بچے ٹک ٹاک پر خطرناک اور مہلک چیلنجز کیوں کرتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 11, 2023

Getty Images

ٹِک ٹاک بنانا یا اس کے چیلنجز کو پورا کرنا اتنا ہی آسان ہو سکتا ہے جتنا کہ رقص کا ایک نیا انداز سیکھنا، کھانا بنانے کی کوئی نئی ترکیب سیکھنا یا پھر تازہ ترین فلٹر آزمانا۔

لیکن بلومبرگ بزنس ویک کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس میں بہت سے مہلک چیلنجز بھی شامل ہو گئے ہیں اور انھوں نے مقبولیت بھی حاصل کی ہے جس میں نومبر 2022 سے قبل کے 18 مہینوں کے دوران کم از کم 20 بچوں کی موت ہو گئی ہے۔

ان چیلنجز میں سے ایک اپنی سانسوں کو کنٹرول کرنا یا روکنا شامل ہے تاکہ وہ بے ہوش ہو جائیں۔ اس کے پس پشت یہ خیال کارفرما ہے کہ جب وہ ہوش میں آئيں تو ان کے ایڈرینالین رش کو فلمایا جائے۔

ایسا ہی ایک دوسرا چیلنج ہے جس میں ہذیان کا دھوکہ پیدا کرنے کے لیے بعض صارفین عام نزلہ زکام اور بخار کی دوائیوں کا مجوزہ خوراک سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ امریکی ضابطہ کار ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ان دواؤں کے فعال جزو ڈفین ہائیڈرمائن کے بارے میں انتباہ بھی جاری کیا ہوا ہے کہ اس کی زیادہ مقدار دل کے مسائل، دل کے دورے، کوما میں چلے جانے اور یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔

تو پھر ایسے خطرناک کرتبوں سےچے اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟

Getty Imagesہم عمر ساتھیوں اور دوستوں کا دباؤ یا اور کچھ۔۔۔

کیلیفورنیا کی فیلڈنگ گریجویٹ یونیورسٹی میں میڈیا سائیکالوجی ریسرچ سینٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر پامیلا رٹلیج کا کہنا ہے کہ اس کی ایک ممکنہ وضاحت ہم عمر ساتھیوںیا دوستوں کا دباؤ اور سماجی حلقوں میں مقبول ہونے کی خواہش ہو سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ انھیں کوئی ایسا چیلنج دیتے ہیں جس سے انھیں معاشرے میں اہمیت ملتی ہے تو وہ خود کو دوسرے سے ابتر سمجھتے اور کسی بڑی چیز کا حصہ محسوس کرتے ہیں جو انھیں دوسرے لوگوں سے جڑنے کا موقع فراہم کرے گا۔

'بہت سے لوگ اس کے خلاف نہیں جا سکتے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی انھیں بزدل سمجھے یا یہ سمجھے کہ یہ ان کے بس کا نہیں۔۔۔ وہ محروم رہنا نہیں چاہتے ہیں۔‘

وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ بچے ان طرح کی چیزوں کی ذریعے معاشرے میں اپنے مقام کا پتا لگا رہے ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کسی ’چیلنج کو قبول کرنے میں بہت زیادہ تنقیدی سوچ شامل نہیں ہوتی ہے۔‘

انھی خیالات کی گونج امریکہ کی سائراکیوز یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کی پروفیسر مکانا چوک کے ہاں ملتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ بچوں اور نوعمروں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے کہنے پر خطرناک کام میں شامل ہوتے ہیں، لیکن خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں یہ چیلنجز بہت عام ہو گئے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’دوستوں کے درمیان رہتے ہوئے پرخطر کام کرنے میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر معاملہ بگڑنے لگتا ہے یا بات حد سے آگے بڑھنے لگتی ہے تو دوست مدد کو ہوتے ہیں یا وہ امداد حاصل کر سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کے چیلنجز میں خطرناک کام کو تنہائی میں اس نیت کے تحت انجام دیا جاتا ہے کہ اس کے ریکارڈ شدہ ویڈیو کو بعد میں شیئر کیا جائے گا۔‘

یہاں ایک اہم حیاتیاتی عنصر پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ عقلی سوچ کے لیے ذمہ دار اور خطرے کا اندازہ لگانے کی صلاحیت والا دماغ کا حصہ پریفرنٹل کورٹیکس اس وقت تک پوری طرح تیار نہیں ہوتا جب تک کہ لوگ اپنی عمر کی 20 کی دہائی کے وسط تک نہ پہنچ جائیں۔

اس کا مطلب ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں 'غلط اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی حقیقی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔اور ان کے لیے قوت محرکہ کو روک پانا مشکل ہوتا ہے۔

رٹلیج کا کہنا ہے کہ یہ ’والدین کے لیے شاید سب سے خوفناک بات‘ ہے۔

Getty Imagesبچے اپنے جوش کو روکنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ ابھی فروغ پا رہے ہوتے ہیں اور نشونما کے مرحلے میں ہوتے ہیںمتاثرہ خاندانوں کی ٹک ٹاک کے خلاف مقدمہ بازی

کچھ خاندان ٹِک ٹاک پر مقدمہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا الگورتھم ان بچوں کی موت کا ذمہ دار ہے جنھوں نے خطرناک چیلنجز میں حصہ لیا۔

سوشل میڈیا وکٹمز لا سینٹر کے میتھیو برگمین کہتے ہیں کہ ’جب ہم بچوں کی زندگیوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو دس لاکھ میں سے ایک (موت بھی) بہت زیادہ ہے۔‘

ان کی کمپنی امریکہ میں چھ خاندانوں کے مقدمات کی نمائندگی کر رہی ہے، جن میں سے پانچ اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔

ان میں نو سالہ اریانی جیلین ارویو کے والدین بھی شامل ہیں۔ ارویو فروری 2021 میں اس وقت ہلاک ہو گئیں تھیں جب انھوں نے اپنا گلا دبا کر سانس روکنے کی کوشش کی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اریانی ایک چیلنج کو انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی جسے انھوں نے ٹک ٹاک پر ’فار یو‘ فیڈ پر دیکھا تھا۔

برگ مین کا استدلال ہے کہ وہ اس مواد کی تلاش میں نہیں گئی تھیں بلکہ یہ ان کے صفحہ پر موجود تھا اور یہ ویڈیو پلیٹ فارم کے الگورتھم کے ذریعہ خود بخود پیش کی گئی تھی۔

لہذا اگرچہ ٹک ٹاک نے وہ مواد نہیں بنایا لیکن اس نے ’وہ ذریعہ فراہم کیا جس کے ذریعے اس چیلنج کو بڑھایا اور پھیلایا جا سکتا ہے‘ یا دوسرے لفظوں میں اسے ’وائرل‘ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹِک ٹاک کا نشہ: نوجوان چاہ کر بھی ایپ ڈیلیٹ کیوں نہیں کر پاتے

’جب آپ ایپ کھولتے ہیں تو لگتا ہے کہ بچے آپ پر ہنس رہے ہیں‘

ٹک ٹاک پر شامی بچوں کی بھیک کا 70 فیصد ٹک ٹاک کی جیب میں

اب تک سوشل میڈیا کمپنیوں کو جوابدہ بنانے کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ سنہ 2022 اکتوبر میں امریکہ میں ٹک ٹاک پر 10 سالہ نائلہ اینڈرسن کی موت کا ذمہ دار ہونے کے الزام والا مقدمہ خارج کر دیا گیا۔

امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک وفاقی جج نے فیصلہ دیا کہ کمیونیکیشن ڈیسنسی ایکٹ کی دفعہ 230، ٹک ٹاک کو اس معاملے میں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس قانون کے مطابق عام طور پر ناشرین کو اس قسم کی کسی ذمہ داری سے مستثنیٰ سمجھا جاتا ہے جہاں مواد صارفین نے تیار کیا ہو۔ برگ مین اور ان کی فرم اس قانون کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برگمین کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ یا امریکہ میں ہر دوسری کمپنی کا فرض ہے کہ وہ مناسب دیکھ بھال کرے اگرچہ مکمل دیکھ بھال نہ سہی۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاک ہر بچے کی حفاظت کا سو فیصد ذمہ دار ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ والدین ذمہ دار نہیں، وہ بھی ذمہ دار ہیں۔

ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹِک ٹاک اور ہر دوسری سوشل میڈیا کمپنی کو حفاظت کا وہی فرض ادا کرنے کی ضرورت ہے جو ہم سب اپنی عام زندگی میں کرتے ہیں۔‘

Getty Imagesٹک ٹاک کے سی ای او شاؤ زی چیو سے امریکی کانگریس میں پوچھ گچھ کی گئیٹِک ٹاک کا کیا کہنا ہے؟

برگ مین یہ چاہتے ہیں کہ ٹک ٹاک خطرناک مواد کی نگرانی اور اسے ہٹانے کے لیے مزید کام کرے، اور ساتھ ہی اپنے الگورتھم کو بھی بہتر بنائے تاکہ بچوں کو اس طرح کے خطرناک مواد سے 'ٹارگٹ' نہ کیا جائے۔

ٹِک ٹاک کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ٹک ٹاک پر خطرناک رویے کی سختی سے ممانعت کرتے ہیں، اور اسے اپنے پلیٹ فارم سے دور رکھنے کے لیے بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ان (تدارک) میں مواد کو ہٹانا، سرچ کو ری ڈائریکٹ کرنا، وارننگ لیبل لگانا، اور ماہرین کے ساتھ مل کر وسائل تیار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔‘

کمپنی کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس کے ہاں 40,000 کنٹینٹ ماڈریٹرز 24 گھنٹے کام کرتے ہیں اور مارچ میں کمپنی نے ’نئے خطرات اور نئے ریوں سے پیدا ہونے والے ممکنہ نقصانات سے نمٹنے کے لیے‘ اپنی کمیونٹی گائیڈ لائنز کو اپ ڈیٹ کیا ہے۔

ویب سائٹ نے یہ بھی کہا کہ وہ ’بالغوں کے لیے مواد‘ کو 18 سال سے زیادہ عمر کے بالغوں تک محدود کر دے گی اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ اس کے ’فار یو فیڈ‘ پر پروموٹ کیا گیا مواد ’سامعین کے وسیع طبقے کے لیے موزوں ہو۔‘

میڈیا سائیکالوجی میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تحقیق کرنے والی چاک کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’پیچیدہ' مسئلہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’حقیقت پسندانہ طور پر، آپ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ہر چیز کے لیے مسلسل ذمہ دار رہیں گی اور وہ بھی اس صورت میں جب لاکھوں کروڑوں چیزیں مستقل بنیادوں پر روزانہ گزرتی ہیں۔‘

Getty Imagesسوشل میڈیا پرروزانہ اربوں مواد دیکھے جاتے ہیں

لیکن ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی ’کچھذمہ داری‘ بھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا مطلب ہے کہ انھوں نے اسے بنایا، اسے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم پر پوسٹ کرنے والے افراد کی بات نہیں، یہ اصل سوشل میڈیا کپمنیوں کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس کو کیا ملے۔‘

پنسلوانیا میں ٹک ٹاک کے حق میں فیصلے کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی قانون مکمل طور پر طے نہیں ہے۔

رواں سال کے شروع میں امریکی سپریم کورٹ سے اس بارے میں فیصلہ سنانے کے لیے کہا گیا تھا کہ آیا ٹوئٹر، فیس بک اور گوگل، جو یوٹیوب کے مالک ہیں، اس لیے پیرس اور استنبول میں ہونے والے مہلک حملے کے لیے دہشت گردی کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے ذمہ دار ہیں۔

بڑے پیمانے پر توقع کی جارہی تھی کہ یہ پہلا کیس ہوگا جس میں سپریم کورٹ اس بات پر فیصلہ دے گی کہ آیا سیکشن 230 کو، جس کا حوالہ پنسلوانیا میں دیا گیا تھا، بطور دفاع استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عدالت نے اس معاملے کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو دہشت گرد اکاؤنٹس کو فروغ دینے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے دفعہ 230 کے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔

اور ان میں اسے ایک جج کیٹانجی براؤن جیکسن نے خبردار کیا کہ ’دوسرے الزامات اور مختلف ریکارڈ پیش کرنے والے دیگر مقدمات کے مختلف نتائج ہو سکتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More