لون ایپ کیس میں ایف آئی اے کی کارروائی، راولپنڈی سے نو افراد گرفتار

بی بی سی اردو  |  Jul 14, 2023

Getty Images

ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل راولپنڈی نے آن لائن قرضے دینے والی ایپس کے معاملے میں بلیک میلنگ میں ملوث متعدد ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

ترجمان ایف آئی اے کے مطابقچھاپہ مار کارروائیاں سیدپور روڈ راولپنڈی میں کی گئیں جہاں سے نو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

حکام کے مطابق 19 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اورسید پور روڈ پر واقع پلازے میں موجود کمپنی کے مختلف دفاتر کو سیل کر دیا گیا۔

ایف آئی اے کے مطابق ملزمان کو روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کو کال کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا تھا۔ آن لائن کمپنی میں مختلف سیکشن بنے ہوئے تھے۔ ملزمان متاثرہ شہریوں، ان کے دوستوں اور ان کے رشتےداروں کو مختلف نوعیت کی کالز کرتے تھے۔

ہر ملزم کو روزانہ کی بنیاد پر 100 سے 150 کالز کرنے کا ٹارگٹ دیا جاتا تھا۔

ایف آئی اے کے مطابق مذکورہ دفاتر میں ٹارچر کالز سے متعلق علیحدہ سیکشن بنے ہوئے تھے۔ ہر سیکشن کو کالز کرنے کے حوالے سے الگ الگ کام سونپے جاتے تھے۔ ڈی زیرہ، ڈی ون، ڈی ٹو، ڈی ایس ون، ڈی ایس ٹو اور ڈی ایس تھری کے نام سے سیکشنبنے ہوئے تھے۔

ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ مذکورہ لون ایپس کے ذریعے ملزمان کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاتی تھی۔ بعد ازاں ملزمان متاثرہ شہریوں کو ہراساں کرتے تھے۔ چھاپے کے دوران بڑی تعداد میں دستاویزات، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس، سمز برآمد کر لی گئی۔

ایف آئی کا کہنا ہے کہ ملزمان کو گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ان کمپنیوں کے خلاف حالیہ کارروائی صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں 42 سالہ محمد مسعود کی مبینہ خودکشی کے بعد شروع ہوئی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد میں اس لون ایپ کمپنی کے دفتر کو بھی سیل کر دیا ہے جس نے مسعود کو قرضہ دیا تھا۔

محمد مسعود نے مبینہ طور پر خودکشی کرنے سے قبل اپنی بیوی کے نام آخری پیغام میں کہا تھا کہ ’میں نے بہت سارے لوگوں کے پیسے دینے ہیں، سود کے۔ انھوں نے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے۔‘

اسی پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ’نہ میں آپ کے قابل ہوں نہ بچوں کے۔‘

شوہر کی خودکشی کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں ان کی بیوہ نے بتایا کہ محمد مسعود نے گھر کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے آن لائن لون ایپس سے قرض لیا تھا جس کی واپسی کے لیے ان کمپنیوں کے نمائندے ’بلیک میل‘ کرتے تھے اور ’ڈیٹا لیک کرنے کی دھمکیاں‘ دیتے تھے۔

تھانہ ریس کورس نے محمد مسعود کے بھائی مزمل حسین کی مدعیت میں خودکشی کی رپورٹ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا تاہم ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محسن بٹ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سائبر کرائم ونگ سے رپورٹ طلب کی ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق واقعے میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے نے ہدایت کی ہے کہ قرض کے نام پر شہریوں کو ہراساں کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایف آئی اے کے مطابق سائبر کرائم سرکل راولپنڈی نے لواحقین کی درخواست پر محمد مسعود کو موصول ہونے والی کالز پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جس کی سربراہی انسپکٹر بدر شہزاد کر رہے ہیں۔

تحقیقات کے تحت اسلام آباد میں جی ایٹ سیکٹر میں دو چھاپے مارے گئے اور لون ایپ کمپنی کے دفتر کو سیل کرتے ہوئے متعدد لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لیے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بھی غیر قانونی لون ایپس کے حوالے سے معلومات لی جا رہی ہیں جبکہ غیر قانونی لون ایپس کو بلاک کرنے کے لیے پی ٹی اے سے درخواست کی جائے گی۔

واضح رہے کہ محمد مسعود کے بھائی کا کہنا تھا کہ انھیں پیر کو اطلاع ملی کہ ان کے بھائی نے اپنے گھر کے سٹور روم میں پھندا ڈال کر خودکشی کی۔

مزمل حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ بے روزگاری سے متاثرہ مسعود نے ابتدائی طور پر ایک آن لائن لون ایپ سے 22 ہزار روپے قرض لیا تھا جو بروقت ادائیگی نہ کیے جانے پر بڑھتا چلا گیا اور انھوں نے مسلسل دباؤ میں رہنے کے باعث اپنی زندگی ختم کر لی۔

’میرے شوہر قرض کے دلدل میں پھنستے گئے اور ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے تھے‘

مبینہ طور پر اپنے آخری پیغام میں مسعود نے کہا کہ ’میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ مجھے معاف کر دینا۔‘

اس آڈیو کلپ کے مطابق وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ’اس لیے میں آپ کو بول رہا تھا کہ گھر بیچ دیتے ہیں، آپ نے بولا نہیں گھر نہیں بیچنا۔

