وہ گھریلو خاتون جنھوں نے کافی فلٹر ایجاد کیا اور کامیاب کاروباری خاتون بنیں

بی بی سی اردو  |  Jun 25, 2023

ہر صبح، میلیٹا بینٹز (1873 - 1950) ایک کپ کافی پیتی تھیں۔ لیکن ہر گھونٹ کے بعد کچھ نہ کچھ تھا جو انھیں ناگوار گزرتا۔

کڑوا ذائقہ اور اناج کی باقیات جو ان کے منہ میں رہ جاتی تھیں، لطف خراب کر دیتی تھیں۔

یہ جرمن خاتون جو اس وقت تک ایک گھریلو خاتون تھیں انھوں نے اس معاملے پر عملی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اور اپنے آبائی شہر ڈریسڈن میں اپنے کچن سے انھوں نے اس مشروب کو بنانے کے لیے تجربہ کرنا شروع کیا جو یورپ میں تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا تھا اور پینے میں مزیدار تھا۔

کئی ناکام کوششوں کے بعد، ایک دن انھوں نے اپنے ایک بچے کی سکول کی نوٹ بک سے کاغذ کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر ایک پرانے ٹین کے برتن میں ڈال دیا جس میں انھوں نے چند سوراخ کیے تھے۔

اس کے بعد انھوں کافی ڈالی، اس پر گرم پانی ڈالا، اور کافی کاغذ کے ذریعے، براہ راست کپ میں ٹپکتی رہی،یہ مائع حالت میں بغیر کافی کے ذرّات باقیات کے تھی اور کافی کم کڑوی تھی۔

ابتدائی سال

میلیٹا بینٹز کی آنکھوں کے سامنے وہان کاپہلا کافی فلٹر تھا۔

اپنے دور میں چند دوسرے لوگوں کی طرح ایک بصیرت رکھنے والی ان خاتون نے اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ دوپہر کی کافی کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی نئی ایجاد کا تجربہ کیا۔

اس کی کامیابی اتنی شاندار تھی کہ 1908 میں انھوں نے اسے پیٹنٹ کرایا اور اپنے شوہر ہیوگو بینٹز کے ساتھ مل کر ڈریسڈن بزنس آفس میں فلٹرز کی تیاری اور فروخت کے لیے ایک کمپنی بنائی۔

انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ان کی پروڈکٹ منفرد ہے، یہ خاتون اپنی دریافت کو پیش کرنے کے لیے تمام دکانوں، گوداموں اور تجارتی میلوں میں گئی۔

اسی وقت، انھوں نے اپنے گھر کو ایک حقیقی پروڈکشن ورکشاپ میں تبدیل کر دیا، اس میں موجود 5 کمروں کا استعمال کرتے ہوئے۔ ان کے بیٹوں ولی اور ہورسٹ نے ڈیلیوری کا کام سنبھال لیا۔

سنہ 1909 میں انھوں نے لیپزگ تجارتی میلے میں ایک ہزار سے زیادہ فلٹرز فروخت کیے۔

پانچ سال بعد، میلیٹا بینٹز جو اب ایک کاروباری خاتون تھیں ان کے فلٹرز کی مانگ دلچسپی بڑھتی رہی۔

اس طرح، انھوں نے مزید15 لوگوں کو ملازمت دی اور بڑی مشینوں میں سرمایہ کاری کی جس سے پیداوار کو تیز کرنے میں مدد ملی۔

تاہم، پہلی جنگ عظیم شروع ہونے پر ان کے عزائم خاک میں مل گئے۔

Getty Imagesٹوٹا ہوا خواب

ان کے شوہر اور بڑے بیٹے ولی کو فوج میں بھرتی کرنے کے بعد جنگی تنازع نے ان کے خاندان کو تقسیم کر دیا۔

لیکن مشکلات کے باوجود وہ اپنی کمپنی کو اکیلے چلانے میں کامیاب رہیں، جو اب پورے خاندان کے لیے آمدنی فراہم کرتی تھی۔

لیکن کافی بینز کی درآمد میں کمی اور کاغذ جیسی بعض مصنوعات کی راشننگ نے کاروبار کو مشکل بنا دیا۔ جب فلٹرز کی تیاری ناممکن ہو گئی، میلیٹا بینٹز کو اپنی پیداوار میں تنوع لانا پڑا، گتے کے ڈبوں کو بیچنے پر مجبور ہونا پڑا۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، فلٹرز کی مانگ میں پھر اضافہ ہوا اور کاروبار میں توسیع ہوتی گئی۔

اس وقت، کاروباری خاتون نے اپنے ملازمین کے لیے کرسمس کا بونس، چھٹیوں کے دنوں میں اضافہ، اور کام کے ہفتے کو 5 دن تک کم کرنے سمیت کئی اصلاحات نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔

دوسری جنگ عظیم

تاہم، دوسری عالمی جنگ کے ساتھ چند سال بعد اس منصوبے کو دوبارہ نقصان پہنچا۔

سنہ 1942 میں، ایڈولف ہٹلر کے اقتدار میں، انھیں کافی فلٹرز کی پیداوار جاری رکھنے سے منع کر دیا گیا۔

نازی حکومت نے میلیٹا بینٹز کو ایک قومی سوشلسٹ پلانٹ کے طور پر ہٹلر کے ساتھ براہ راست تعاون کرتے ہوئے جنگی اشیا تیار کرنے اور فوجی سامان کی فراہمی پر مجبور کیا۔

جنگ کے بعد، کمپنی نے نازی جبری مشقت کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے ایک سماجی پروگرام میں حصہ لیا۔بینٹز 1947 میں فلٹرز کو دوبارہ بنانے کے قابل ہوئیں۔

لیکن تین سال بعد 29 جون 1950 کو 77 سالہ کاروباری خاتون کی وفات ہوگئی۔

ٹھوس میراث

ان کی موت کے بعد، میلیٹا کے بچوں نے کمپنی کے ساتھ کام جاری رکھا۔

سنہ 1959 میں انھوں نے مینڈن شہر میں ایک نئی مِل بنائی جس میں یورپ کی جدید ترین کاغذی مشین موجود تھی۔ یہ پلانٹ آج بھی کام کرتا ہے۔

اگلے کئی برسوں کے دوران انھوں نے کاروبار کو متنوع بنایا، ویکیوم کلینرز اور دیگر آلات کے لیے تھیلے بنائے۔

سنہ 2021کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق آج، کمپنی جسے میلیٹا گروپ کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں 5,000 سے زائد افراد کو ملازمت فراہم کرتی ہے اور سالانہ دو بلین ڈالر سے زیادہ کا منافع کماتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More