Getty Images
کہتے ہیں خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے لیکن اگر آپ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ خوبصورتی دیکھنے والی آنکھیں آپ کی ماں کی ہوں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے معیار اتنے اونچے ہیں کہ اِن پر شاید ہی کوئی پورا اُتر سکے۔
یہاں پہلے شادی کرنے کا پریشر ہوتا ہے، ہو جائے تو بچے پیدا کرنے کا پریشر۔ بچہ ہو جائے تو یہ پریشر کہ اب وہ معاشرے کی ’خوبصورت‘ ہونے کی تعریف پر پورا بھی اُترے۔
اگر کسی ایک کو بھی اعتراض ہو تو پورا خاندان، محلہ اس بچے کے نین نقش نکھارنے میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ بچے پر اپنا زیادہ حق سمجھنے والے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ مشورے دے کر کام چلاتے ہیں۔
’بچی کا سر بنانا ہے تو پلیٹ پر رکھ دو‘BBCڈاکٹر سے رجوع کرنے پر معصومہ کو پتا چلا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا اور پھر تین ماہ بعد ہیماٹوما ٹھیک ہو گیا۔
آپ نے کئی بار سنا ہو گا کہ فلاں کا سر بہت اچھا بنا ہوا ہے یا پھر سر ٹھیک سے نہیں بنایا گیا اور اسے لمبا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ماؤں پر بچوں کا فلیٹ سر بنانے کا بہت پریشر ہوتا ہے۔
معصومہ رضا کو اسی پریشر کا سامنا ایک سال پہلے تب کرنا پڑا جب ان کی بچی کی پیدائش ہوئی اور ہیماٹوما یا جمے ہوئے خون کی وجہ سے بچی کے سر کے اوپر تھوڑی سی جگہ ابھری ہوئی تھی۔
معصومہ کہتی ہیں گھر والوں نے تو خیال کرتے ہوئے پوچھا لیکن باہر والے لوگوں نے انھیں ایسے مشورے بھی دیے جو انھوں نے مانگے بھی نہیں تھے۔
معصومہ نے بتایا ’لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ کیا مسئلہ ہے، الگ سے نظر آ رہا ہے۔ ایک جاننے والی خاتون تو پلیٹ ہی لے کر آ گئیں کہ لاؤ تہھیں سکھاؤں بچی کا سر پلیٹ میں رکھ کر بنانا کیسے ہے۔‘
ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر انھیں پتا چلا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا اور پھر تین ماہ بعد ہیماٹوما ٹھیک ہو گیا۔
معصومہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ٹھان لی کہ نہ پریشر لوں گی اور نہ کبھی اپنی بچی کو لینے دوں گی۔ ہمارا کلچر بن گیا ہے کہ بیٹی ہے تو ایسے خوبصورت بناؤ۔۔۔ آنکھیں اتنی بڑی ہونی چاہیں، ماتھے پر بال نہ ہوں، ناک پتلی ہو۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، ہمارے معاشرے کو بھی تھوڑا آزاد خیال ہونا چاہیے۔‘
’12 دن کی بچی کی ویکسنگ کر دو، بال ختم ہو جائیں گے‘ BBCماہم اس وقت دنگ رہ گئیں جب ایک خاتون نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی 12 دن کی بچی کی ویکس کر دیں
ماہم حسّان جب پہلی بار ماں بنیں تو انھیں یہ پتا نہیں تھا کہ لوگ بچے کو خوبصورت بنانے کے لیے کتنا پریشر ڈالتے ہیں۔
ان کی بیٹی کے روئیں جیسے بال دیکھ کر ایک جان پہچان والی خاتون نے کہا کہ آٹے کی لوئی لے کر بال صاف کر دو ایک اور خاتون نے انھیں بتایا کہ بچوں کی ویکس بھی آتی ہیں۔
ماہم اس وقت دنگ رہ گئیں جب ایک خاتون نے انھیں مشورہ دیا کہ بچوں کی ویکس بھی آتی ہے اور اگر وہ اپنی 12 دن کی بچی کی ویکس کر دیں گی تو بعد میں شکر کریں گی کہ بچی کے بال دوبارہ نہیں آئے۔
وہ کہتی ہیں مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کوئی 12 دن کی بچی کو ویکس کرنے کا کیسے سوچ سکتا ہے۔
ٹوٹکے اور ان کی حقیقتGetty Imagesسرمے کے استعمال سے بھی بچوں کے جسم میں لیڈ یعنی سیسے کی مقدار بڑھ سکتی ہے
بچوں کو ’پیارا‘ بنانے والے ٹوٹکوں اور ان سے جڑے کئی سوالات لے کر میں اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر معصومہ فاطمہ کے پاس گئی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ٹوٹکوں کو بچوں پر آزمانے سے کیا ہوتا ہے۔
آنکھیں بڑی کرنے کے لیے سرمہ لگانا
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق خالص سرمے میں لیڈ یا سیسہ ہوتا ہے جو نومولود بچوں کی آنکھوں میں فوراً جذب ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ سے لیڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ صرف ایک بار سرمے کے استعمال سے بھی بچوں کے جسم میں لیڈ لیول بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرمے کی سلائی سے بچے کی آنکھوں میں انفیکشن ہونے کا خدشہ رہتا ہے جو ان کے پورے جسم میں پھیل سکتا ہے۔
