’میرا مندر میری مرضی‘: کراچی کے قدیم ہندو مندر پر تنازع کی مکمل کہانی

بی بی سی اردو  |  Jul 20, 2023

BBC

رات کا وقت ہے اور زمین پر بھاری مشینوں سے ڈرلنگ کی جارہی ہے جبکہ دونوں طرف اونچی عمارتیں ہیں۔ اس ویڈیو کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک تحریر شیئر کی جا رہی ہے کہ ’150 سال پرانا ہندو مندر گرا دیا گیا ہے‘۔

یہ ویڈیو ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ گروپس پر شیئر ہونے لگی۔ سرکاری افسران اور میڈیا کے لوگ صبح ہی اس مقام پر پہنچ گئے۔

انھوں نے محسوس کیا کہ اس معاملے میں کوئی مسلم تنظیم یا مسلمان شخص ملوث نہیں ہے بلکہ یہ ہندو برادری کا مسئلہ ہے۔

’میرا مندر، میری مرضی‘BBC

خود کو سوریاونشی راجپوت بتاتے ہوئے 45 سالہ ریکھا کا کہنا ہے کہ وہ ماری ماتا مندر کی چوتھی نسل کی متولی ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد گزشتہ 150 سالوں سے اس مندر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

تنازع اس وقت شروع ہوا جب ریکھا نے مندر کے احاطے میں تعمیراتی کام شروع کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مندر ان کی ملکیت ہے اور اس کا کسی پنچایت یا ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کا مندر ہے اور یہاں ان کی اپنی مرضی چلے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر مندر 150 سے 200 سال پرانا ہے تو اسے بھوت نہیں چلا سکتے، وہ انسان ہیں۔ اور وہ کسی مدراسی ٹرسٹ یا کسی دوسرے خاندان سے نہیں ہو سکتے۔

ریکھا کے رویے میں ان لوگوں کے خلاف غصہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جنھوں نے اس کی تعمیر پر اعتراض اٹھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان لوگوں کو ہندو نہیں مانتی ہیں۔

اس مندر کی تعمیر پر صرف ہندو برادری کے لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔ اعتراض اٹھانے والے لوگوں کو شرارتی عناصر بتاتے ہوئے ریکھا نے اسے مندر کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’دراصل وہ مندر کے بہانے میرے گھر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اکیلی عورت ہوں اور میں ان کا سامنا کیسے کروں گی۔‘

سولجر بازار میں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیںBBC

ماری ماتا کا مندر کراچی کے علاقے سولجر بازار کے 500 مربع فٹ رقبے پر واقع ہے۔

جب ہم پہنچے تو ریکھا مندر کے احاطے کی دیوار کے باہر ایک کرسی پر بیٹھی سپاری چبا رہی تھیں۔

انھوں نے مندر کا لوہے کا دروازہ کھولا اور اندر کا منظر دکھایا۔ اس پلاٹ پر بنائے گئے ایک چھوٹے سے کمرے میں مورتیاں رکھی گئی تھیں جبکہ دیگر چیزوں کو دوسرے کمروں میں صوفے پر رکھا گیا تھا۔

ریکھا نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے مندر ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا جسے انھوں نے بڑا کیا، ماربل کی ٹائلیں لگائیں اور اس کی مرمت کروائی۔

اس کے بعد وہ مجھے تعمیراتی جگہ پر لے گئیں جو ہر طرف سے بند تھی۔ اس کی ایک طرف دیوار تھی جبکہ دو طرف اونچی عمارتیں اور چوتھی جگہ پر سبز رنگ کا بڑا پردہ لٹکا ہوا تھا۔

اس کی اجازت کے بغیر کسی کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اس پر نظر رکھتی ہیں۔

وہ سبز پردہ ہٹا کر مجھے اندر لے گئیں۔ زمین کے اس ٹکڑے پر ایک گہرا گڑھا تھا۔ مندر کے کمرے کی وہی دیوار جو انھوں نے مجھے دکھائی تھی وہ گڑھے سے چند میٹر کے فاصلے پر تھی۔

ریکھا نے مجھے بتایا کہ ’یہاں چھ سے سات کمرے اور واش روم تھے، یہاں آٹھ خاندان رہتے تھے، جن کے 42 ارکان تھے۔ یہ مندر ہمارے آباؤ اجداد کا ہے۔ ہم نے یہاں کبھی کوئی مدراسی برادری کا فرد نہیں دیکھا۔ اس کے یہاں آنے کی وجہ اب یہ ہے کہ اس جگہ سونے کا ایک ٹکڑا ہے۔

