Getty Images
جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کرکے آج جیل بھیج دیا گیا ہے۔
انھیں پیر کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ کے قریب سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ منگل کو میرانشاہ پولیس نے انھیں ضلع بنوں میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔
علی وزیر کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل مرید حیات ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے علی وزیر کے ریمانڈ کی استدعا کی تھی لیکن وکلا نے اس کی مخالفت کی، جس پر عدالت نے رکن قومی اسمبلی کو جوڈیشل ریمانڈ پر بنوں جیلبھیج دیا ہے۔
کب اور کیسے گرفتاری؟
مقامی لوگوں کے مطابق کوئی تین ہفتے پہلے پختون تحفظ موومنٹ کے مقامی کوآرڈینیٹر عید رحمان، جلال وزیر، زکیم وزیر کو سیدگئی چیک پوسٹ سے اٹھایا گیا اور نہ تو وہ پولیس کے پاس تھے اور نہ ہی انھیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر مقامی سطح پر پہلے میر علی میں احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دیا گیا اور اس کے بعد دھرنا صدر مقام میران شاہ میں پریس کلب کے سامنے منتقل کر دیا گیا۔
پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے مطابق اس بارے میں تین روز پہلے مذاکرات ہوئے اور حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دھرنا ختم کرنے کے بعد ان کارکنوں کے بارے میں پیش قدمی کی جا سکے گی۔
ان مذاکرات میں علی وزیر بھی موجود تھے لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ علی وزیر کے ساتھ موجود ان کے ساتھی بادشاہ خان نے بتایا کہ صبح اپنی گاڑی میں جا رہے تھے کے راستے میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں روکا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ علی وزیر کس ادارے کی تحویل میں ہیں لیکن آج انھیں بنوں میں میرانشاہ پولیس کے اہلکاروں نے عدالت کے سامنے پیش کیا۔
پی ٹی ایم کے دو نوجوان کارکنوں کو تین روز پہلےڈیرہ اسماعیل خان سے بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی میں کیا ہوا؟
علی وزیر کی گرفتاری کے بعد گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے مختصر تقریر میں کہا ہر روز صبح یہ اطلاع ضرور ملتی ہے کہ کسی نہ کسی کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہیں کچھ اب ہوا کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہالزامات جو بھی ہیں، کیا قانون اور آئین ہے؟ آپ سے گزارش ہے کہ یہ معلوم کریں کہ ان پر کیا الزامات ہیں اور کیوں انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون موجود ہے کہ اجلاس کے دوران اگر کسی رکن اسمبلی کو گرفتار کیا جائے گا تو اس کے لیے سپیکر سے اجازت لی جائے گی اور اگر سپیکر سے اجازت نہیں لی گئی کیا یہ پھر گرفتاری ہے۔ محسن داوڑ کی اس تقریر کے بعد سپیکر راجہ پرویز اشرف خاموش رہے، انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
کیا الزامات لگے، ایف آئی آر میں کیا ہے؟
رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اس وقت دو ایف آئی آر درج ہیں۔ ایک ایف آئی آر اس سال فروری میں میرانشاہ میں تھانے میں درج کی گئی تھی جبکہ دوسری ایف آئی آر دو روز پہلے قبائلی علاقے ضلع کرمپولیس تھانے میں درج کی گئی ہے۔
علی وزیر کو ایک طویل عرصے کے بعد جب اس سال فروری میں رہا کیا گیا تھا تو ان کی میرانشاہ آمد پر ان کا استقبال کیا گیا تھا اور پولیس ایف آئی آر کے مطابق اس وقت علاقے میں سیکشن 144 نافذ تھا۔
تھانہ میرانشاہ میں درج آیف آئی آر نمبر 10 میں کہا گیا ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ نے جلسہ منعقد کرنے کی ڈپٹی کمشنر سے نہ کوئی اجازت طلب کی اور ناں ہی کوئی قواعد و ضوابط دستخط کرنے کی آمادگی ظاہر کی تھی۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے اس جلسہ میں تین سے ساڑھے تین ہزار لوگ شامل تھے اور اس میں صبح سے لیکر عصر کے وقت تک حکومت پاکستان، فوج، ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز الفاظ استعمال کیے گئے۔ یہ ایف آئی آر علی وزیر، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر کے خلاف درج کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ دو روز پہلے ضلع کرم میں تھانہ لوئر کرم میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں بھی علی وزیر، منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنما نامزد ہیں۔ اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی گئی ہے جس میں علی وزیر اور دیگر رہنما تقاریر میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کر رہے تھے۔
اس کے علاوہ ایسی اطلاعات ہیں کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بھی منظور پشتین کو طلب کیا اور ان سے وضاحت پیش کرنے کا کہا ہے۔
Getty Imagesپی ٹی ایم کا کیا موقف ہے ؟
اس بارے میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی میر کلام خان نے بی بی سی کو بتایا کہ علی وزیر کی گرفتاری کے لیے قانونی ضابطوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا جیسے کے کسی بھی رکن کی گرفتاری کے لیے اسمبلی کے سپیکر کی اجازت ضروری ہے اور اس کے علاوہاجلاس اگر جاری ہو اس کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’علی وزیر اور ان کے خاندان نے بڑی مشکلات دیکھی ہیں ان کے خاندان کے متعدد افراد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔‘
علی وزیر نے اس سے پہلے 26 ماہ جیل میں گزارے تھے اور ان پر پاکستان کے مختلف تھانوں میں متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان پر الزامات تھے کہ وہ اپنی تقاریر میں حکومت اور ریاست کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔
علی وزیر رکن قومی اسمبلی کو گزشتہ سال اس وقت رہا کر کے اسمبلی لایا گیا جب وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کے ووٹ کی ضرورت تھی۔ ووٹ دینے کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ حکومت کے اس رویے پر بھی پی ٹی ایم کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
اس بارے میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ، وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر اعظم کے مشیر فیصل کریم کنڈی سے رابطہ کیا اور انھیں سوالات بھی بھیجے تاکہ وہ ان کے جواب دے سکیں۔ رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب کی جانب سے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیے گئے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں معلومات حاصل کریں گے کہ کیا ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے ہیں یا نہیں اور جہاں تک بات ہے ان کی گرفتاری کی اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف یہی ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں ریاست اور اداروں اور یا اہم شخصیات کے خلاف یا ان کی بارے میں توہین آمیز باتیں کرنے کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔
’پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر بھٹو پر حملے کے واقعات کا سامنا کیا لیکن کبھی بھی ریاست یا ریاستی اداروں اور اہم شخصیات کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’9 مئی کے واقعہ سے حالات خراب ہوئے ہیں اور انڈیا نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے اور اب بھی سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ ذہنی پختگی کا مظاہرہ کریں اور ایسی گفتگو نہ کریں جس سے معاملات خراب ہوں۔‘