25 جون 1983 وہ سنگ میل ہے جس نے کرکٹ کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس دن کپل دیو کی قیادت میں انڈین کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیت کر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔
1983 سے 2023 کے چالیس سال کے طویل سفر میں انڈین کرکٹ نے کپل دیو سے محمد اظہر الدین، اظہر الدین سے سورو گنگولی، سورو گنگولی سے ایم ایس دھونی، ایم ایس دھونی سے ورات کوہلی تک کا مرحلہ دیکھا ہے۔
آج انڈیا کے اندر ڈومیسٹک کرکٹ کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے، جہاں سے ہر سال باصلاحیت کھلاڑی سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا کی بہترین کرکٹ لیگ، آئی پی ایل انڈیا میں ہے۔
یقیناً اس سب کے لیے جس جوش اور جذبے کی ضرورت تھی وہ لارڈز میں حاصل کی گئی ناقابل یقین کامیابی تھی۔
پہلی بار انڈین کرکٹ شائقین اور کرکٹ کو فروغ دینے والے سپانسرز کو یقین آیا کہ انڈیا عالمی چیمپیئن شپ جیت سکتا ہے۔
اس کامیابی کی وجہ سے ملک بھر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے کرکٹ کو بطور کھیل اپنایا۔
ان سب نے مل کر کرکٹ کو انڈیا کا سب سے مقبول کھیل بنا دیا۔
Getty Imagesجیت کے بعد وکٹ یادگار کے طور پر لے جانے کے لیے بیتاب کھلاڑی1983 میں کیا صورتحال تھی؟
1983 کے ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے انڈین ٹیم ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے دعویداروں میں بھی شامل نہیں تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس سے قبل کھیلے گئے دو ورلڈ کپ کے دوران ٹیم کسی بڑی ٹیم کے خلاف ایک بھی جیت حاصل نہیں کر سکی تھی۔
پہلے ورلڈ کپ 1975 کے دوران انڈیا کی واحد جیت مشرقی افریقہ جیسی کمزور ٹیم کے خلاف تھی۔ انڈیا نے یہ میچ دس وکٹوں سے جیتا تھا۔
لیکن اس کے بعد باقی میچوں میں انڈین ٹیم کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ورلڈ کپ کے میچوں کے علاوہ ٹیم آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور پاکستان کے گراؤنڈ پر وہ مسلسل ہار رہی تھی۔
اس دور کے کسی بھی کھلاڑی سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں: ’ہمارے دور میں نہ کوئی کوچ ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی ٹیم میٹنگ ہوتی تھی۔ نہ کوئی منصوبہ بناتے تھے نہ حکمت عملی۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ گراؤنڈ کے اندر صرف جنٹلمین گیم کے جذبے سے کرکٹ کھیلتے تھے۔'
لیکن جب کپل دیو کی قیادت میں ٹیم نے گیانا میں کھیلی گئی تین ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو ٹیم کا اعتماد بڑھ گیا۔ اس کے بعد انڈیا نے ورلڈ کپ کے لیگ میچ میں لگاتار دو بار کی عالمی چیمپئن ٹیم کو 34 رنز سے شکست دی۔
اس کے بعد آسٹریلوی کپتان کم ہیوز نے ناقابل یقین بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انڈین ٹیم اس ورلڈ کپ میں ڈارک ہارس ہے۔ لیکن پھر ان کی باتوں کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا، باقی دنیائے کرکٹ میں تو کیا انڈیا میں بھی اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
لیکن جب بھارت نے لیگ میچوں میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو کرکٹ کے کچھ تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے ٹیم پر توجہ دینا شروع کر دیا۔ انگلینڈ کی میڈیا میں انڈین ٹیم کو کپلز ڈیولز کے نام سے پکارا جانے لگا۔
یہ ٹورنامنٹ آج بھی کپل دیو کی زمبابوے کے خلاف 175 ناٹ آؤٹ رنز کی اننگز کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ 17 رنز پر پانچ وکٹیں گنوانے کے بعد انتہائی مشکل وقت میں کپل نے یہ دلیرانہ اننگز کھیل کر ٹیم کو ورلڈ کپ میں قائم رکھا۔
اس کے بعد لارڈز میں کھیلے گئے فائنل میچ میں کپل نے خطرناک بلے بازی کرنے والے ویوین رچرڈز کو جس انداز میں کیچ کیا اسے بھی لوگ نہیں بھولے۔
Getty Imagesمین آف دی میچ مہیندر امرناتھ اور کپل دیو ورلڈ کپ کے ساتھجیت کے بعد کیا کچھ بدلا؟
ورلڈ کپ کے آغاز میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ انڈین ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو جائے گی۔ ٹیم کے اوپنر کرشنماچاری سریکانت اور دیگر کھلاڑیوں نے انگلینڈ ورلڈ کپ کے بعد امریکہ میں چھٹیاں منانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
