جینڈر نیوٹرل کھلونے: ’کاش لڑکے بھی گھر گھر کھیلتے اور لڑکیاں بھی باہر نکل کر کھیل سکتیں‘

بی بی سی اردو  |  Jul 22, 2023

Getty Images

ہم اپنے بچوں کے لیے تحائف خرید رہے ہوں یا کسی دوسرے کے بچے کے لیے عموماً ایک خاموش اصول یہ ہوتا ہے کہ گڑیا لڑکیوں کے لیے ہیں اور گاڑیاں لڑکوں کے لیے۔ عموماً پیدائش پر بچی کے لیے گلابی چیزیں اور بچے کے لیے نیلے رنگ کی چیزیں خریدنا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بات یہاں نہیں رکتی، بچوں کو معاشرے اور اکثر والدین کی ہی جانب سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ لڑکے’لڑکیوں والے‘ کھیلوںاور سرگرمیوں جیسے گڑیوں سے کھیلنا، کچن سیٹ اور ’گھر گھر‘ کھیلنے میں حصّہ نہ لیں اور بچیاں ’لڑکوں والے‘ کھیلوںگاڑیوں سے کھیلنا، گھر سے باہر کھیلے جانے والے کھیلوں سے دور رہیں۔

یہ رجحان صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

مگر کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ کھیلوں، کھلونوں اور رنگوں کی اس تقسیم کا فیصلہ کس نے، کن بنیادوں پر کیا اور اس کا بچوں کی شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

کیا کھیلوں، کھلونوں اور رنگوں کی تقسیم بائیولوجیکل ہے ؟ Getty Imagesیہ کب طے ہو گیا کہلڑکے گاڑیوں سے لڑکیاں صرف گڑیوں سے کھیلیں گی؟

ماہرین کے مطابق ان کی تقسیم بائیولوجیکل بھی ہے اور معاشرے کی طرف سے بھی عائد کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر وجیہہ ظفر ایک چائلڈ سائیکالوجسٹ ہیں۔ ان کے مطابق قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیوں کی فطرت میں بعض چیزیں مختلف ہوتی ہیں جو اُن کی شخصیت اور پسند نہ پسند پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’لڑکیوں کی فطرت ’فیمینن‘ ہوتی ہے اور وہ عمومی طور پر قدرے نرم مزاج تصور کی جاتی ہیں اور لڑکے ’میسکولن‘ نیچر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے قدرتی اور جسمانی لحاظ لڑکیوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں اور ’پروٹیکٹیو‘ نیچر کے ہوتے ہیں۔ اس لیے لڑکیوں کا ’گھر گھر‘ جیسے کھیل کھیلنا، گڑیوں کو سجانا اور لڑکوں کا گاڑیوں سے کھیلنا یا کھیلوں میں دلچسپی لینا ایک بہت نارمل بات ہے۔‘

جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے، ڈاکٹر وجیہہ کہتی ہیں کہ کھلونوں، کھیلوں اور سرگرمیوں کو بچوں کے جنس کی بنیاد پر محدود کرنے میں معاشرے کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر عائشہ عرفان نذیر ایک سائیکو تھراپسٹ ہیں ان کے خیال میں کچھ چیزوں کا جنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، مثال کے طور پر رنگ۔ کسی بھی رنگ کا پسند ہونا یا اسے پسند کرنے کے حوالے سے جنس کی تقسیم ضروری نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر بچے ان کھیلوں میں دلچسپی ظاہر کریں جن کو ’دوسری صنف کے کھلونے‘ کا لیبل دے دیا جاتا ہے تو یہ ایک ایک دقیانوسی سوچ یا مفروضہ بن جاتا ہے۔ ‘

BBCڈاکٹر وجیہہ کا کہنا تھا کہ ’اگر لڑکیوں کو گاڑیوں یا آؤٹ ڈور گیمزسے روکا جائے تو وہ بڑی ہو کر سوچیں گی کہ وہ صرف گھر کے اندر ہی رہ سکتی ہیں¬بچوں کو مخصوص کھلونوں اور کھیلوں تک محدود رکھنے کے منفی اثرات کیا ہیں؟

ڈاکٹر عائشہ عرفان کے مطابق، بچوں کی شخصیت چھوٹی عمر سے ہی بنتی ہے اور وہ جس طرح کے کھیل کھیلتے ہیں وہ بڑے ہونے پر ان کی نفسیات اور شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ’بچوں کو بعض کھیلوں تک محدود رکھنے سے ان کی ذہنی نشوونما اور تخلیقی صلاحیتیں بھی رک جاتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بچوں کو کہا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ نہ پہنو، یہ نہ کھیلو، یہ نہ کرو۔ یہ کھلونے لڑکوں کے نہیں ہوتے لڑکیوں کے ہوتے ہیں مثلاً ایک کچن سیٹ ہے اور بچہ اس سے کھیلنا چاہتا ہے اور والدین کہتے ہیں کہ بیٹا لڑکے نہیں کھیلتے ان چیزوں سے تو اس کے دماغ میں ایک فیصلہ ہو گا کہ میرا تو کچن میں کوئی کام ہی نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پدرشاہی معاشرہ جنم لیتا ہے جو آج ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘

اسی طرح ڈاکٹر وجیہہ کا کہنا تھا کہ ’اگر لڑکیوں کو گاڑیوں یا آؤٹ ڈور گیمز سے روکا جائے تو وہ بڑی ہو کر سوچیں گی کہ وہ صرف گھر کے اندر ہی رہ سکتی ہیں۔

’انھیں یہ قبول کرنے میں خوف یا ہچکچاہٹ محسوس ہو گی کہ وہ گاڑی بھی چلا سکتی ہیں یا گھر سے باہر نکل کر کوئی کام کر سکتی ہیں۔‘

ڈاکٹر عائشہ کے مشاہدے کے مطابق والدین آہستہ آہستہ اپنے بچوں کے لیے صنفی غیر جانبدار کھلونوں اور کھیلوں کی طرف زیادہ مائل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک نئی پریکٹس ہے جس میں والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

BBCڈاکٹر عائشہ عرفان کے مطابق بچپن کے کھیلنفسیات اور شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیںصنفی غیر جانبدار کھلونے کیا ہیں

مختلف ماہرین کی بیان کی گئی اور مختلف کتابوں میں صنفی غیر جانبدار کھلونوں کی تعریف ملتی ہے۔ کتاب ’لینگویج، میموری اینڈ کاگنیشن اِن انفینسی اینڈ ارلی چائلڈہوڈ‘ کے مطابق ’صنفی غیر جانبدار کھلونوں کی مثال پلے ڈو، سلنکیز، ڈاکٹر کٹس‘ ہیں۔

سادہ الفاظ میں صنفی غیر جانبدار کھلونوں اور کھیلوں سے مراد ایسے کھلونے ہیں جن پر کسی ایک صنف کا لیبل نہیں لگایا گیا ہے اور صنفی غیر جانبدار کھیلوں کا مطلب ہے کہ وہ لڑکیاں اور لڑکے دونوں کھیل سکتے ہیں۔

اس کتاب کے مطابق یہ بھی کہا گیا ہے کہ جینڈر نیوٹرل کھلونے اور کھیل بچوں میں ’فنکارانہ اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں۔‘

اسلام آباد میں کھلونوں کی دکان چلانے والے محمد منظور کہتے ہیں کہ انھوں نے والدین اور بچوں میں خریداری کے انداز میں تبدیلی دیکھی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ماضی میں والدین لڑکوں کے لیے صرف کاریں اور سائیکلیں خریدتے تھے لیکن اب وہ لڑکوں کو شیف سیٹ خریدنے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کو لیگو سیٹ، ٹول کٹ اور پزل خریدنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ ’اب بھی بہت سے لڑکے ایکشن فگرز اور لڑکیوں کو گڑیا پسند آتی ہیں لیکن ہم تبدیلی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘

محمد منظور کے بھائی یاسر متین بھی کھلونوں کی ایک دکان چلاتے ہیں۔ ان کے بھی کچھ ایسے ہی خیالات تھے۔ انھوں بتایا کہ ’آج کل والدین ایسے تعلیمی کھلونوں کو ترجیح دیتے ہیں جو بچوں کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں۔

’والدین کی زیادہ تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ایجوکیشنل کھلونے لے کر دیں جیسے لیگوز، بلاکس، پزلز۔‘

جنڈر نیوٹرلکھلونوں کی مقبولیت اور اس کی وجہ

کتاب ’فیمینسٹ پرسپیکٹو آن سوشل ورک پریکٹس‘ کے مطابق ملینیئل نسل یعنی وہ لوگ جو 1980 یا 1990 کی دہائی میں پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے بہت سے والدین اور وہ لوگ جو ملینیئلز کے بعد آئے ہیں، پرانے خیالات سے ہٹ کر سوچ رہے ہیں اور لڑکیوں کے لیے گلابی اور لڑکوں کے لیے نیلے رنگ کے پرانے زمانے کے سماجی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘

چند پاکستانی ملینیئل مردوں اور خواتین سے گفتگو کر کے بھی یہی پتا چلا کہ وہ جینڈر نیوٹرل کھلونوں کے حق میں ہیں۔

سید موسیٰ حسن جو ایک کاروباری شخص ہیں، مستقبل میں بچوں کی خواہش رکھتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بچپن میں وہ نام نہاد ’بوائز ٹوائز‘ کے ساتھ بھی کھیلا کرتے تھے اور ان گیمز میں بھی حصہ لیا کرتے تھے جس میں لڑکیاں اور لڑکے مل کر کھیلتے تھے۔ تاہم ان کے ارد گرد اس دور میں بہت سے بچے ایسے بھی تھے جنھیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ کہتے ہیں ’لڑکیوں کو باہر کھیلنے یا چھت پر جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن لڑکوں کو اجازت تھی۔‘

