کیرالہ کا ہم جنس پرست جوڑا: ’جب ڈاکٹر ہمارے رشتے کو نہیں سمجھ سکے تو دوسرے کیسے سمجھیں گے؟‘

بی بی سی اردو  |  Jul 16, 2023

BBC

’وہ اور میں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ہم دونوں کے درمیان اچھی ہم آہنگی تھی اور ہم نے جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے کا انتخاب نہیں کیا۔‘

یہ کہنا ہے انڈیا کی ریاست کیرالہ کے ہم جنس پرست جوڑے، عفیفہ اور سمیہ کا۔

21 سالہ سمیہ شیرین اور ان کی ہم عمر عفیفہ کیرالہ کے ملاپورم ضلع کے کنڈوٹی علاقے کی رہائشی ہیں۔ اس ہم جنس پرست جوڑے نے اپنے والدین کی شدید مخالفت کے باجود عدالتی مداخلت کے بعد ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی تمل کو اپنے تعلق اور اس کے باعث معاشرتی سطح پر پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا۔

ان کے تعلق کی بنیاد کووڈ وبا کے دوران پڑی تھی جب وہ 12ویں جماعت میں ہم جماعت تھیں اور انھوں نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ایک ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر ایک ساتھ رہنا شروع کیا تھا۔

عفیفہ کہتی ہیں کہ ’وہ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی سب سمجھ جاتی ہے اور میں بھی اس کے بنا کہے سب جان جاتی ہوں۔ ہماری اسی ہم آہنگی کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے سے پیار ہو گیا اور ہم نے ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کرنے میں جنس کو نہیں دیکھا کیونکہ ہم دونوں ایک ہی سوچ کی حامل ہیں۔‘

عفیفہ اور سمیہ کے تعلق اور رشتے کے بارے میں سب سے پہلے عفیفہ کے گھر والوں کو شک ہوا تھا۔ جس کے بعد انھوں نے ملاپورم کونڈتی تھانے میں 27 جنوری 2023 کو ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔

جس کے بعد یہ جوڑا 29 جنوری کو ملاپورم مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا اور انھوں نے ایک ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عدالت نے اسے قبول کرتے ہوئے دونوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔

جوڑے کو دوبارہ جدا کر دیا گیا

عدالت کی جانب سے ایک ساتھ رہنے کی اجازت ملنے کے بعد عفیفہ اور سمیہ نے چند ماہ ہی ایک ساتھ گزارے تھے کہ عفیفہ کے اہلخانہ اور رشتہ دار 30 مئی کو ان کے دفتر جا پہنچے اور انھوں نے عفیفہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے دونوں کو پھر علحیدہ کر دیا۔

سمیہ نے اس معاملے کی اطلاع ایرناکلم بدھنکورسو اور کونڈوتی پولیس سٹیشنوں کو دی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس طرح، پانچ جون کو سمیہ نے کیرالہ ہائی کورٹ میں عفیفہ کی جبری علیحدگی سے متعلق ایک درخواست دائر کر دی۔

عدالت نے عفیفہ کو 9 جون کو پیش کرنے کا حکم دیا تاہم انھیں پیش نہیں کیا گیا۔ اور ان کے وکلا کی طرف سے وقت مانگا گیا۔ اس کے بعد 19 جون کو عفیفہ کو ان کے والدین نے عدالت میں پیش کیا۔

لیکن عفیفہ نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ سمیہ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں اور وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ اس کے بعد وہ عدالت سے اپنے والدین کے ہمراہ چلی گئیں۔

جبری علاج

کچھ دنوں بعد، عفیفہ نے سمیہ کو فون پر مطلع کیا کہ وہ عدالت میں اپنی مرضی سے بیان نہیں دے سکیں کیونکہ انھیں ایک دوائی دی گئی تھی اور ان کا جبری طور پر علاج کیا جا رہا ہے جسے کنورژن تھراپی کہا جاتا ہے تاکہ ان میں ہم جنس پرستانہ کشش اور خیالات کو تبدیل کیا جا سکے۔

جس کے بعد معاشرے کے کمزور افراد کے لیے کام کرنے والی ونجا کلیکٹو نامی ایک تنظیم کے ذریعے پولیس کی مدد سے عفیفہ کو ان کے گھر سے بازیاب کرانے کی کوششیں کی گئیں۔

