا ہے۔

’بارش کے دوران انتظامیہ کی عدم موجودگی‘

لاہور کی رہائشی رمشا مصطفیٰ کے مطابق حالیہ دنوں میں ہونے والی بارشوں کے باعث سڑکوں اور مختلف علاقوں میں پانی جمع ہو گیا تاہم کئی گھنٹوں تک انتظامیہ کا کوئی ایسا بندہ موقع پر موجود نہیں تھا جو کم از کم گٹروں کے ڈھکن ہی اٹھا دیتا تاکہ پانی کا اخراج ممکن ہو پاتا۔

ایسے حالات میں یہ اس نوعیت کی شکایات اکثر شہروں سے رپورٹ ہوئی ہیں۔

تاہم اسی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا نے کہا کہ سول انتطامیہ سمیت واسا، محکمہ موسمیات اور محکمہ آبپاشی سمیت تمام متعلقہ محکموں کے افسران اور اہلکار فیلڈ میں موجود رہے اور یہی وجہ ہے کہ شدید بارش ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں کے اندر لاہور سے پانی کا اخراج ہو چکا تھا۔

انھوں نے کہا کہ چند جگہوں پر پانی کھڑا ہوا مگر وہ تیکنیکی مسائل کے باعث تھا جن کی نشاندہی کے فوراً بعد یہ مسائل حل کر لیے گئے۔

Getty Imagesموسمیاتی تبدیلی اور اربن فلڈنگ

کچھ عرصہ قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے سابق ترجمان بریگیڈیئر مختار احمد کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں کا ’پیٹرن‘ اتنا بدل چکا ہے کہ کسی بھی انتہائی غیر معمولی ایونٹ کی صورت میں سیلابی صورتحال اور اربن فلڈنگ کا قوی امکان بن جاتا ہے۔

کمشنر لاہور نے بھی اس جانب توجہ دلواتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارش کی پیشگوئی کا حساب بعض اوقات درست کام نہیں کرتا۔

انھوں نے کہا کہ عید کے موقع پر لاہور میں لگ بھگ 65 ملی میٹر بارش کی پیشگوئی کی گئی تھی مگر جب بارش ہوئی تو وہ چند گھنٹوں میں 250 ملی میٹر کے لگ بھگ تھی۔

انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی بھی اربن فلڈنگ میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔

تاہم ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اربن فلڈنگ کی بہت سے وجوہات میں سے ایک ہو سکتی ہے مگر پاکستان کے بڑے شہروں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بنیادی وجہ ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کے شہروں میں اربن فلڈنگ کی صورتحال کوئی نئی نہیں بلکہ کئی سال سے پاکستان کے بیشتر شہروں کو اس مسئلے کا سامنا ہے اور کئی سالوں کے بعد بھی اگر یہ کہا جائے کہ اس شہر میں آپ کو بارش کے موسم میں کوئی نیا سرپرائز ملا ہے تو یہ غلط ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ انتظامیہ پاکستان کے زیادہ تر شہروں کا سسٹم اور انفراسٹرکچر سے واقف ہے، اس لیے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے سے ہی موسمی آفات سے ہونے والے نقصان سے بچنے کے لیے تیاری رکھیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More