انڈیا کے گرم موسم میں پستے اور دودھ کی بنی تکون شکل کی جمی ہوئی نرم، کریمی قلفی کا مزہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ہر سال اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے اور ساتھ ہی قلفی کے ٹھیلے باہر نکل آتے ہیں۔ قلفی والے کو دیکھ کر ہی یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ گرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
قلفی اور گرمیوں کے تعلق پر کوئی شک نہیں لیکن بہت سارے انڈینز کے لیے قلفی ان کے بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے۔
بومبے قلفی کی بانی پونم شاہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنا سارا بچپن ممبئی میں اپنی نانی ماں کے گھر گزارا۔ ہمارے گھر کے قریب ایک دکان پر روایتی قلفی ملتی تھی۔‘
پونم شاہ جنوبی انڈین شہر کوئمبتور میں پیدا اور بڑی ہوئیں۔ علاقائی پکوانوں کو ترجیح حاصل تھی لہذا وہاں قلفی نہیں ملتی تھی لیکن گرمیوں میں ممبئی نے ان کے قلفی کے اپنے برینڈ کی بنیاد رکھی۔
2015 میں پونم شاہ اور ان کے دوست منیش کنکریا نے انڈیا کے سب سے بڑے قلفی برانڈ میں سے ایک کی بنیاد رکھی۔
قلفی کی تاریخ اور مغل باورچی خانے
قلفی شاہی خاندان کی خواہشات اور سائنسی تکنیک کا نتیجہ تھا۔ اس کی تاریخ 16ویں صدی کے مغل دربار کے باورچی خانوں میں جا کر ملتی ہے۔ عینِ اکبر میں مغل بادشاہ اکبر کے دور کے بارے میں روزانہ کی سرگرمیوں بشمول شاہی باورچی خانوں میں تیار کیے گئے پکوانوں کی تفصیلات درج ہیں اور اسی میں تاریخ میں سب سے پہلے قلفی کا ذکر نظر آتا ہے۔
انڈیا کے مغل پکوانوں پر وسطی ایشیا خصوصاً ایران کا کافی اثر و رسوخ ملتا ہے۔ قلفی کا لفظ فارسی کے لفظ ’قلفے‘ سے لیا گیا، جو ان تکون کپ کو کہتے تھے جس سے قلفی کو سانچا دیا جاتا ہے۔
13ویں صدی سےہمالیہ سے برف کا استعمال کر کے گرمیوں کے مشروب جیسے کے شربت کو ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ لیکن قلمی شورہ (پوٹاشیم نائٹریٹ) کو استعمال کر کے قلفی کو جمانے والی برف کو بنانے کی تکنیک عربوں کی تھی۔ پستے، زعفران اور دودھ (کنڈینسڈ ملک) کے مکس کو جما کر قلفی بنائی جاتی ہے۔
ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے اب پرانے طریقے کی جگہ کمرشل ریفریجریٹر اور ٹھیلے پر لگے فریزرز نے لے لی ہے۔
پونم شاہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا کے کچھ گاؤں میں قلفی ابھی بھی روایتی طریقے سے بنائی جاتی ہے لیکن شہروں میں یہ کم ہی نظر آتا ہے۔‘
عینِ اکبر میں قلفی کا ذکر تو ہے لیکن اس کے آغاز کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا آغاز شاید فارس اور سمرقند کے ٹھنڈے علاقوں میں ہوا ہو۔ ان علاقوں میں 400 سے 500 قبل مسیح سے سوربے اور فالودے جیسی ٹھنڈی میٹھی ڈش موجود رہی ہیں۔
پکوانوں کی مؤرخ چارمین اوبرائن کے مطابق مغلوں نے اس نظریے کو استعمال کر کے موجودہ کریمی اور خوشبودار ڈیزرٹ بنایا۔
قطع نظر اس کے کہ قلفی کی ابتدا کہاں سے ہوئی لیکن یہ بات پریشان کن ہے کہ انڈینز قلفی کو مغربی ممالک کی آئس کریم کا انڈین ورژن کہتے ہیں کیونکہ قلفی کی ایجاد آئس کریم سے غالباً بہت عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ آئسکریم کو تیار کرنے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔
قلفی اور آئس کریم کیا ایک ہی چیز ہے؟
دی لیلا ایمبیئنس گروگرام ہوٹل اینڈ ریذیڈنس کے ایگزیکٹو شیف ابھیشیک گپتا کہتے ہیں کہ ’قلفی آئس کریم سے بالکل مختلف ہے۔ قلفی ایک ٹھنڈا ڈیزرٹ ہے جو ڈیری سے بنایا جاتا ہے جسے جما دیا جاتا ہے۔ اس کا مکسچر ذائقے دار دودھ ہوتا ہے (الائچی، زعفران، پستہ، گلاب کی پنکھڑی) کو آہستہ سے پکایا جاتا ہے اور آہستہ سے پکانے کی وجہ سے شیرا بن جاتا ہے۔ اس مکسچر کو سانچے میں ڈال کر جمایا جاتا ہے۔ پراسس میں تیزی لانے کے لیے سانچے کو پانی اور نمک میں ڈبو دیا جاتا۔‘
گپتا سمجھاتے ہیں کہ دوسری جانب آئس کریم کے لیے مختلف فلیورز، چینی، دودھ اور کریم کو پھینٹا جاتا ہے اور اس کے بعد جما دیا جاتا ہے۔ یقیناً اسے پیش کرنے کے طریقے بھی بالکل مختلف ہیں۔
کلفی کو سانچے سے نکال کر دو حصوں میں کاٹ دیا جاتا ہے اور اس کے اوپر سیرپس، میوے اور زعفران ڈالی جاتی ہے جبکہ آئس کریم کو سکوپ کر کے کون یا باؤل میں ڈالا جاتا ہے۔
قلفی اور آئس کریم میں ایک بات مشترکہ ہے۔ دونوں پر کافی تجربات ہوئے ہیں۔ قلفی کے بہت سارے فلیورز اور ذائقے ہیں لیکن پستے والی قلفی آج بھی راج کرتی ہے۔