’میرا موبائل بند رکھنا، کم از کم ایک مہینہ۔‘

ادھر محمد مسعود کی بیوہ کا کہنا ہے کہ چھ ماہ قبل ان کے شوہر کی نوکری ختم ہوگئی تھی۔ مسعود نے گھریلو اخراجات کی ادائیگی کے لیے شروع میں ایک آن لائن لون ایپ سے صرف 13 ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔

ایک ویڈیو پیغام میں مسز مسعود نے بتایا کہ ’ایک ہفتے بعد آن لائن کمپنی نے تنگ کرنا شروع کر دیا اور رقم سود کے ساتھ 50 ہزار تک بڑھا دی۔ میرے شوہر نے آن لائن کمپنی کا قرض چکانے کے لیے ایک دوسری آن لائن کمپنی سے 22 ہزار روپے لون لیا۔‘

وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ ’ایک ہفتے بعد آن لائن کمپنیوں نے زندگی اجیرن کر دی۔‘

’آن لائن کمپنیوں کے نمائندوں نے بلیک میل کرنا شروع کر دیا اور دھمکیاں دیں۔ آن لائن کمپنیوں نے موبائل سے ذاتی ڈیٹا لیک کرنے کی بھی دھمکی دی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر لون کے اوپر مسلسل رقم ادا کرتے رہے۔ پریشانی میں ہم نے آن لائن کمپنیوں کا قرض اتارنے کے لیے لوگوں سے قرض لیا۔

’میرے شوہر قرض کی دلدل میں پھنستے گئے اور ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے۔ میرے شوہر نے دلبرداشتہ ہو کر گلے میں پھندا لگا کر خود کشی کرلی۔‘

مسز مسعود کہتی ہیں کہ ’میرے دو بچے ہیں، میری دنیا اجڑ گئی۔ میری اپیل ہے اِن آن لائن کمپنیوں سے میرے شوہر کا حساب لیا جائے۔‘

اسی تناظر میں ایک لون ایپ کے نمائندے کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی ہے جس میں اسے یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مسعود نے کمپنی کو 22 ہزار تین سو چھپن روپے ادا کرنے ہیں۔ متعلقہ آڈیو میں یہ نمائندہ کہتا ہے کہ ’کیا مذاق بنایا ہوا ہے؟ میں تم لوگوں کے گھروں میں کالیں کروں وہ اچھا رہے گا؟‘

جب اس نمائندے کو بتایا جاتا ہے کہ مسعود نے تو صرف 13 ہزار روپے لیے تھے تو اس پر آگے سے جواب آتا ہے کہ ’تم لوگ سارے فراڈیے ہو۔‘

یہ دریافت کیے جانے پر کہ اگر لون ادا نہ کیا گیا تو کمپنی کیا کرے گی، یہ نمائندہ دھمکی دیتا ہے کہ ’میں سارے کنٹیکٹ نمبروں پر کالیں کروں گا۔ ہمارے پاس گیلری (تصاویر اور ویڈیوز) تک رسائی ہوتی ہے۔‘

خیال رہے کہ مسعود کی اہلیہ کے مطابق کمپنی کے نمائندے مختلف شہروں کے نمبروں سے کال کر کے یہ دھمکیاں دیتے تھے کہ وہ ان کی ذاتی معلومات لیک کر دیں گے۔ ان کے مطابق یہ دھمکی بھی دی جاتی تھی کہ اگر رقم رات 12 بجے تک ادا نہ کی گئی تو یہ دگنی ہوجائے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا شوہر تو آج چلا گیا، میری زندگی برباد ہوگئی مگر کسی اور کا گھر برباد نہ ہو بس۔‘

Getty Imagesقرض کی آن لائن ایپس کیا ہیں؟

سوشل میڈیا پر قرضہ دینے کی بہت ساری آن لائن ایپس موجود ہیں جو لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرتی ہیں۔ ڈیجیٹل قرضہ دینے کی یہ کمپنیاں مختلف ناموں سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور ان میں زیادہ تر کمپنیاں 10000 سے 50000 ہزار تک قرضہ فراہم کرتی ہیں۔

ان کمپنیوں کی جانب سے تیز، آسان، بروقت طریقوں سے قرضہ دینے کے اشتہار سوشل میڈیا پر چلتے ہیں جس میں قرضہ لینے والے خواہش مند افراد کو ایک سے دو دن میں قرضہ کی سہولت دینے کا پیش کش کی جاتی ہے۔

آن لائن قرضہ دینے والی یہ ایپس پاکستان میں پلے سٹور پر سب سے سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپس میں شامل ہیں۔

حکومتی ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے ان ایپس پر اپنا مؤقف دیا تھا کہ ڈیجٹیل قرض دینے والی کچھ ایپس نان بینکنگ کمپنیوں سے منسلک ہیں اور انھیں ایس ای سی پی کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ اس سلسلے میں انھیں لائسنس دیا جاتا ہے یا انھیں سٹیٹ بینک لائسنس دیتا ہے۔ ’تاہم بہت ساری ایسی ایپس بغیر لائسنس کے کام کر رہی ہیں جو غیر قانونی ہیں کیونکہ قرضہ دینا ایک لائنسس یافتہ عمل ہے اور پاکستان کا قانون کسی کو نجی طور پر قرضے دینے کی ممانعت کرتا ہے۔‘

ایس ای سی پی کے مطابق اس کی جانب سے لون شارک کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرض لینے والوں کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کا بغور مطالعہ کر لیں جس میں قرض پر سود، سروس چارجز، تاخیر سے قرض کی ادائیگی پر جرمانے وغیرہ شامل ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More