لیکن عفیفہ کے والدین اور گاؤں کے لوگ اس کے خلاف تھے۔ پولیس کی مدد سے عفیفہ کو سخت جدوجہد کے بعد بازیاب کرایا گیا۔

عفیفہ نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے عدالت میں یہ بیان کیوں دیا تھا کہ وہ سمیہ کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔

’انھوں نے مجھے زبردستی علاقے کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا جہاں انھوں نے خون کے ٹیسٹ کے بہانے مجھے بے ہوشی کی دوا دی۔ میں دو دن تک بے ہوش رہی۔ اس کے بعد میں نے ڈاکٹر کو اپنے رشتے کے بارے میں بتایا اور ان سے کہا کہ میں سمیہ کے پاس جانا چاہتی ہوں۔‘

لیکن عفیفہ کہتی ہیں کہ ’وہاں ڈاکٹر اور قونصل نے میرا علاج یہ کہہ کر کیا کہ مجھے ہم جنس پرستی کا عارضہ ہے۔ دو خواتین کے درمیان یہ تعلق غیر فطری ہے، لیکن اسے آسانی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش کیے جانے سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ وہ سمیہ کے ساتھ جانا چاہتی ہیں لیکن ڈاکٹر نے غصے میں آ کر انھیں بے ہوشی کی اضافی خوراک دے دی۔

جس کے باعث جب انھیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو ’وہ اپنے پورے حواس میں نہیں تھیں۔ ان کا جسم لڑکھڑا رہا تھا، انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ چلتے ہوئے گر جائیں گی، اور اس وقت وہ ٹھیک طرح سے سوچنے یا بولنے سے قاصر تھیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والدین نے بھی دھمکی دی تھی کہ ’اگر تم مر بھی جاؤ تب بھی ہم تمھیں سمیہ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم سمیہ کو بھی مار ڈالیں گے۔‘

عفیفہ نے کہا کہ ’انھوں نے عدالت میں جو کچھ بھی کہا وہ اس لیے تھا کہ انھیں ڈر تھا کہ اگر اس نے کوئی بات کی تو سمیہ کو کچھ ہو جائے گا۔‘

سمیہ اور عفیفہ کا دعویٰ ہے کہ معاشرہ ان کی محبت کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم پر تنقید کی جاتی ہے کہ ہم صرف جنسی خواہش کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ساتھ رہنے والی دو عورتوں کو صرف ایک ہی نظر ’جنسی خواہش‘ کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو کچھ سمجھانا یا ان سے بات کرنا فضول ہے۔‘

سمیہ کہتی ہیں کہ ’جب ڈاکٹر ہمارے رشتے کو نہیں سمجھ سکے تو دوسرے کیسے سمجھیں گے، ہم ان سے کیسے توقع کر سکتے ہیں؟‘

ان کا دعویٰ ہے کہ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ان پر تنقید کرتے ہیں: ’وہ کہتے ہیں کہ ہمارے رشتے کی وجہ ’ہوس‘ ہے۔ لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنے اصلی اکاؤنٹ سے ہم پر تنقید کر سکیں۔‘

دونوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ انڈیا میں ہم جنس پرست جوڑوں کے لیے قانونی طور پر شادی کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

جبکہ سپریم کورٹ کا ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کیس کی سماعت ابھی چل رہی ہے۔

عفیفہ اور سمیہ کہتی ہیں کہ ’سپریم کورٹ کو ان کے جذبات کو سمجھنا چاہیے اور ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنا چاہیے اور ہم جیسے لوگوں کو قانونی طور پر ساتھ رہنے کی اجازت دینی چاہیے۔‘

جوڑے کی پولیس تحفظ کی درخواست

عفیفہ اور سمیہ نے ایک بار پھر کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور کہا ہے کہ انھیں عفیفہ کے والدین اور مختلف حلقوں سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور وہ دونوں کو پہلے کی طرح زبردستی الگ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ہائی کورٹ کے جج جسٹس کنکی کرشنن نے، جنھوں نے پانچ جولائی کو کیس کی سماعت کی تھی، کیرالہ پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ دونوں لڑکیوں کو مناسب پولیس تحفظ فراہم کرے۔ کیس کی اگلی سماعت 21 جولائی کو ہو گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More