یادوں میں ڈوبی پاکستانی خاتون حشمت بی بی کی عمر رسیدہ آنکھوں سے اُس وقت بے اختیار آنسو بہہ نکلے جب 1947 کی تقسیم کے بعد پہلی بار انھوں نے انڈیا میں واقع اپنے آبائی گاؤں میں قدم رکھا۔
تقسیم کے دوران سرحد کے دونوں اطراف میں ان گنت خاندان بے گھر ہوئے، بہت سے لوگ اپنے عزیزوں سے بچھڑ گئے۔ حشمت بی بی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
اس وقت ان کی عمر صرف 13 سال تھی جب ان کا خاندان بکھر گیا۔
حشمت بی بی گذشتہ سنیچر کے روز اٹاری کے راستے انڈیا پہنچی تھیں، جہاں ان کے بھتیجے اور دیگر افراد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
حشمت بی بی صرف کچھ ہی عرصہ انڈیا میں گزار سکیں گی کیونکہ انڈیا کی حکومت نے حشمت بی بی کو 40 دن کا ویزا دیا ہے۔
جب حشمت بی بی انڈیا میں اپنے آبائی علاقے پہنچیں تو نہ صرف ان کے رشتہ داروں بلکہ پورے گاؤں اور آس پاس کے لوگوں نے بھی ان کے گلے میں ہار پہنائے اور اس موقع پر خوب خوشی منائی۔
سنہ 1947 میں تقسیم کے ہنگامہ خیز واقعات کے دوران، حشمت بی بی، جن کی عمر اُس وقت 13 سال تھی، ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے کپورتھلہ گئی ہوئی تھیں۔
اس دوران اس علاقے میں افراتفری مچ گئی اور ان کے خاندان کے اراکین ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔
اسی افراتفری کے عالم میں وہ اپنے چند رشتہ داروں کے ہمراہ موجودہ پاکستان پہنچ گئیں، جہاں انھوں نے پاکستانی پنجاب کے شہر چیچہ وطنی میں رہائش اختیار کی۔
بعدازاں حشمت بی بی کے ایک بھائی تو پاکستان پہنچ گئے لیکن ایک بھائی انڈیا میں ہی رہے۔ 30 سال قبل وہ اپنی بہن سے ملنے پاکستان گئے تھے۔
ان کا بھتیجا بھی گزشتہ سال پاکستان گیا تھا۔ لیکن حشمت بی بی 76 سال بعد انڈیا واپس آئی ہیں۔
حشمت بی بی اپنے بھائی کے گھر پہنچ کر بہت جذباتی ہو گئیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میری پیدائش، سب کچھ یہیں ہے، میں آج یہاں آئی ہوں۔‘
انھوں نے کہا ’میرا بھائی نہیں رہا، میری بھابھی نہیں رہی، میرا بھتیجا ہی میرے بھائی کی نشانی ہے۔‘
یہ کہہ کر ان کی آنکھیں پھر بھر آئیں۔ انھوں نے کہا ’مالک کا شکریہ۔‘
انھوں نے کہا کہ تقسیم کے وقت وہ اور ان کا ایک بھائی پاکستان چلے گئے تھے جبکہ ان کا ایک بھائی انڈیا میں رہ گیا جو 32 سال بعد ان سے ملنے پاکستان گیا۔
حشمت بی بی نے بتایا کہ اتنے برس بعد بھی ان کی تمام پرانی یادیں واپس آ گئیں۔
’مجھے کوئی امید نہیں تھی، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے دوبارہ ملایا، میں نے اپنا گھر دیکھا۔‘
انھوں نے کہا کہ جب حالات کشیدہ ہوئے تو مقامی لوگوں نے ان کے بھائی کو پناہ دی۔
’شکر ہے کہ آس پاس کے لوگوں نے اسے محفوظ رکھا۔ جب کوئی آتا تھا تو آس پاس کے لوگ کہتے تھے کہ یہاں کوئی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت ہونے والے واقعات اب تک یاد ہیں لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ان کے لیے زیادہ بات چیت کرنا ممکن نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم شادی ہر گئے تھے لیکن وہاں کچھ لوگ مسلمانوں کو مارنے آ گئے تھے۔ چنانچہ مسلمان وہاں سے بھاگ گئے۔‘
’میرا بھائی یہاں آ گیا لیکن میری ایک بہن نے مجھے وہیں رکھا کہ ہم دونوں بہنیں دوبارہ آئیں گی۔‘
اس دوران حشمت بی بی نے ایک نغمہ بھی سنایا۔ اس گانے میں جدائی کا درد صاف جھلک رہا تھا۔
حشمت بی بی کے بھانجے سوارن دین کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ سال پاکستان گئے تھے اور اس کے بعد سے حشمت بی بی کو لانے کی مہم کا آغاز ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ 20-25 سال پہلے صرف خطوط کے ذریعے بات چیت ممکن تھی مگر ’پھر فون پر رابطہ قائم ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے بہت سے لوگ پاکستان اپنا آبائی گھر دیکھنے جاتے ہیں۔ ’وہاں سے مٹی لاتے ہیں کیونکہ ان کی روح وہاں سے جڑی ہوتی ہے۔‘
حشمت بی بی کے ایک اور بھانجے اقبال نے کہا کہ ’ہم بہت خوش ہیں۔‘
’ہم نے نہیں سوچا تھا کہ یہ کبھی آ سکیں گی۔ ہم ایک یا دو بار گئے اور ملے۔ لیکن یہ ایک معجزے جیسا ہے۔‘
اقبال نے کہا کہ ’اس کے لیے ہمیں کافی مشقتیں اٹھانی پڑیں۔ بہت سارے کاغذات وہاں بھیجنے پڑے۔ ہم ان افسران کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس دوران ہماری مدد کی۔‘
ساتھ ہی انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ الگ ہونے والے لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں۔