اسی طرح وقار اصغر ایک فیشن ڈیزائنر ہیں اور ایک چار سالہ بچے کے والد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی پرورش ایک آزادانہ ماحول میں ہوئی ہے اور کہا کہ ’ہم لڑکیوں کی ایکٹیویٹیز میں شامل ہو جاتے تھے ان کو بھی اپنے کھیلوں میں شامل کر لیتے تھے۔۔۔ کھلونوں کے ساتھ کھیلنا، برتنوں کے ساتھ کھیلنا۔۔۔‘

’مگر ہم جا کر ’لڑکیوں کے کھلونوں‘ میں سے کوئی چیز خرید سکیں تو اس کے لیے (والدین کی جانب سے) کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی۔‘

BBCموسی حسن ، عروبہ شریف اور وقار اصغر اپنے بچوں کو صنفی بنیاد پر کھلونوں تک محدود رکھنے کے دقیانوسی تصور کو توڑنے کے خواہشمند ہیں’کاش لڑکے بھی گھر گھر کھیلتے اور لڑکیاں بھی باہر نکل کر کھیل سکتیں‘

یہ دونوں حضرات بچوں کی نئی نسل کے لیے صنفی غیر جانبدار کھلونے متعارف کروانے میں یقین رکھتے تھے۔موسیٰ کے بقول کہ ’بچپن سے ہی ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ لڑکوں کو گھر کے کاموں میں شامل نہیں ہونا چاہیے یا انھیں کچن میں اپنے ماؤں کی مدد نہیں کروانی چاہیے بعد میں جب وہ بیرونی ممالک پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو وہ سب کام کرتے ہیں جیسے صفائی، برتن، کپڑے تو پھر انھیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم بچپن سے ہی لڑکوں کو ان سارے ہنر سے آشنا کر دیں تاکہ مستقبل میں جب وہ گھر سے نکلیں تو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔‘

موسی کا کہنا تھا کہ ’آج ہم لڑکیوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ بہادر ہوں، معاشرے میں باہر نکلیں اور مردوں کے شانہ بشانہ نوکری کریں اور کریئر بنائیں لیکن یہ ان کے لیے مشکل ہے۔

’میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی باصلاحیت لڑکیاں اکیلے باہر جانے سے ڈرتی ہیں اور وہ سوچتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے مردوں پر انحصار کرتی ہیں کہ وہ ان کی حفاظت کریں گے۔‘

’اگر ہم نے انھیں تمام گیمز کھیلنے، گھر کے اندر اور باہر تمام سرگرمیوں میں حصہ لینے کا اعتماد دیا ہوتا تو آج وہ زیادہ پر اعتماد ہوتیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہمیں اپنی بچیوں کو تربیت دینی ہے کہ جب وہ باہر نکلیں تو ہر صورتحال سے نمٹ سکیں۔ اگر ہم ان کو گھر پر ڈرا کر بٹھا دیں گے تو وہ باہر کل کو نہیں نکل سکیں گی۔‘

عروبہ شریف کا شمار ایسے ملینیئل والدین میں ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو صنفی بنیاد پر کھلونوں تک محدود رکھنے کے دقیانوسی تصور کو توڑ رہے ہیں۔

وہ ایک یونیورسٹی میں بطور لیکچرر کام کرتی ہیں اور ان کے دو بچے ہیں جن کی عمریں پانچ اور آٹھ سال ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کسی بھی کھلونے سے کھیلنے سے نہیں روکتیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب وہ (بیٹے) اپنی کزنز کے ساتھ کھیلتے ہیں تو وہ گڑیا کے ساتھ کھیلتے ہیں گڑیا کا گھر بھی ہے، کوکنگ بھی چل رہی ہے۔‘

https://www.youtube.com/watch?v=q7UsEXpi07g

جینڈر نیوٹرل کھلونے توازن کے ساتھ متعارف کرائے جائیں

ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی غیر جانبدار کھلونے اچھے ہیں وہیں یہ اب بھی ایک بالکل نیا تصور ہے۔

’جیسے بچوں کو ہر طرح کے کھیلوں سے روکنا برا ہے۔ ویسے ہی والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کو نام نہاد نسوانی سرگرمیوں میں اور لڑکیوں کو لڑکوں کے کھیلوں میں شامل ہونے پر مجبور نہ کریں۔

’یہ فطرت اور پرورش دونوں کے بات ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عائشہ نے خبردار کیا کہ ’معاشرے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تمام صنفی کردار سکھائیں اور ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کریں لیکن ایسا کچھ نہ کریں جس سے وہ اپنے صنفی کردار کے بارے میں الجھن میں پڑ جائیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More