ہراسانی کے واقعات: ’آپ کے مرد دوست بھی فحش تصاویر بھیج کر آپ کو ہکا بکا کر دیتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 22, 2023

Getty Images

’اس نے پہلےمجھے کہا کہ یہ تو میں اپنی گرل فرینڈ کو بھیج رہا تھا، اس کا نام بھی حرا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ یہ غلطی سے آپ کو چلی گئی، آئندہ نہیں ہوگا۔‘

’جب میں نے اس کی طرف سے بھیجی گئی تمام تصاویر ٹوئٹر پر شئیر کیں تو اس نے کہا کہ میرا تو اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا۔‘

13 جون کا دن حرا سعید کے لیے کسی عام ہی دن جیسا تھا۔ لیکن پھر اچانک ان کی نظر اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر آنے والے ایک پیغام پر پڑی۔

کسی انجان شخص نے ان کو نازیبا تصاویر بھیجی تھیں۔ نیچے لکھا تھا ’کیا اور دیکھنا ہے؟ آئی لو یو۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حرا نے بتایا کہ انھیں شدید غصہ آیا لیکن کچھ دیر تک ان کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کریں۔

’یہ میرے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی چھ سات مرتبہ ایسا ہوچکا ہے۔ ایسے میں آسان رستہ یہی لگتا ہے کہ اس کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔‘

لیکن اب حرا کچھ کرنا چاہتی تھیں۔

’اس بار میں نے سوچا، کہ میں اس کی یہ تصاویر پبلک کروں گی کیونکہ یہ میری غلطی نہیں ہے، اس لڑکے کی ہے۔ اور آئندہ کے لیے اسے سبق بھی ہوگا۔‘

حرا نے اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیا اور شاہ زیب نامی لڑکے کی جانب سے بھیجی گئی تصاویر اور پیغام ٹوئٹر پر پوسٹ کر دیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حرا نے بتایا کہ ’جب اس لڑکے نے دیکھا کہ بات بڑھ رہی ہے تو اس نے اپنی کہانی تین بار تبدیل کی۔‘

’اس نے پہلےمجھے کہا کہ یہ تو میں اپنی گرل فرینڈ کو بھیج رہا تھا، اس کا نام بھی حرا ہے۔ پھر کہا کہ یہ غلطی سے آپ کو چلی گئی، آئندہ نہیں ہوگا۔ پھر جب میں نے اس کی طرف سے مجھے بھیجی گئی تمام تصاویر ٹوئٹر پر شئیر کیں تو اس نے کہا کہ میرا تو اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا، اور یہ تصویریں اس نے نہیں بھیجیں۔‘

حرا کا کہنا ہے کہ ’غصہ اس بات پر آیا کہ مردوں کے لیے کتنا آسان ہوتا ہے ایسی حرکت کر کے آگے بڑھ جانا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن انھیں اس بات کا احساس دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ ایسی حرکت کرکے سوری بول کر نہیں بھاگ سکتے۔‘

BBC’تیرے ساتھ تو یہی ہونا چاہیے‘

تاہم اس کہانی کو عام کرنے کی وجہ سے حرا کو ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جہاں بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان سے ہمدردی کا اظہار کیا، وہیں کئی لوگوں نے ان پر ’بات بگاڑنے‘ کا الزام بھی لگایا۔

ایک صارف نے لکھا کہ اچھے بھلے لڑکے کا کیرئیر خراب کر دیا، چُپ کر جاتی۔‘

لیکن صارفین کا ایک حلقہ ایسا بھی تھا جنھوں نے حرا کو ہی نشانہ بنایا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’تیرے ساتھ تو یہی ہونا چاہیے۔‘

یہ الفاظ حرا سعید کی وائرل ہونے والی ٹویٹ کے نیچے لکھے ہوئے تھے۔ حرا کو اسی قسم کے اور پیغامات بھی موصول ہوئے۔ زیادہ تر مردوں نے لکھا کہ ’تیرے ساتھ تو صحیح ہوا ہے۔‘

ایک شخصنے اسی قسم کی نازیبا تصویر بھیج کر کہا کہ ’یہ لو، اسے بھی بھیج دو۔‘

حرا اس قدر گھبراہٹ کا شکار ہوئیں کہ اس رپورٹ کے لیے انٹرویو دینے سے کچھ دیر پہلے تک بھی وہ پریشان تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جائے گا۔

’تم کیوں ستی ساوتری بن رہی ہو؟‘

اسلام آباد اور راولپنڈی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے جب ایسے ہی پیغامات کے بارے میں بات کی گئی تو چند نے کہا کہ وہ ان معاملات کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔

دبئی میں مقیم پاکستانی نژاد خاتون ساطعہ آفریدی نے بتایا کہ ’اکثر آپ کے اپنے لڑکے دوست بھی ایسی حرکت کرتے ہیں جس سے آپ مکمل طور پر ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ کئی بار ایسا ہوا کہ انھیں نازیبا تصاویر بھیجی گئیں۔ جب انھوں نے پیغام بھیجنے والے سے سوال کیا تو ان کو جواب ملا کہ ’تم کیوں ستی ساوتری بن رہی ہو؟ تم مجھ سے بات کرتی ہو اور دوستوں میں یہ چلتا ہے۔‘

ساطعہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ ایسے پیغامات کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ لڑکیوں کی سنتا ہی کون ہے؟‘

دوسری جانب کراچی کی سیرت نے کا ماننا ہے کہ ’پبلک فورم پر ایسے لڑکوں کے پیغامات سامنے لانے سے بڑی سزا کوئی نہیں۔ بعد میں بے شک وہ اپنا اکاؤنٹ بند کرتے پھریں۔‘

’اب ہم 2023 میں آچکے ہیں، لڑکیوں کو چھپ کر رونے کی تلقین کرنے کے بجائے ان کو سامنے آنے کے لیے کہا جانا چاہیے اور بارہا یہ بتانا چاہیے کہ یہ ان کی غلطی نہیں ہے۔‘

لیکن خود مرد اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

جب ہمنے راولپنڈی کی صدر مارکیٹ میں چند مرد دکانداروں سے اس بارے میں پوچھا تو ان میں سے زیادہ تر نے کہا کہ نازیبا تصاویر بھیجنے والے لڑکوں کو ’سرِ عام سزا دینی چاہیے۔‘

چند نے کہا کہ ’مائیں بہنیں سبھی کی سانجھی ہوتی ہیں اور ایسا کر کے آپ اپنی تربیت دکھا رہے ہوتے ہیں۔‘

ایک اور نوجوان نے کہا کہ ’سائبر کرائم ایک ایسا ادارہ ہے جہاں اس طرح کی بات پر فوراً ایکشن لیا جاتا ہے۔ اور لڑکیوں کو اگر ان کے گھر والے سپورٹ کریں تو ایسے لوگوں کو فوراً سزا مل جائے۔‘

BBCساطحہ آفریدی: ’اکثر آپ کے اپنے لڑکے دوست بھی ایسی حرکت کرتے ہیں جس سے آپ مکمل طور پر ہکا بکا رہ جاتے ہیں‘’اکثر خواتین کچھ دنوں بعد شکایت واپس لے لیتی ہیں‘

حقیقت میں کسی خاتون کے لیے ایسے معاملے پر قانونی کارروائی کرنا اب بھی کافی مشکل ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے شعبہ سائبر کرائم نے اس حوالے سے خواتین کو آگاہ کرنے کی متعدد مہمات جاری رکھی ہوئی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اکثر خواتین کچھ دنوں بعد شکایت واپس لے لیتی ہیں۔ ان کو اکثر خاندان یا سماج ایسا قدم اٹھانے سے روکتے ہیں۔ اور وہ صاف ظاہر ہوتا ہے جب لڑکیاں شکایت واپس لیتی ہیں اور چپ ہو جاتی ہیں۔‘

ترجمان نے کہا کہ ’ہماری کوشش یہی ہے کہ والدین کو آگاہ کریں کہ اپنی بچیوں کی حمایت کریں اور ایسی شکایات درج کرنے میں ان کی مدد کریں۔‘

https://www.youtube.com/watch?v=gKyKAfu6qPg

مرد ایسا کیوں کرتے ہیں؟

اس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہیں لیکن ایک جواب جو عموماً ماہرِ نفسیات دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی جذبے کی تسکین کو پورا کرنے کی خاطر مرد اس طرح کا نازیبا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عفت نے 2009 میں رونما ہونے والے ایک ٹرینڈ کی مثال دی۔ 2009 میں ’سیکسٹنگ کا لفظ منظر عام پر آیا جس کا مطلب ہے کہ آپ دوسرے شخص کو ایسا مسیج بھیجیں جس میں نازیبا یا فحش الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔‘

ڈاکٹرعفت کا کہنا ہے کہ ’کبھی کبھی لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے کسی جذبے کی تسکین کے لیے اس طرح کے پیغامات بھیجتے ہیں جس سے انھیں خوشی ملتی ہے، وہ خود کو طاقتور محسوس کرتے ہیں۔‘

’کبھی کبھار ایسے لوگ اکیلے ہوتے ہیں اور ان کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا جبکہ اکثر ایسے لوگ شادی شدہ یا کسی قسم کے رشتے میں ہوتے ہیں اور دوہری زندگی گزارتے ہیں جو لوگوں کے آگے کچھ اور پیچھے کچھ اور ہوتی ہے۔‘

تاہم ڈاکٹرعفت کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ’ایسے کام کر کے انھیں پتا ہوتا ہے کہ وہ باآسانی بچ نکلیں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More