پاکستانی خاتون سلمیٰ جو 38 برس کی شادی شدہ زندگی کے بعد بھی ’انڈیا کی بہو‘ قرار دیے جانے کی منتظر ہیں

بی بی سی اردو  |  Jul 21, 2023

پاکستان سے نیپال کے راستے انڈیا پہنچنے والی خاتون سیما حیدر کی کہانی اِن دنوں سرخیوں میں ہے۔ وہی سیما جو مبینہ طور پر ایک انڈین نوجوان کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے چار بچوں سمیت انڈیا چلی آئی ہیں اور اب انھوں نے مستقل طور پر یہیں رہائش اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سیما حیدر جس انڈین علاقے میں مقیم ہیں اُس سے لگ بھگ 100 کلومیٹر دور ضلع شاملی ہی کی حدود میں سلمیٰ نامی ایک خاتون رہتی ہیں۔

سلمیٰ کی عمر تقریباً 63 برس ہیں اور ان کے چہرے پر کمزوری اور عمررسیدگی کے آثار واضح ہیں۔ سلمیٰ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ وہ ایک آنکھ سے کچھ خاص دیکھ نہیں پاتیں کیونکہ ان کی آنکھ میں موتیا اُتر چکا ہے۔

اگرچہ سلمیٰ کی بینائی کمزور ہو چکی ہے مگر خود کو سرکاری کاغذات میں ’انڈیا کی بہو‘ کے طور پر دیکھنے کی اُن کی امید اب بھی باقی ہے۔ وہ گذشتہ 38 برسوں سے انڈیا کی شہریت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

مقامی پولیس انسپیکٹر رادھے شیام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انیس احمدنامی شخص جین پوری نامی علاقے میں رہتے ہیں جن کی اہلیہ سلمیٰ پاکستانی شہری ہیں۔ وہ طویل مدتی ویزے پر یہاں رہ رہی ہیں۔ میں اُن کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ غیرملکی شہری ہونے کے باعث وہ ہماری مسلسل نگرانی میں ہیں۔‘

سلمیٰ کے شوہر انیس احمد کی عمر لگ بھگ 65 برس ہے اور وہ سبزیوں کی خرید و فروخت کے کام سے وابستہ ہیں۔ سلمیٰ کا تعلق پاکستان کے شہر جھنگ سے ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انیس احمد نے اپنی کہانی کچھ یوں بتائی کہ ’میری شادی 23 ستمبر 1983 کو پاکستان میں سلمیٰ سے ہوئی تھی۔ وہ میری خالہ کی بیٹی ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کی تقسیم سے پہلے میری خالہ (سلمیٰ کی والدہ) پانی پت میں رہتی تھیں، لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستان کے ضلع جھنگ منتقل ہو گئیں۔ جبکہ میرے والد عبدالعزیز اور والدہ انڈیا میں گڑھی پختہ میں ہی رہے۔‘

انیس احمد بتاتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد بھی ان کی خالہ (سلمیٰ کی والدہ) کا انڈیا آنا جانا رہا۔ ’سلمیٰ کی پیدائش جھنگ میں ہوئی اور پھر رشتہ نبھانے کے لیے خالہ نے سلمیٰ کا رشتہ مجھ سے کر دیا اورسنہ 1985 میں ہماری شادی ہو گئی۔ اس وقت میری عمر 24 اور سلمیٰ 22 سال کی تھی۔ میں اُس وقت سے اپنی بیوی کے لیے انڈین شہریت کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔‘

انیس کے خاندان میں اُن کے تین بھائی اور ایک بہن ہے اور یہ پورا خاندان گڑھی پختہ نامی علاقے میں آباد ہے۔

انیس اپنی شادی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میری بارات پاکستان گئی تھی۔ ہم وہاں ٹرین کے ذریعے گئے تھے۔ میرے رشتہ داروں سمیت تقریباً 22 لوگ میری بارات کے ساتھ پاکستان گئے تھے۔ ہم نے وہاں کرائے پر ایک کمرہ لیا اور سلمیٰ رخصتی کے بعد وہیں آئیں۔ شادی بیاہ اور دیگر رسومات مکمل ہونے کے بعد سلمیٰ میرے ساتھ انڈیا آ گئیں۔‘

اپنی شادی کے بارے میں سلمیٰ بتاتی ہیں کہ ’مجھے ہماری شادی بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔ میں نے شادی کے دن سرخ لباس پہنا تھا۔ گھر میں سب بہت خوش تھے۔ مجھے اس بات کا بھی بہت تجسس تھا کہ میں اب رخصتی کے بعد انڈیا جاؤں گی اور دیکھوں گی کہ یہ ملک کیسا ہو گا۔‘

سلمیٰ کے مطابق پاکستان میں موجود اُن کے دیگر تین بہن بھائی وفات پا چکے ہیں اور اب وہاں اُن کے بھانجے اور بھتیجیاں ہی رہتی ہیں۔

انیس احمد سلمیٰ کو شادی کر کے عارضی ویزے پر انڈیا لے آئے لیکن جب سلمیٰ کا ویزہ ختم ہو گیا تو انھوں نے انڈین شہری سے شادی کی بنیاد پر 1985 میں ہی شہریت کے لیے درخواست دائر کر دی۔

انیس بتاتے ہیں کہ ’میں نے اس وقت اپنی اہلیہ کو انڈین شہریت دلوانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دی تھی، اس وقت شاملی کو ضلع کا درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ اس وقت شاملی کا ضلع مظفر نگر تھا۔ انتظامیہ نے ہمیں مدد کا یقین دلایا۔ اس کے بعد سلمی کے قیام کو قانونی رکھنے کے لیے میں نے اس کے ویزے میں پانچ سال کی توسیع کروائی۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن میری اہلیہ شہریت حاصل نہیں کر سکیں۔ اس صورتحال کے باعث اب ہم باقاعدہ بنیادوں پر ویزے میں توسیع کرواتے ہیں اور پاسپورٹ کی تجدید بھی کرواتے ہیں۔

سلمیٰ اور ان کے شوہر انیس احمد کے مطابق وہ گذشتہ 38 سال سے حکام کو شہریت کے لیے متعدد درخواستیں دے چکے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ 10 اگست 2015 کو انھیں شاملی انتظامیہ کی جانب سے ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھانے کا دعوت نامہ بھی موصول ہوا جس سے انھیں شہریت کے حصول کی امید پیدا ہوئی۔ انیس احمد نے کہا کہ ’10 اگست 2015 کو میرے اہلیہ کو اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شاملی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں انھیں صبح 11 بجے کلکٹریٹ (تحصیل احاطے) میں بلایا گیا تھا۔ یہاں حلف بھی لیا گیا، لیکن اس کے باوجود شہریت کے کاغذات نہیں ملے۔‘

سلمیٰ کی انڈین شہریت کے سوال پر شاملی کے موجودہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رویندر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اس کیس کے بارے میں آگاہ ہیں۔ ہمارے آفس سے اس ضمن میں رپورٹ مرکزی حکومت کو بھیج دی گئی ہے، اب وہاں سے مزید کارروائی کی جائے گی۔‘

اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود سلمیٰ آج بھی انڈین شہریت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اس دوران ان کے چھ بچے ہو چکے ہیں جن میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان کے بچوں کی عمریں 19 سے 37 سال کے درمیان ہیں۔

انڈیا کی شہریت کے حوالے سے سلمیٰ کا کہنا ہے کہ ’میرے بچے، میرے شوہر سبھی انڈیا کے رہنے والے ہیں۔ اب میں اِس عمر میں زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کر سکتی اور چاہتی ہوں کہ حکومت مجھے اب شہریت دے۔ میری دنیا یہیں انڈیا میں ہی ہے۔۔۔ ‘ یہ کہہ کر سلمیٰ رونے لگتی ہے اور اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی تفسیر جو ان کے ساتھ ہی بیٹھی ہے وہ بھی ماں کو غمگین دیکھ کر رو پڑتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More