حالات کو معمول پر لانے کی کوشش، انڈین ریاست منی پور میں کرفیو میں نرمی

اردو نیوز  |  Jun 18, 2023

انڈین حکام نے کہا ہے کہ کہ انہوں نے شمال مشرقی ریاست میں 45 دن کی شہری بدامنی کے بعد تشدد سے متاثرہ منی پور میں نافذ کرفیو میں نرمی کرنا شروع کر دی ہے تاکہ حالات کو معمول پر لایا جا سکے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق میانمار کی سرحد کے قریب دارالحکومت امپھال کی ایک مقامی حکومتی عہدے دار ڈیانا دیوی نے کہا کہ ’ہم نے صبح پانچ سے شام پانچ تک کرفیو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شہری خوراک، ادویات اور دوسری اشیائے ضرورت خرید سکیں۔‘

رواں برس تین مئی کو ایک مخصوص نسلی گروہ کوکیوں، جو پہاڑوں میں رہتے ہیں، کے لیے مختص معاشی فوائد اور سرکاری ملازمتوں اور تعلیم کے لیے مختص کوٹوں کے خلاف مقامی برادریوں کے احتجاج کے بعد منی پور میں بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے۔

زیریں علاقوں میں میتی برادری کا غلبہ ہے اور ریاست کی نصف آبادی بھی انہی پر مشتمل ہے۔ میتی اپنے لیے کوٹے میں اضافہ چاہتے ہیں۔

تاہم کوکیوں کو خوف ہے کہ ان کے لیے مخصوص تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں میتیوں کو زیادہ حصہ ملے گا۔

گزشتہ ہفتے انڈیا کی وفاقی وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق مئی سے اب تک ہونے والے تشدد میں 83 افراد ہلاک جبکہ 60 ہزار سے افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

حیدرآباد منی پور سوسائٹی کے افراد ریاست منی پور میں نسلی فسادات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)جمعرات کو میتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کے امپھال میں موجود گھر کو آگ لگا دی گئی۔

منی پور کے بے گھر افراد کو پناہ دینے والی ہمسایہ ریاستوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو خوراک کی فراہم کے لیے فنڈز جاری کرے۔

اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنی پارٹی کے زِیرانتظام ریاست میں بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔

مئی سے اب تک ہونے والے تشدد میں 83 افراد ہلاک جبکہ 60 ہزار سے افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)منی پور میں اپوزیشن کے ایک قانون ساز نیما چند لوانگ نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ اگر وزیراعظم ایکشن لیتے ہیں تو 24 گھنٹوں میں منی پور میں امن بحال ہو سکتا ہے۔‘

نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے کہا ہے کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے کم از کم 32 ہزار سکیورٹی اہلکار (ریاستی) پولیس کی معاونت جاری رکھیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More