تھپڑ کبڈی: کھلاڑیوں کی خوراک میں ’12 پھول‘ اور جیتنے پر نقد رقم کے علاوہ ڈرائی فروٹ کی بوریاں الگ

بی بی سی اردو  |  Jun 21, 2023

BBCتھپڑ کبڈی میں ریفری کی سٹی بجنے کے بعد دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے ہیں

ایک لمحے کے لیے آپ فرض کر لیں کہ آپ ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جہاں آپ کے اردگرد ہزاروں افراد کا مجمع صرف اس لیے موجود ہے کہ وہ آپ کو تھپڑ لگتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی۔

ذرا سوچیے آپ کا مخالف ان افراد کی موجودگی میں آپ کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دے۔

رکیے رکیے آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس جگہ پر آپ کو بھی اپنے مخالف کو تھپڑ مارنے کی اجازت ہو گی۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ورکنگ باؤنڈری اور انٹرنیشنل بارڈر کے ساتھملحقہ علاقوں میں ’تھپڑ یا طمانچے دا‘ کبڈی کے نام سے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، جس کو دیکھنے کے لیے لوگ اپنی کھیتی باڑی اور دکانداری تک چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔

ورکنگ باؤنڈری اور انٹرنیشنل بارڈر کے ساتھ ملحقہ علاقے جو نارووال، شکر گڑھ اور سیالکوٹ کی حدود میں آتے ہیں، وہاں پر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اور اب یہ کھیل پنجاب کے مختلفدیہی حصوں میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔

عمومی طور پر ’تھپڑ کبڈی‘ کے ٹورنامنٹکا انعقاد اس وقت ہوتا ہے، جب علاقے میں میلے ٹھیلے کا انعقاد ہو یا پھر کسی صوفی بزرگ کا عرس ہو۔

BBCاس کبڈی میچ میں ہر کھلاڑی کو کم از کم تین مرتبہ مخالف ٹیم کے پول میں جا کر اپنے مخالف کا مقابلہ کرنا ہوتا ہےجیتنے والے کو نقد رقم اور ڈرائی فروٹ کی بوریاں

شکر گڑھ کی تحصیل کوٹ نیناں کے رہائشی تصور حسین کو بھی تھپڑ کبڈی کھیلنے کا شوق ان ہی میلوں میں ٹورنامنٹس دیکھنے کے بعد ہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ خود اس کھیل کا حصہ بن گئے۔

12 سال پہلے اس کھیل کا حصہ بننے والے تصور حسین کو اب اس کھیل کا ماہر کھلاڑی مانا جاتا ہے اور جب بھی کوئی ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو ان کی جیت کا امکان دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے میچ کی فیس بھی دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔

تصور حسین تھپڑ کبڈی شوق کی خاطر کھیلتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ شوق ان کی آمدن کا ذریعہ بھی ہے تاہم اس کو مستقل آمدنی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جب میچز ہوں گے اور لوگ ان میچز کو دیکھنے کے لیے آئیں گے تو پھر ہی ٹورنامنٹ کی انتظامیہ اور شائقین سے پیسے ملتے ہیں اور یہ پیسے ہزاروں سے لے کر لاکھوں میں بھی ہوتے ہیں۔

تصور حسین کا کہنا تھا کہ بعض میچز میں انعامی رقم کے علاوہ انتظامیہ اور لوگوں کی طرف سے کھلاڑیوں کو باداموں اور ڈرائی فروٹ کی بوریاں بھی دی جاتی ہیں۔

تصور اقبال کے بقول انھیں بھی چار، پانچ مرتبہ باداموں کی بوریاں بطور انعام میں ملی ہیں۔

BBCبعض میچز میں انعامی رقم کے علاوہ انتظامیہ اور لوگوں کی طرف سے کھلاڑیوں کو ڈرائی فروٹ کی بوریاں بھی دی جاتی ہیں کھلاڑی کی خوراک ’بارہ پھول‘

تصور حسین نے بتایا کہ اس کھیل کے لیے محض طاقت نہیں بلکہ ذہانت کا بھی مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

تصور حسین کا کہنا تھا کہ تھپڑ کبڈی کے کھلاڑیوں کو پورا سال اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔

اس خوراک کو کھلاڑی ’بارہ پھول‘ کے نام پکارتے ہیں یعنی سال کے بارہ مہینوں میں خوراک کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرد موسم میں ٹھنڈی چیزیں نہیں کھا سکتے اور گرم موسم میں زیادہ گرم چیزوں سے پرہیز کرنا ہوتا ہے جبکہ برسات کے مہینوں میں ورزش میں کمی کے ساتھ خوراک میں سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا ہوتا ہے۔

تھپڑ کبڈی کے ایک اور کھلاڑی محمد اویس جٹ کے مطابق اس کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ملک کے دوسرے علاقوں کے بااثر اور صاحب حیثیت لوگ بھی اپنے اپنے علاقے میں تھپڑ کبڈی کے میچوں کو انعقاد کرواتے ہیں۔

کھلاڑیوں کو لانے لے جانے، ان کے قیام و طعام اور میچ فیس کے علاوہ نقد انعام دینے کی ذمہ داری میچ انتظامیہ کی ہوتی ہے۔

اویس جٹ نے بتایا کہ میچ کے دوران کسی کھلاڑی کی بہتر کارکردگی پر تماشائیوں کی طرف سے ملنے والا انعام، جو نقد رقم کی صورت میں ہوتا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس تیزی سے یہ کھیل مقبول ہو رہا ہے تو اس کو دیکھتے ہوئے سرکل کبڈی کھیلنے والے کھلاڑی بھی تھپڑ کبڈی کا حصہ بن رہے ہیں۔

اویس جٹ کا کہنا تھا کہ ایک عمومی سطح کا کھلاڑی اس کھیل سے ماہانہ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک کما لیتا ہے۔

BBCاس کھیل کے لیے محض طاقت نہیں بلکہ ذہانت کا بھی مظاہرہ کرنا پڑتا ہےتھپڑ کبڈی کے اصول

یہ کھیل سرکل کبڈی سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ اس میں ایک ٹیم دس کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہےاور میچ کے دوران مخالف ٹیموں کا ایک ایک کھلاڑی ایک دوسرے کے سامنے آتا ہے جبکہ سرکل کبڈی میں ایک کھلاڑی، جس کو ’ریڈر‘ کہتے ہیں مخالف ٹیم کے پول میں جاتا ہے اور اس کو پکڑنے والے چار کھلاڑی ہوتے ہیں، جن کو ’ڈیفینڈر‘ کہا جاتا ہے۔

اس کھلاڑی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ان چار کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کھلاڑی کو چھو کر واپس اپنے پول میں آ جائے جبکہ جس کھلاڑی کو ہاتھ لگایا گیا ہو، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ریڈر کو کراسنگ لائن تک نہ پہنچنے دیا جائے۔

تھپڑ کبڈی میں ریفری کی سٹی بجنے کے بعد دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اس کھیل میں مکا مارنے کی اجازت نہیں اور کوئی وقت بھی مقرر نہیں کہ اتنے وقت میں ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے ہیں۔

جب تک کوئی کھلاڑی تھپڑ کھا کر گر نہیں جاتا یا تھپڑ مارنے والا اپنے مخالف کو تھپڑ مارتے مارتے وہ لائن کراس نہیں کر جاتا، جو کہ دونوں ٹیموں کو تقسیم کرتی ہے۔

تھپڑ کبڈی کے میچ کا دورانیہ ایک گھنٹے سے زیادہ کا ہوتا ہے اور میچ کا فیصلہ پوائنٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

اس کبڈی میچ میں ہر کھلاڑی کو کم از کم تین مرتبہ مخالف ٹیم کے پول میں جا کر اپنے مخالف کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

ورکنگ باؤنڈری کے علاقے چن مان سنگھ کے نوے سالہ رہائشی محمد صدیق کا کہنا ہے کہ یہ کھیل پاکستان اور انڈیا کی آزادی سے پہلے سے ان علاقوں میں کھیلا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد بھی جب ورکنگ باؤنڈری پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی اس وقت بھی انڈیا کے علاقے گرداس پور سے پہلوان اور کھلاڑی پاکستان میں آ جاتے تھے اور میچ کھیلتے تھے تاہم باڑ لگنے کے بعد ان کا آنا جانا بند ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے تھپڑ کبڈی کے ٹورنامنٹ نہیں ہو سکے تھے کیونکہ میچز کا زیادہ مزا پاکستانی اور انڈین پنجاب کے سکھ پہلوانوں کے درمیان ہونے والے میچ میں آتا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More