جمعرات کا دن صوبہ خیبرپختونخوا کی باڑہ تحصیل میں بظاہر ایک معمول کا دن تھا تاہم یہاں واقع مختلف سرکاری عمارتوں پر تعینات پولیس اہلکار ’ہائی الرٹ‘ تھے۔
اہلکاروں کے ہائی الرٹ ہونے کی وجہ 13 جولائی کو انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے شیئر کیا گیا ’تھریٹ الرٹ‘ تھا جس کے مطابق باڑہ کی تحصیل بلڈنگ پر حملہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
تحصیل باڑہ پشاور سے تقریباً 12 کلومیٹر دور واقع ہے اور پشاور سے باڑہ داخل ہوتے ہی یہاں کے معروف مرکزی بازار کے ساتھ تحصیل بلڈنگ موجود ہے۔
یہاں پولیس سٹیشن اور سی ٹی ڈی کے دفاتر سمیت ضلعی انتظامیہ کے اہم دفاتر بھی موجود ہیں۔ اس عمارت کی سکیورٹی کے فرائض پولیس کے ذمے ہیں۔
اس عمارت کے دو داخلی راستے ہیں۔ عمارت کے مرکزی داخلی راستےپر پولیس کانسٹیبل محمد طیب تعینات تھے۔
صبح لگ بھگ سوا گیارہ بجے کا وقت تھا جب کانسٹیبل طیب نے ایک اجنبی شخص کو عمارت کے داخلی دروازے کے قریب آتے دیکھے۔ طیب کے ساتھی اہلکاروں کے مطابق چونکہ وہ شخص عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا چنانچہ مشکوک شخص کو کانسٹیبل طیب نے متنبہ کرنے کے لیے آواز دی۔
موقع پر موجود اہلکاروں کے مطابق یہ آواز سنتے ہی مسلح شخص نے اپنی پستول سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں محمد طیب موقع پر ہلاک ہو گئے جبکہ حملہ آور نے خود کو گیٹ کے پاس ہی اڑا دیا۔ خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق اس خودکش دھماکے کے نتیجے میں عمارت کی دیوار اور چھت کا کچھ حصہ زمین بوس ہو گیا۔
حملے کے نتیجے میں طیب سمیت تین پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ مجموعی طور پر 11 افراد زخمی ہوئے۔ آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات خان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دہشتگردوں کا ہدف عمارت میں موجود پولیس سٹیشن تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’پولیس کی مربوط حکمت عملی کی بدولت جانی نقصان کم ہوا اور دہشتگردوں کی تھانے میں گھسنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔‘
کانسٹیبل طیب کی ہلاکت سے تقریباً 14 برس قبل یعنی سنہ 2009 کی دہشتگردی کی لہر کے دوران طیب کے بھائی عزیزاللہ بھی پولیس کی ڈیوٹی کرتے ہوئے شدت پسندوں کے ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
ان کی ہلاکت کے بعد جب ’شہدا کوٹے‘ کے تحت محکمہ پولیس کی جانب سے خاندان کو پولیس میں ایک نوکری کی پیشکش کی گئی تو قرعہ فال محمد طیب کے نام نکلا۔
’ابو میں اپنے بھائی کا مشن پورا کروں گا‘
طیب کے برادرِ نسبتی اسماعیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طیب کی جب نوکری ہوئی تھی تو اس کی اپنی کریانے کی دکان تھی۔‘
’جب بھائی کی وفات ہوئی اور پولیس کی جانب سے نوکری کی پیشکش کی گئی تو گھر میں ایک بحث چھڑ گئی کہ اب یہ نوکری کون کرے گا کیونکہ باقی بھائیوں کی عمر زیادہ تھی چنانچہ فیصلہ ہوا کہ طیب یہ نوکری کریں گے۔‘
ان کے مطابق طیب اپنے بھائیوں کا بھی خیال رکھتے تھے اور جہاں تک ہو سکتا ان کی مدد کرتے تھے۔
طیب نے اپنے لواحقین میں اہلیہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں جن میں سے ایک بیٹے کو دل کا عارضہ لاحق ہے جبکہ ایک بچی پیدائشی معذوری کا شکار ہے۔
اسماعیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی جب اپنی بہن (طیب کی بیوہ) سے بات ہوئی تو وہ اس حوالے سے بھی پریشان تھیں کہ ان کے بچے بیمار ہیں جن میں سے ایک بچے کو عارضہ قلب اور دوسری بچی معذور ہے تو ان کی کفالت کون کرے گا۔‘
محمد طیب کے والد مثل خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ابھی پہلے وفات پانے والے بیٹے کے بچوں کی پرورش بہت مشکل سے کر رہے تھے کہ اب دوسرے بچے بھی یتیم ہو گئے۔‘
فون پر بات کرتے ہوئے مثل خان جب اپنے بیٹوں کا نام لیتے تو اُن کی آواز رندھ جاتی۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب میرا بڑا بیٹا عزیز اللہ 2009 میں شہید ہوا تو وہ خاصہ دار فورس میں تھا۔ کوٹا سسٹم میں محمد طیب بہت جوش و خروش سے آگے آیا کہ ابا جان میں اپنے بھائی کا مشن پورا کروں گا، اسے کیا پتہ تھا کہ وہ بھی اس راہ میں قربان ہو جائے گا۔‘
اسماعیل کہتے ہیں کہ ’ہم لاکھ کوشش کریں بچوں کی پرورش کی لیکن اپنے والد جیسا خیال تو کوئی نہیں رکھ سکتا۔‘
خیبر پختونخوا میں بڑھتے دہشتگر حملے: ’یہ لاوا اچانک نہیں پھٹا‘
یاد رہے کہ رواں ہفتے کے دوران یہ خیبرپختونخوا میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں پر تیسرا بڑا حملہ تھا۔
اس سے قبل بدھ کی رات پشاور کے تھانہ ریگی کے اہلکاروں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ منگل کو حیات آباد میں ایک خودکش حملہ آور نے کار کے ذریعے فرنٹیئر کور کی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا، جس میں آٹھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے 17 جولائی کو جاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں پچھلے چھ ماہ کے دوران 144 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 224 زخمی ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بڑھتے دہشتگرد حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق ایڈیشنل آئی جی اور ہوم سیکریٹری سید اختر علی شاہ کے مطابق یہ جو حالیہ دہشتگردی کا لاوا جو پھٹ رہا ہے یہ اچانک نہیں ہوا۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رپورٹس تو حکومت کو مل رہی تھیں کہ اطراف میں لوگ جمع ہیں لیکن اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔‘
’اگر اس وقت ایکشن ہوا ہوتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شدت پسندوں کا تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے، اس کو ختم کرنا چاہیے۔ جب حکومت کہیں ایک جگہ ایکشن لیتی ہے تو یہ دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور دھیان ہٹنے کا انتظار کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جیسے ہی شدت پسندوں کو حالات نارمل نظر آتے ہیں وہ دوبارہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تمام قوانین جیسا کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ، ٹیرر فنانسنگ، سرویلنس موجود ہیں۔‘
’صرف ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اگر عمل کیا جائے تو یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔‘