Getty Images
وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق ’سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ کے نام سے بنائی گئی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں ’گلف کوآپریشن کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔
یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہےاور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے معدوم ہوتے امکانات کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک میں سیاسی بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
وزیر اعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف خود کریں گی جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خصوصی دعوت پر اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آرمی چیف اس کونسل میں کیا کردار ادا کریں گے۔
ایپکس کمیٹی کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں وفاقی وزرا برائے دفاع، آئی ٹی، توانائی کے علاوہ وزرائے مملکت برائے پیٹرولیم اور امور خزانہ شامل ہوں گے۔
ان کے علاوہ صوبائی وزرا برائے زراعت، معدنیات، آئی ٹی، توانائی، امور خزانہ، منصوبہ بندی اور تمام چیف سیکریٹری بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔
تیسری سطح پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں پاکستان فوج کے ایک ڈائریکٹر جنرل، وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی اور کونسل کے سیکریٹری، جو 21ویں گریڈ کے افسر ہوں گے، شامل ہیں۔
وفاقی وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کونسل کی تشکیل سے پہلے ہی چند ممالک پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کا وعدہ کر چکے ہیں۔
سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کا مقصد کیا ہے؟
وفاقی وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے اس کمیٹی کی تشکیل کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت کاری کے لیے ون ونڈو آپریشن کی طرز پر ایک منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ تمام ادارے جن کا کسی بھی طرح سرمایہ کاری سے تعلق ہے وہ اکھٹے کر دیے گئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’تین لیولز پر عمل درآمد کے لیے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ایک، ایپکس کمیٹی بنائی گئی ہے وزیر اعظم کی سربراہی میں جس میں کابینہ اراکین اور آرمی چیف بھی ہوں گے، جو ابتدائی طور پر ہر مہینے ملے گی۔‘
’دوسری ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جس میں وزرا اور صوبائی حکومتیں ہیں، وفاقی حکومت کے ادارے ہیں۔ اور تیسری عمل درآمد کمیٹی ہے جو ہر ہفتے ملا کرے گی۔‘
ڈاکٹر مصدق ملک نے اس کونسل کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’مقصد یہ ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرنے آ رہا ہے تو چاہے کوئی قانونی مسئلہ ہے تو اسے دور کیا جائے، قواعد و ضوابط کی دقت ہے تو اسے دور کیا جائے، اور اگر صرف سست رفتار انتظامی معاملات ہیں تو انھیں بھی دور کیا جائے۔‘
مصدق ملک نے کہا کہ ’جس چیز کو پلان بی کہا جا رہا تھا، آج وہ لوگوں کے سامنے آ گیا ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ خبر اہم نہیں کہ ایک طریقہ کار طے کیا گیا ہے بلکہ اس سے اہم خبر یہ ہے کہ اس طریقہ کار کے پیچھے کمٹمنٹس ہیں۔‘
لیکن پروگرام میں ایک اور مقام پر جب مصدق ملک سے سوال ہوا کہ کیا اب آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کیا جائے گا تو مصدق ملک نے کہا کہ ’یہ اختیار صرف وزیر اعظم کے پاس ہے کہ وہ کہیں کہ یہ ہمارا معاشی پلان بی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگلے پانچ، سات سال میں 112 ارب ڈالر کا پروگرام ہے جو آج پیش کیا گیا۔‘
مصدق ملک نے دعوی کیا کہ ’بے شمار ممالک کی کمٹمنٹس (یقین دہانیاں) ہیں لیکن باالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اور کچھ چین کی کمٹمنٹس ہیں۔‘
’ان ممالک سے یہ بات پہلے سے طے کی گئی ہے کہ آپ سرمایہ کاری کریں گے، اور کن کن جگہوں پر کریں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یقین دہانیاں تو ہو جاتی ہیں کام نہیں ہوتا۔ وہ یہاں پر آتے ہیں پھر خوار ہوتے ہیں۔‘
’تین ممالک نے 20-25 ارب ڈالر مختص کیے ہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم زراعت، معدنیات اور آئی ٹی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔‘
وعدوں کی بنیاد پر معاشی بحالی کا دعویٰ کیا ممکن ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ وعدے تو بہت خوبصورت ہیں کہ 2035 تک ملک کی جی ڈی پی تین گنا بڑھ کر ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی اور اگر یہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں کوئی غریب نہیں رہے گا مگر فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ ملکی آبادی کا 40 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جبکہ پاکستان اس وقت کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔
انھوں نے کہا اس منصوبے کی وجہ سے کچھ جاری منصوبوں میں تو تیزی آ سکتی ہے تاہم ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے حکومت کو پہلے اپنے ملک میں پرائیوٹ سرمایہ کاروں کو قائل کرنا پڑے گا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، اس کے بعد ہی کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔
معاشی نظام بحال کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا اگر صرف سرمایہ کاری کےشعبے کو لیا جائے تو کونسل بنانے کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری بورڈ کی صورت میں ایک ادارہ موجود ہے، اسے مضبوط کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ تجربہ اور مہارت ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کے کوآرڈینٹر برائے صنعت و تجارت رانا احسان افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ وعدے اور دعوے کیے گئے ہیں تو انھیں پورا بھی کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اگر یہ حکومت اگلے دو مہینوں میں 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں تمام رکاوٹیں دور کر دیتی ہے اور نئی حکومت میں وہ سرمایہ کاری پاکستان آ جاتی ہے تو ایسا دعویٰ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا اس وقت کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے وعدے پائپ لائن میں ہیں جن کے لیے اس کونسل کا قیام ضروری تھا۔ انہوں نے کہا اس سلسلے کو برقرار رہنا ہے اور جو بھی نئی حکومت آئے گی، اس کے دور میں بھی یہ کام جاری رہےگا کیونکہ اس کا تعلق کسی حکومت سے نہیں ہے۔
سیاسی نعرہ یا قابل عمل منصوبہ؟Getty Images
معاشی بحالی کے اس بڑے منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے معاشی امور کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار خرم حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر حکومت کا مقصد اس منصوبے کے ذریعے پورے معاشی نظام کو بحال کرنا ہے تو یہ ایک سیاسی نعرہ ہے تاہم اگر کچھ سرمایہ کاری لانے کا منصوبہ ہے تو پھر یہ قابل عمل ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری بھی گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ لیول پر آ سکتی ہے جیسا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین وغیرہ حکومتی سطح پر کچھ سرمایہ کاری کر لیں، تاہم اس کے ذریعے پرائیوٹ سرمایہ کاری لانا مشکل ہے کیونکہ ملکی حالات اس وقت ایسے سازگار نہیں کہ کوئی پرائیوٹ سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگائے۔
انھوں نے کہا اس منصوبے کا مقصد دیکھنا پڑے گا، اگر اس کے پس پردہ پورے معاشی نظام کی بحالی ہے، تو یہ بہت مشکل ہے تاہم سرمایہ کاری لائی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر پاشا نے کہا ہر چیز قابل عمل ہوتی ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ نیت صحیح ہو اور پورے معاشی نظام کی بحالی کے لیے اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسر عدیل ملک جو پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی معیشتوں پر کام کرتے ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت جو ’اتھاریٹرین پاور شیئرنگ‘ انتظام ہے اسے برقرار رکھنے کے لیے ڈالر کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا سیاسی طور پر اندرونی ملکی حالات پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے تاہم معاشی طور پر استحکام کے لیے بدستور ڈالر کی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ بیرون ملک خاص کر خلیجی ممالک سے ڈالر لانے کا منصوبہ ہے۔
عدیل ملک کے مطابق موجودہ نظام کو اپنے آپ کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ترقی کا ایک بیانیہ چاہیے اور یہ اس وقت ممکن ہو گا جب بیرون ملک سے ڈالر ملیں جو خلیجی ممالک سے مل سکتے ہیں جو اب کیش دینے کی بجائے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ایسا کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بحث: ’یہ ایک ایسے مسئلے کا حل ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا‘
وزیر اعظم کے اس فیصلے پر پاکستان کے سوشل میڈیا پر کافی بحث ہوئی جس میں جہاں ایک جانب اس کونسل میں آرمی چیف کی شمولیت پر سوالات اٹھائے گئے تو وہیں دوسری جانب اس کی افادیت پر بھی تنقید کی گئی۔
تاہم ایسے افراد بھی نظر آئے جنھوں نے اس کونسل کے قیام کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا۔
صحافی کامران خان نے لکھا کہ ’عزم مصمم پاکستان کو معاشی ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا ہے۔ آج فوج کی نگرانی و معاونت میں پاکستان کی اقتصادی بحالی کا وسیع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔‘
’ملک میں زرعی آئی ٹی دفاعی پیداوار معدنیات کان کنی توانائی کے شعبوں میں اربوں ڈالرز کی متوقع سرمایہ کاری کے لیے ون ونڈو آپریشن یقینی بنائے گی۔ یہ پاکستان کی اقتصادی بحالی کا منصوبہ جلد شروع ہونے والا ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار مشرف زیدی نے لکھا کہ ’یہ کونسل ناکام ہو گی کیوںکہ یہ ایک ایسے مسئلے کا حل ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا۔‘
ان کا موقف تھا کہ ’پی ڈی ایم اور جی ایچ کیو کے درمیان اچھے تعلقات سے تو تمام سرمایہ کار واقف ہیں اور سب جانتے ہیں کہ یہ ایک پیج پر ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’کیا یہ کونسل سیاست دانوں، ججوں، عوام اور ریاست کے مابین امن کی وہ صورتحال قائم کر پائے گی جس کی وجہ سے وہ استحکام پیدا ہو سکے جس کے غیر ملکی سرمایہ کار خواہش مند ہیں۔‘
https://twitter.com/mosharrafzaidi/status/1671203758099902471
علی حسنین نامی صارف نے لکھا کہ ’مصدق ملک تسلیم کر رہے ہیں کہ ہمارے قوانین اور بیورو کریسی میں مسئلہ ہے لیکن ہم ان مسائل کو درست کرنے کے بجائے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک راستہ بنائیں گے۔‘
عزیر یونس نے لکھا کہ ’اب آرمی چیف اور فوج ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں براہ راست کردار ادا کریں گے، جن لوگوں کا یہ خیال ہے ان کو میرا سیلوٹ۔‘