BBC
انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کی ایک عدالت نے ریپ، جنسی ہراسانی، فراڈ اور متاثرہ خواتین کو ان کی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز دکھا کر بھاری رقوم بٹورنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے ایک 26 سالہ نوجوان کو تاحیات عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
تمل ناڈو کے ضلع کنیا کماری سے تعلق رکھنے والے بیروزگار نوجوان کاشی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بشمول فیس بُک اور انسٹاگرام پر اپنے آپ کو کامیاب بزنس مین ظاہر کرتے ہوئے لڑکیوں کو اپنے دام میں پھنساتے تھے اور بعدازاں ان سے جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد انھیں بلیک میل کرتے اور رقم بٹورتے تھے۔
کاشی کے خلاف پہلی باقاعدہ درخواست چنئی کی ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر نے سنہ 2020 میں پولیس کو درج کروائی تھی۔ اس شکایت کی بنیاد پر اُن کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور تحقیقات کا آغاز ہوا۔
پولیس تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی انھوں نے تمل ناڈو اور بنگلورو کی سو سے زیادہ نوجوان خواتین، سکول اور کالج کی طالبات کا ناصرف جنسی استحصال کیا بلکہ بعدازاں انھیں بلیک میل بھی کیا۔
پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے دوران جبب اُن کے لیپ ٹاپ، موبائل اور دیگر آلات کی چھان بین کی تو بہت سے انکشافات ہوئے۔ بعدازاںمتاثرہ خواتین کے دیے گئے بیانات کی روشنی میں کاشی کے خلاف سات مقدمات درج کیے گئے جو ریپ، جبری وصولی، خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، نازیبا تصاویر اور ویڈیو ریکارڈ کرنے جیسے الزامات کے تحت درج ہوئیں۔
یہ کیس کنیا کماری ضلع کے مختلف تھانوں میں درج کیے گئے تھے۔
ابتدائی تحقیقات کے بعد کاشی کو پولیس نے اپریل 2020 میں گینگسٹرز پریونشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا جس کے بعد ان کا کیس مزید تفتیش کے لیے ’سی پی سی آئی ڈی‘ کو منتقل کر دیا گیا۔ تفتیش کے دوران ان کے والد کے خلاف بیٹے کے کیس سے متعلق ثبوت پولیس سے چھپانے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور وہ گرفتار بھی ہوئے تاہم ایک سال بعد انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
BBC
پولیس نے دوران سماعت عدالت کو آگاہ کیا کہ کاشی کے زیر استعمال لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون کی جانچ سے پتہ چلا کہ اس میں خواتین کی سو سے زیادہ فحش تصاویر اور ویڈیوز ریکارڈ کی ہوئی تھیں۔
کاشی عرف سوجی نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے جبکہ ان کے والد گھر کے قریب ہی پولٹری فارم چلاتے ہیں۔ کاشی کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد کے کام میں مدد کرتے رہے تاہم جلد ہی انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔
اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر وہ خواتین کے حقوق اور خواتین کی فلاح و بہبود کے بارے میں پوسٹیں کرتے تھے اور اپنے آپ کو کامیاب کاروباری شخص ظاہر کرنے کی غرض سے وہ اپنے فیس بک اور انسٹاگرام پر فینسی کپڑے پہنے اپنی تصاویر اور مہنگی بائیکس چلانے کی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرتے تھے۔
تحقیقات میں شامل افسران کہنا ہے کہ کاشی سوشل میڈیا کے ذریعے متاثرہ خواتین کے ساتھ فحش گفتگو میں مشغول ہوتے اور آہستہ آہستہ بات نازیبا تصاویر اور ویڈیوز کے لین دین تک پہنچ جاتی۔
