BBC
سیما حیدر اور سچن مینا انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے 70 کلو میٹر دور اپنے دو کمرے کے مکان میں بیٹھے ہیں۔
پیر کی صبح وہ سرحد پار محبت کی اس کہانی پر میڈیا اور مقامی لوگوں کی بھیڑ کے سامنے اِنھیں جوابات کو دہرا رہے ہیں جو کہ تین روز سے زیرِ گردش ہیں۔
ربوپورہ گاؤں اور آس پاس مسلسل بارش ہو رہی ہے لیکن سچن کی گلی اور چھوٹے سے گھر میں پاؤں رکھنے کی بھیجگہ نہیں۔
سچن اور سیما دونوں ایک ٹی وی چینل پر لائیو انٹرویو دے رہے ہیں اور ساتھ میں سیما کے پاکستانی شوہر غلام حیدر بھی سعودی عرب سے موجود ہیں۔
سیما، سبز لباس میں سرخ دوپٹہ اوڑھے کیمرے سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں کہ ’ہمارے بچے انھیں (سچن کو) پاپا کہتے ہیں۔ جو پیار دے گا، وہ پیار پائے گا۔‘
اسی دوران وہاں موجود دوسرے میڈیا والے احتجاج کرتے ہیں کہ 10 منٹ کے انٹرویو کے نام پر گذشتہ ایک گھنٹے سے یہ لائیو شو جاری ہے۔
سچن کیمرے کی طرف سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ سیما ان کی طرف دیکھتی ہیں اور مسکراتے ہوئے ان کا بازو تھپتھپاتی ہیں اور کہتی ہیں ’تم کیوں اتنی چنتا (فکر) کر رہے ہو؟‘
BBC
سچن اس کے جواب میں دھیمے سے مسکراتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وہ قبول کرتے ہیں کہ سیما اور ان کے ملن کا طریقہ قانونی طور پر صحیح نہیں ہے لیکن ان کی نیت ٹھیک تھی۔
سچن کہتے ہیں ’سرکار جو سزا دے گی، میں اس کے لیے تیار ہوں۔۔۔‘ لیکن سیما فوراً مداخلت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’سچن کو سزا نہیں ملے گی۔ ملے گی تو مجھے بھی ملے گی، سچن سے زیاد جرم ہے تو میرا جرم ہے۔ انھوں نے صرف ساتھ دیا ہے، آئی تو میں ہوں نا۔‘
وہاں ایک پولس کانسٹیبل بھی موجود ہے اور بڑے تجسّس سے ان کے جوابات سن رہا ہے۔
یہ بظاہر نہ ختم ہونے والا انٹرویو جاری ہے اور مسلسل بارش کے باوجود میڈیا کی بھیڑ میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سچن کے والد بار بار بے چینی سے باہر اور اندر آ جا رہے ہیں۔ وہ انٹرویو لینے والوں سے بار بار درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اسے مختصر رکھیں لیکن ان کی اپیل سننے والا کوئی نہیں ہے۔
ہندوؤں کے لیے ساون کا مقدس مہینہ جاری ہے جس میں کچھ عقیدت مند روزہ رکھتے ہیں اور بعض گنگا ندی میں غسل کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا ’پورا خاندان‘ آج صبح ہی ’گنگا اسنان‘ کر کے لوٹا ہے اور یہ جوڑا تبھی سے میڈیا سے بات کر رہا ہے۔
سچن کے والد کہتے ہیں کہ سیما اور سچن بنا کھائے پیے انٹرویو دے رہے ہیں، ان کی زبان اور حلق تک تھک گئے ہیں۔ لیکن سوالوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سیما اعلان کر چکی ہیں کہ وہ ہندو بن گئی ہیں۔ تاہم کئی ٹی وی چینلز کے لیے وہ ایک ’پاکستانی ایجنٹ‘ ہیں۔
BBCسچن کے والد کہتے ہیں کہ سیما اور سچن بنا کھائے پیے انٹرویو دے رہے ہیں
سیما اور سچن کی محبت کی حقیقت جو بھی ہو، یہ واضح ہے کہ یہ کہانی لوگوں میں کافی مقبول رہی ہے۔
انڈیا میں ’لو جہاد‘ پر بنایا گیا بیانیہ بہت دور تک پھیل چکا ہے جس کے تحت کئی قدامت پسند جماعتوں کا ماننا ہے کہ مسلم مرد ہندو عورتوں کو دھوکے سے محبت کے جال میں پھنساتے ہیں۔
اس پس منظر میں ایک مسلم خاتون کا، اور وہ بھی پاکستان سے، یہ کہنا کہ اس نے اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب تسلیم کر لیا ہے کافی دلچسپی کا باعث ہے۔
اسی دلچسپی کا ثبوت گاؤں میں بارش کے پانی سے بھری گلیوں سے گزر کر آنے والے مقامی لوگوں کی بھیڑ ہے۔
انھی میں سے ایک بوڑھے شخص سے ایک میڈیا پرسن پوچھتے ہیں ’منھ دکھائی دو گے بہو کو؟‘ تو وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا کیسے دیتا۔‘
تماشائیوں میں سچن کے دوست بھی ہیں، جو خود اپنے دوست کی محبت کی غیر معمولی کہانی سے حیران ہیں۔ موہت مینا کہتے ہیں کہ ’دن رات ساتھ میں رہے ہیں، ساتھ میں کام کرتے ہیں۔ لیکن سچن نے اس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔‘
موہت گاؤں میں گھر گھر پانی پہنچاتے ہیں۔ سیما کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جو معاملے کے سامنے آنے سے پہلے اسی گاؤں میں کرائے پر رہ رہی تھیں، موہت کہتے ہیں، ’یہیں رہ رہی تھیں لیکن ہمیں نہیں پتا چلا۔ ہم ہر گھر جاتے ہیں پانی سپلائی کرنے، کبھی ان کے بارے میں پتا نہیں چلا۔‘
ان کے ایک دوست مولا ٹھاکر بتاتے ہیں کہ سچن ایک شرمیلا شخص ہیں۔ ’بہت سیدھا آدمی ہے، کسی سے ہنسی مذاق تک نہیں کرتا ہے۔‘
لیکن ایک دوست ہونے کے ناتے کیا سچن نے انھیں سیما کے بارے میں پہلے کچھ نہیں بتایا تھا؟
وہ کہتے ہیں ’یہاں سب پب جی کھیلتے ہیں، ہم بھی کھیلتے ہیں۔ اس طرح کچھ ہوگا کسی کو کوئی آئیڈیا ہی نہیں تھا۔ بھائی نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سچن کے اس قدم سے ’ہم بھی تعجب میں ہیں جیسے کہ باقی گاؤں والے۔‘
تعجب کی وجہ اس لیے بھی ہے کہ اگرچہ محض 70 کلومیٹر کی دوری پر ہی انڈیا کا دارالحکومت نئی دہلی ہے لیکن یہ علاقہ اس سے ایک الگ دنیا ہے۔
BBC
یہ گاؤں اُبھرتے ہوئے شہر نوئیڈا کے اندر آتا ہے جو کہ خود ہی ایک طرح سے تضادات کا مرکز ہے۔ ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چمکتے شیشوں والے دفاتر اور اونچی رہائشی عمارتیں ہیں، دوسری طرف مذہبی طور پر قدامت پسند دیہات ہیں۔
ان گاؤں والوں میں سے کچھ پرانے زمیندار ہیں، جنھوں نے اپنی زمینیں بیچ کر خوب دولت کمائی اور جن کی زمینوں پر گذشتہ چند دہائیوں میں نوئیڈا جیسا ایک جدید شہر ابھرا ہے۔
لیکن بہت سے لوگ اب بھی غریب ہیں۔ وہ یا تو اپنی زمینیں بیچنے کے بعد رقم کو غیر مناسب طریقے سے ختم کر چکے ہیں یا ان کے پاس بیچنے کے لیے پہلے سے ہی کچھ نہیں تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بے روزگار ہیں یا یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں یا زندگی گزارنے کے لیے آس پاس چھوٹ موٹی نوکریاں کرتے ہیں۔
سچن کے والد قریبی دہلی میں پودے بیچتے ہیں اور سچن اسی گاؤں میں ایک مقامی دکان پر کام کرتے ہیں۔
انڈیا میں انٹرنیٹ کافی سستا ہے جو کہ کم آمدن والے نوجوانوں کو اچھا ٹائم پاس فراہم کرتا ہے۔ اس پس منظر میں پب جی جیسے آن لائن گیمز یہاں کافی مقبول ہیں۔
اسی انٹرنیٹ پر سچن کے گھر کے اندر وہی لائیو انٹرویو جاری ہے۔
سچن کہہ رہے ہیں کہ ’ہم نے یوٹیوب سے ساری جانکاری لی اور۔۔۔‘ لیکن اسی درمیان ان کے والد پھر سے اعلان کرتے ہیں کہ براہِ کرم انٹرویو کو مختصر رکھیں۔
وہ کہتے ہیں ’میڈیا والے اپنی طرف سے سوچ رہے ہیں، ہماری بارے میں کسی نے نہیں سوچا کہ یہ صبح سے بھوکے مر رہے ہیں، زبان تال سے لگ رہی ہے۔‘
BBC
پچھلے تین دنوں سے مسلسل بارش ہونے کی وجہ سےگاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ سچن اور سیما پسینے سے شرابور ہیں لیکن وہ سنجیدگی سے جواب دے رہے ہیں۔
اسی اثنا میں سچن کے والد غصے میں واپس لوٹتے ہیں اور لائیو انٹرویو کو روک کر بیچ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور سیما اور سچن کو دوسرے کمرے میں جانے کو کہتے ہیں۔
لیکن بھیڑ کمرے کے اندر بھی داخل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد سچن کے والد ان دونوں کو گھر اور محلے کی دیگر خواتین کے ساتھ دوسرے کمرے میں شفٹ کر دیتے ہیں لیکن لوگ پھر بھی اندر آ جاتے ہیں۔ وہ چلاتے ہیں کہ ’کیا زبردستی ہے یہ؟‘
وہ غصے میں کہتے ہیں ’تم سب باہر بیٹھ جاؤ، ہاتھ جوڑ رہا ہوں۔ اگر نہیں مانو گے تو اسے بھی مار دوں گا اور میں بھی مر جاؤں گا۔۔۔ سبھی پھنس جاؤ گے۔۔۔ بہت بُرا ہو جائے گا، بتا رہا ہوں میں۔‘
سچن تازہ ہوا کے لیے مختصر لمحے کے لیے باہر آتے ہیں کہ ان کے سامنے پھر ایک مائیک آتا ہے۔ ان کے والد پھر سے لوگوں کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام ہو جاتے ہیں۔ سچن اندر جا کر کمرہ بند کر لیتے ہیں۔
شام ہونے کو ہے۔ بارش تھم چکی ہے۔ لیکن متجسس لوگوں کی آمد اب بھی جاری ہے۔
BBC