بچوں کا رنگ گورا کرنے کے لیے کریمیں لگانا
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کا وہی رنگ ہو گا جو ان کو جینیاتی طور پر ماں باپ سے ملے گا۔ اس کے لیے ان کی جلد پر مختلف چیزیں لگانے سے گریز کریں ورنہ کیمیکل بچوں کی جلد پر ریش کی شکل میں اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
BBCڈاکٹر معصومہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ ٹائٹ ٹوپی پہنانے کا نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کے سر کا سائز چھوٹا رہنے کا خدشہ ہو سکتا ہے
بچوں کا فلیٹ یا سیدھا سر بنانا
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں پاکستان میں فلیٹ سر بنانے کا رواج بہت عام ہے اور اسے اچھا سر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دماغ کی شیپ دیکھیں تو دماغ کا ایک حصہ سر کی پچھلی طرف موجود ہوتا ہے جسے دبا کر سخت سطح پر رکھا جاتا ہے تاکہ سر کو فلیٹ کیا جا سکے۔
ان کے مطابق دماغ ایڈجسٹ تو کر لیتا ہے لیکن اس سے نہ صرف کان کی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے بلکہ بچوں کی ذہنی نشونما میں کچھ کمی رہنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ تو اگر ان کا سر پیچھے سے گول بھی ہے تو یہ نارمل بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹائٹ ٹوپی پہنانے کا نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کے سر کا سائز چھوٹا رہنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
نومولود بچوں کے بال اتارنا
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ بہت سے بچوں کے جسم پر بالخصوص پری میچور یا وقت سے پہلے پیدا ہونے کی صورت میں کافی بال ہو سکتے ہیں لیکن بچوں کے جسم سے آٹے کی لوئی یا بیبی ویکس کے ذریعے بال اتار کر بچے کو تکلیف پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کیونکہ جسم پر بالوں کا تعین بچے کی جینیات کرتی ہیں یعنی اگر ماں باپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں ہیں تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ بچے کے جسم پر بال بھی ایک سال تک پہنچنے کے بعد کم ہو جائیں۔
Getty Imagesبہت سے بچوں کے جسم پر بالخصوص پری میچور یا وقت سے پہلے پیدا ہونے کی صورت میں کافی بال ہو سکتے ہیں
بچوں کی ناک دبا کر پتلی کرنا
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کی ہڈیاں، خاص طور پر ناک کی ہڈی بہت نرم اور نازک ہوتی ہے۔ ناک کو دبانے سے ہڈی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
گھنے بالوں کے لیے بچوں کا سر شیو کروانا
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ اگر ماں باپ کے بال اچھے ہیں تو سائنس یہی کہتی ہے کہ بچوں کے بال اچھے ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ بچوں کے اچھے بال عوماً ایک سال کے بعد ہی آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی بچے کا سر ایک سال سے پہلے خالی بھی ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
Getty Imagesمساج کرنے سے بچہ پُرسکون محسوس کرے گا
وزن بڑھانے کے لیے 6 ماہ سے کم بچوں کو روٹی، انڈے وغیرہ کھلانا
چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ دینا چاہیے اور گائے یا بکری کا تازہ دودھ یا انڈے وغیرہ کسی صورت نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس سے بچوں میں الرجی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کے لیے ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے۔ اس کے بعد کم مقدار میں چاول یا پھل، سبزی دی جا سکتی ہے۔
بچوں کا مساج کرنا چاہیے
تو نومولود بچوں کے لیے کوئی ٹوٹکا مفید بھی ہے؟
جی ہاں۔ ہلکے ہاتھوں کے ساتھ بچوں کی مالش کی جا سکتی ہے۔
اس کے لیے ڈاکٹر معصومہ زیتون کا تیل استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے مطابق مساج کرنے سے بچہ پُرسکون محسوس کرے گا۔