افسران کے مطابق مجرم اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لڑکیوں اور بڑی عمر کی خواتین کو مسحور کرتے اور تصاویر اور ویڈیوز کی بنیاد پر بلیک میل کرتے ہوئے رقوم اور یہاں تک کے زیورات تک ہتھیا لیتے۔ حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انھوں نے کچھ خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات بھی قائم کیے اور اس دوران خفیہ طور پر ویڈیوز ریکارڈ کیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ضبط شدہ ویڈیوز سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کاشی نے کئی خواتین کے ساتھ انتہائی وحشیانہ طریقے سے غیر فطری جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔
ان جرائم میں کاشی کے ساتھ ان کے دو معاونین بھی شامل ہوتے جو کہ ان کے دوست تھے جو کہ اب زیر حراست ہیں۔
BBC
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کیس سے منسلک ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’عام طور پر کاشی ایک خاتون یا لڑکی سے جنسی تعلق قائم کرتے اور تصاویر اور ویڈیوز بنا لیتے۔ جس کے بعد ان کے دو دوستوں میں سے ایک متاثرہ خاتون سے رابطہ کر کے انھیں وہ مواد بھیجتا اور ساتھ دھمکی دیتا کہ وہ یہ تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کر دے گا۔ متاثرہ خواتین تصاویر بھیجنے والے سے رابطہ کرتیں اور پھر انھیں مزید بلیک میل کیا جاتا۔ اس طرح انھوں نے بہت سی خواتین کی زندگیاں برباد کیں۔‘
واقعہ کی سی بی سی آئی ڈی میں ہونے والی تحقیقات کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ کاشی نے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا ہے۔ سی بی سی آئی ڈی حکام کو کاشی نے بتایا کہ انھوں نے کبھی خود کسی خاتون کو سوشل میڈیا پر نہ تو رابطہ کیا اور نہ ہی دھوکہ دیا بلکہ یہ تمام وہ خواتین ہیں جو ان کی جسمانی خوبصورتی کی وجہ سے خود ان کی جانب راغب ہوئیں۔
تاہم بعدازاں انھوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ’میں نے یہ غلطیاں ناسمجھی میں کیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ پولیس اس طرح تحقیقات کرکے میرا پتہ چلا لے گی۔‘
کاشی سے متاثرہ خواتین میں ایک نابالغ لڑکی بھی شامل ہے۔ چارج شیٹ داخل ہونے، شواہد سننے اور مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 14 جون عدالت کی جانب سے انھیں تاحیات عمر قید کا فیصلہ سنایا گیا۔
مجسٹریٹ جوزف جوئے نے کاشی کو تعزیرات ہند کی دفعات 376(2)، 354C اور 506(22) کے تحت ایک متاثرہ خاتون کا متعدد بار ریپکرنے پر عمر قید اور ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اس مقدمے میں حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل لیونگسٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس کیس کے تمام ثبوت سائنسی بنیادوں پر حاصل کیے گئے۔ ہم نے اسے مجرم ثابت کیا اور کیس چلایا۔
انھوں نے کہا کہ مجرم کے وکیل نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ متاثرہ خاتون نے بروقت پولیس میں شکایت درج نہیں کی اور یہ کہ تاخیر کے مقصد سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی مختلف درخواستیں دائر کیں۔
تمام دلائل کے اختتام پر جج نے ملزم کاشی کو ان کی قدرتی موت تک عمر قید اور ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
انسپکٹر شانتی، جنھوں نے 2022 تک اس معاملے میں تفتیشی افسر کے طور پر کام کیا اور فی الحال کنیا کماری پولیس اسٹیشن میں بطور انسپکٹر کام کر رہے ہیں، نے بی بی سیکو بتایا کہ ’یہ مقدمہ بہت مشکل تھا مگر ہم نے بھی محنت جاری رکھی۔ چونکہ ملزم ضمانت پر باہر نہیں تھا، اس لیے ہم نے مقررہ وقت کے اندر عدالت میں چارج شیٹ داخل کی۔ نتیجے کے طور پر، ملزم اپنی گرفتاری کے بعد سے تین سال تک جیل میں رہا اور اسی ضمانت پر رہائی نہ مل سکی۔‘
انسپکٹر شانتی کے مطابق ’اس کیس میں سو سے زائد خواتین متاثر ہوئی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ متاثرہ خواتین نے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اپنی خوشی کا اظہار میرے سامنے کیا ہے۔‘
یاد رہے کہ کاشی کے خلاف درج سات مقدمات میں سے ابھی صرف ایک میں فیصلہ آیا ہے جبکہ باقی مقدمات ابھی زیرسماعت ہیں۔