Getty Images
کرکٹ ورلڈکپ اور وہ بھی انڈیا میں۔۔۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فٹبال ورلڈکپ برازیل میں منعقد ہو رہا ہو۔
دونوں ہی ممالک کے عوام ان کھیلوں کے دیوانے ہیں اور جب بھی یہاں کوئی بھی ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو اس کا کئی سال پہلے سے ہی بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے اور میچوں کا شیڈول اور ٹکٹس کی خریداری سب سے اہم موضوع بن جاتا ہے۔
تاہم اس مرتبہ انڈیا میں منعقد ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے حوالے سے صورتحال یکسر مختلف تھی اور آئی سی سی کی جانب سے شیڈول کا اعلان کرنے میں بار بار تاخیر ہو رہی تھی۔
اس تاخیر کے حوالے سے آئی سی سی اور انڈین کرکٹ بورڈ دونوں ہی کی جانب سے کوئی ٹھوس وجوہات نہیں بتائی گئی تھیں۔
اسی دوران کرکٹ پر تجزیے اور تبصرے کرنے والی ویب سائٹ کرک انفو پر شائع ہونے والی ایک تحریر نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے آئی سی سی سے آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف میچوں کے شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی گئی تھی جس کے باعث وہ دونوں میچوں میں ’فیورٹ‘ بن جائے گا۔
اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سے پی سی بی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تردید جاری نہیں کی گئی تھی اور سوشل میڈیا پر پاکستان کرکٹ بورڈ پر اس حوالے سے خاصی تنقید بھی کی گئی تھی۔
اب جب بالآخر آئی سی سی نے انڈیا میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کیا، جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم کو افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ انھی گراؤنڈز پر کھیلنا ہوں گے جہاں ڈرافٹ شیڈول میں درج تھے۔
یعنی پاکستان آسٹریلیا کے خلاف میچ 20 اکتوبر کو بینگلورو جبکہ افغانستان کے خلاف 23 اکتوبر کو چنئی میں کھیلے گی۔
تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایسی درخواست کرنے کی نوبت ہی کیوں پیش آئی۔
Getty Images’گفتگو لیک ہو گئی جس کے باعث غلط تاثر گیا‘
یہ خبر اکثر افراد کے لیے خاصی اچھنبے کی تھی پاکستان کی جانب سے افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ میں شروعات سے ہی ’فیورٹ‘ ہونے کے لیے وینیو میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔
پی سی بی اور آئی سی سی کی اس لیکڈ بات چیت سے عام تاثر یہ ملا کہ پاکستان چنئی میں افغانستان سے اس لیے کھیلنے سے خائف ہے کیونکہ چنئی کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور افغان سپنرز جو کہ آئی پی ایل کے دوران بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں افغانستان نے شارجہ میں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کو 2-1 سے شکست دی تھی۔ ان میچوں کے دوران یوں تو پاکستان نے اپنے سینیئر کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا تھا لیکن سپنرز کو مدد دینے والی ان کنڈیشنز میں افغان بولرز نمایاں طور پر حاوی نظر آئے تھے۔
اس سے قبل بھی پاکستان کی ٹیم کا جب بھی افغانستان سے سامنا ہوا ہے، چاہے وہ ایشیا کپ ہو یا ورلڈ کپ، مقابلہ کانٹے کا ہوتا ہے اور اب دونوں ممالک کا یہ مقابلہ گذشتہ چند سال میں افغانستان کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے بعد سے میدان کے باہر بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اس حوالے پی سی بی کے ترجمان سمیع الحسن برنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی سی سی کی جانب سے شیڈول جاری کرنے سے پہلے کرکٹ بورڈز کو بھیجا جاتا ہے اور تمام بورڈز اس پر اپنی آرا سے آگاہ کرتے ہیں اور عموماً آئی سی سی صرف سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہی شیڈول یا گراؤنڈ میں تبدیلی کرتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہماری آئی سی سی سے اس بارے میں ہونے والی گفتگو لیک ہو گئی جس کے باعث ایک غلط تاثر گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
Getty Images’پاکستان کی ممبئی میں نہ کھیلنے کی درخواست منظور ہوئی‘
تاہم پی سی بی کی جانب سے شیڈول میں تبدیلی کی یہ واحد درخواست نہیں تھی جو آئی سی سی کو کی گئی تھی۔
پی سی بی میں موجود ایک اعلٰی اہلکارنے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان نے ممبئی میں کوئی میچ کھیلنے کے حوالے سے ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد اس میں تبدیلی کر دی گئی اور اب پاکستان اگر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ ہر صورت کلکتہ میں کھیلا جائے گا، چاہے یہ انڈیا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بات قابلِ ذکر اس لیے بھی ہے کیونکہ سنہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے پاکستان کی ٹیم جب بھی انڈیا میں کھیلی ہے، اس کا میچ کبھی بھی ممبئی میں منعقد نہیں ہوا۔