سریکانت نے بہت پہلے ذاتی طور پر امریکہ کے لیے ٹکٹ بک کرائے تھے۔ دراصل وہ اپنا ہنی مون امریکہ میں منانا چاہتے تھے۔ ورلڈ کپ سے صرف دو ماہ قبل ان کی شادی ہوئی تھی۔
لیکن ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے، کیونکہ ان کی ٹیم نہ صرف فائنل میں پہنچی بلکہ ورلڈ کپ بھی جیت گئی۔ اس جیت کا جشن منانے کے لیے ٹیم کو انڈیا آنا پڑا۔ اس کا مطلب ہے کہ سری کانت کو اپنا ٹکٹ منسوخ کرنا پڑا اور وہ کئی مہینوں کی جیت کے جشن کے بعد ہی امریکہ جا سکے۔
تاہم، پھر یہ بات بہت مشہور ہوئی کہ کپل دیو نے ان سے ٹکٹ کی منسوخی سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس رقم کے بارے میں صرف شری کانت اور کپل دیو ہی بتا سکیں گے کہ یہ رقم انھیں ملی یا نہیں؟
Getty Imagesکپل دیوکرشماتی فتح کے معنی
کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انڈیا عالمی چیمپیئن بنے گا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں مقابلہ ویسٹ انڈیز سے تھا جو اس وقت دنیائے کرکٹ پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن 25 جون کو کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا اپ سیٹ دیکھا گیا۔
فائنل سے پہلے سٹے بازی کے بازار میں انڈیا کی جیت پر ایک پر 200 کا ریٹ تھا۔ لیکن انڈیا کی کامیابی نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا کہ کرکٹ کو غیر یقینی صورتحال کا کھیل کیوں کہا جاتا ہے۔ انڈیا کی اس ناقابل یقین فتح کے بعد سینکڑوں نوجوانوں نے کپل دیو سے متاثر ہو کر کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا۔
دو سال بعد 1985 میں آسٹریلیا ورلڈ چیمپیئن شپ آف کرکٹ کی میزبانی کر رہا تھا۔ پورے ٹورنامنٹ میں انڈیا نے دنیا کی تمام ٹیموں کو شکست دی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
چیمپیئن شپ کے فائنل میں انڈیا نے پاکستان کو شکست دی تو روی شاستری ملک کے ہیرو بن کر ابھرے۔ انھیں سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ انھوں نے اس دور کی مشہور آڈی کار کے ساتھ چیمپیئن آف چیمپیئنز کا خطاب جیتا تھا۔
سیدھے الفاظ میں کہیں تو 1983 کی فتح کے بعد کرکٹ میں سرمایہ کاری آئی۔ انڈین کرکٹ میں امکانات کو دیکھتے ہوئے کھیل کے اداروں نے سٹیڈیم اور تربیتی مراکز بنائے اور مختلف مقامات پر اکیڈمیاں کھول دی گئیں۔
اس کامیابی کے بعد انڈیا میں کرکٹ کی کمرشلائزیشن کا دور شروع ہوا۔ سپانسرز، مشتہرین اور براڈکاسٹرز نے انڈین کرکٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔
بلاشبہ 1983 کے ورلڈ کپ کی فتح کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد انڈیا میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں رہا بلکہ ایک ثقافت کے طور پر ابھرا۔ اس ایک فتح نے کرکٹرز کی کئی نسلیں پیدا کیں، نئے ہیروز پیدا کیے اور کرکٹ کو ہر گھر تک پہنچا دیا۔
Getty Imagesایک نئی شروعات
1983 کے ورلڈ کپ میں کامیابی سے قبل انڈین ٹیم بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ کپل دیو کی ٹیم نے انڈین کرکٹ بورڈ کو کرکٹ کی دنیا میں ایک پاور ہاؤس کے طور پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس فتح کے بعد ہی ورلڈ کپ کا انعقاد پہلی بار انگلینڈسے باہر ہوا اور سنہ 1987 میں اس کا انعقاد انڈیا اور پاکستان نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اس کے بعد ہی سفید فام کرکٹ کے کھیل میں غیر سفید فام ممالک کے غلبہ کا دور شروع ہوا۔
اس کامیابی کے بعد ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ والدین نے اپنے بچوں کو روایتی ہاکی کی بجائے کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دی۔ ان بچوں میں سچن ٹنڈولکر جیسے جینیئس بھی شامل تھے۔ سچن 10 سال کے تھے جب کپل کی ٹیم نے تاریخ رقم کی تھی۔
16 سال کی عمر میں جب سچن ٹنڈولکر نے پاکستان کے شہر کراچی میں اپنا ڈیبیو کیا، تب تک یہ ملک کرکٹ کے رنگ میں رنگ چکا تھا۔ اس کے بعد سورو گنگولی، وریندر سہواگ، راہول ڈریوڈ، انیل کمبلے، وی وی ایس لکشمن اور ظہیر خان جیسے کرکٹرز سامنے آئے۔
انڈین کرکٹ کی کوئی بھی بحث مہندر سنگھ دھونی کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ ’کیپٹن کول‘ نے انڈین کرکٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
وہ ٹیسٹ کی تاریخ میں واحد کپتان ہیں جنھوں نے اپنی ٹیم کو ہر آئی سی سی ٹرافی، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی اور آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں فتح دلائی۔