ریکھا کے مخالفین نے ان پر اسلام قبول کرنے کا الزام لگایا ہے جس کی وہ تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو دکھائے۔

BBCمدراسی برادری کا کیا الزام ہے؟

ماری ماتا مندر وسطی کراچی میں واقع ہے۔ سولجر بازار کہلانے والے اس گنجان آباد علاقے میں جائیداد کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس مندر کے آس پاس مدراسی اور گجراتی برادریاں رہتی ہیں۔

ان برادریوں کا کہنا ہے کہ مندر ان کی ملکیت ہے۔ اس نے یہ جائیداد ریکھا کے آباؤ اجداد کو بطور سرپرست دی تھی۔

شاردا دیوی کا کہنا ہے کہ یہ مندر مدراسی برادری کا ہے، یہ انھیں دیا گیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ان کا ہے، یہ انھیں اس کی دیکھ بھال کے لیے دیا گیا تھا۔

شاردا دیوی کہتی ہیں کہ ’عمارت بنائی گئی تھی اور مندر چھوٹا تھا۔ جعلی دستاویزات تیار کی گئیں۔ ہم یہاں ہر اتوار کو عبادت کرتے تھے لیکن اب انھوں نے اسے تالا لگا دیا ہے۔

پرکاش کمار کراچی کے سرکاری ہسپتال میں وارڈ بوائے ہیں۔ ہماری اس سے مندر کی گلی میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے وارڈ بوائے کا یونیفارم پہن رکھا تھا۔

پرکاش نے بتایا کہ جب انھوں نے اس مندر پر توڑ پھوڑ کی خبر سنی تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اس جگہ پہنچے اور ریکھا سے مندر کا دروازہ کھولنے کو کہا تا کہ ’ہم خود اپنے مندر کی حفاظت کر سکیں۔‘

پرکاش کا کہنا ہے کہ ’مندر کو نالے پر بنائے گئے آٹھ بائی چھ کمرے میں منتقل کر دیا گیا ہے اور انھوں نے عمارت بنانے کے لیے یہ زمین سات کروڑ روپے میں بیچ دی ہے۔

ماتا کی چوکی کہاں ہے؟

ایک اور ناراض شخص ساگر کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے ’دیوی کا مقام‘ بنایا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ان کا بت کسی سے پوچھے بغیر نالے پر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ توہین مذہب ہے اور جو بھی اس کا ذمہ دار ہے اسے پاکستانی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سیما رند: ڈاکوؤں کا کشمور، سندھ میں ہندو کمیونٹی کی عبادت گاہ پر حملہ، جانی نقصان نہیں ہوا

’ہاتھ جوڑ رہا ہوں سب باہر بیٹھ جاؤ‘ سیما اور سچن کی کہانی میں میڈیا کی دلچسپی اور انٹرویو کا احوال

محبت میں گرفتار ہو کر انڈیا پہنچنے والی پاکستانی خاتون: ’پب جی گیم کے ذریعے میری بیوی کو ورغلایا گیا، بچوں سمیت واپس لایا جائے‘

BBCتعمیر رک گئی

مندر کے انہدام کی خبر مقامی اخبارات میں شائع ہوئی اور یوٹیوبرز یہاں پہنچے تو انھوں نے اسے پاکستان کے خلاف انڈیا کی ایک سازش قرار دیا۔

اس پر کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے بھی اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے مندر کے احاطے میں تعمیراتی کام روک دیا ہے۔ کمیشن نے محکمہ اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ معلوم کریں کہ مندر کس کی جائیداد ہے۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن سکھ دیو ہیمنانی نے بی بی سی کو بتایا کہ چاہے وہ مدراسی ہندو پنچایت ہو یا ریکھا، دونوں ہی مندر کی ملکیت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔

BBC

وہ کہتے ہیں ’ہم نے سیکریٹری برائے اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو خط لکھا ہے اور ان سے تحقیقات کرنے کو کہا ہے۔ وہ معلوم کریں گے کہ آیا یہ پرائیویٹ پراپرٹی ہے یا کمیونٹی پراپرٹی تا کہ قانون کے تحت مناسب قدم اٹھایا جا سکے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کراچی کے 150 سے زائد مندروں کا کیس اس وقت ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔ یہ وہ مندر ہیں جن پر تقسیم کے بعد عمارتیں بنی تھیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More