اس کی عمومی وجہ یہی سمجھی جاتی ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کے مبینہ کردار اور اس حوالے سے لگائے گئے الزامات کے باعث یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سنہ 2015 میں جب اس وقت کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور بی سی سی آئی چیرمین ششانک منوہر کے درمیان ملاقات سے پہلے ہی ممبئی میں وانکھیڈے سٹیڈیم میں بی سی سی آئی کے دفتر کے باہر شیو سینا کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا اور اس دوران کچھ کارکن عمارت میں بھی گھس گئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے جب سنہ 2012-13 میں انڈیا کا دورہ کیا تھا تو تب بھی دونوں ٹیموں کے درمیان ممبئی میں کوئی میچ نہیں کھیلا گیا تھا۔
اسی طرح سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے دوران بھی پاکستان نے اپنے تمام میچ ممبئی کے علاوہ دیگر گراؤنڈز میں کھیلے تھے اور سنہ 2011 ورلڈ کپ میں صرف ایک میچانڈیا میں کھیلا تھا جو موہالی میں کھیلا گیا سیمی فائنل تھا۔
پی سی بی اہلکار کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے یہ بھی درخواست کی گئی تھی کہ اس کے دونوں پریکٹس میچ غیر ایشیائی ممالک کے خلاف کھیلے جائیں اور اس درخواست کو بھی آئی سی سی سے منظوری مل گئی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں سنہ 1999 میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران سچن تندولکر کے رن آؤٹ پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا جس پر تماشائیوں نے گراؤنڈ میں بوتلیں اور مختلف چیزیں پھینکنا شروع کر دی تھیں جس کے بعد میچ روکنا پڑا تھا۔
اس کے بعد میچ کے پانچویں روز تماشائیوں کی جانب سے سٹینڈ میں اخبارات نذرِ آتش کیے گئے جس کے بعد سٹیڈیم خالی کروا دیا گیا تھا اور آخری دن کا بقیہ کھیل خالی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔ پاکستان نے یہ میچ 46 رنز سے جیتا تھا۔
اس سے قبل سنہ 1996 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں اس وقت سری لنکا کو ڈیفالٹ فاتح قرار دیا گیا تھا جب میچ کے دوران صرف 22 رنز پر انڈیا کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو گئے تھے اور شائقین نے غصے میں آ کر سٹینڈز کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا تھا جس کے بعد میچ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
Getty Imagesپاکستان کے میچ کن پانچ شہروں میں ہوں گے؟
پاکستان اس ورلڈکپ میں اپنی مہم کا آغاز چھ اکتوبر کو حیدرآباد سے کرے گا جہاں اس کا مقابلہ اس وقت جاری ورلڈ کپ کوالیفائر کے بعد سامنے آنے والے پہلے کوالیفائر سے ہو گا جو ممکنہ طور پر زمبابوے ہو سکتا ہے۔
اگلا میچ 12 اکتوبر کو حیدرآباد میں ہی کوالیفائر 2 سے ہو گا جو ممکنہ طور پر سری لنکا ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد اس ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ یعنی پاکستان انڈیا میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جائے گے۔
اس مقابلے کو نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں رکھنے کی ایک وجہ یہاں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور اس اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے بڑا سٹیڈیم ہے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔
اس کے بعد پاکستانی ٹیم بینگلورو کا رخ کرے گی جہاں 20 اکتوبر کو اس کا مقابلہ پانچ مرتبہ ون ڈے ورلڈکپ جیتنے والی آسٹریلوی ٹیم سے ہو گا۔
اس کے بعد وہ میچ ہے جس کے لیے پاکستان نے خصوصی طور پر شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی تھی، یہ افغانستان کے خلاف 23 اکتوبر کو چنئی میں کھیلا جائے گا۔
پاکستان کا اگلا میچ بھی 27 اکتوبر کو جنوبی افریقہ کے خلاف چنئی میں ہی ہے۔
پھر پاکستان کلکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف 31 اکتوبر اور بینگلورو میں نیوزی لینڈ کے خلاف چار نومبر کو لیگ مرحلے میں اپنا واحد ڈے میچ کھیلے گا۔
لیگ مرحلے میں پاکستان اپنا آخری میچ 12 نومبر کو کلکتہ میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گا۔
اس کے بعد اگر پاکستان ٹیم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جاتی ہے تو یہ بھی ہر صورت کلکتہ میں ہی کھیلا جائے گا۔ ٹورنامنٹ کا فائنل نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم احمد آباد میں منعقد ہو گا۔