آئی ایم ایف کو پاکستان کے حالیہ بجٹ پر کیا اعتراضات ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 15, 2023

Getty Images

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ایک بار پھر ملک کے کم زرمبادلہ ذخائر کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیے جاںے والے وفاقی بجٹ پر بدھ کی رات آئی ایم ایف پاکستان کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں مختلف نکات پر اعتراض کیا گیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے متعدد اعلانات اور مختلف اقدامات کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی معاشی امداد کی قسط کے لیے متوقع سٹاف لیول معاہدہ کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی مد میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا حالیہ پروگرام جون میں ختم ہونا ہے۔

ماہرین کے مطابق سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ معاشی غیر یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے بجٹ کے کن نکات پر اعتراض کیا؟

پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے اپنے بیان میں وفاقی حکومت کی جانب سے تجویز کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو ’نقصان دہ مثال‘ قرار دیتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی قرار دیا۔

دوسری جانب ایستھر پیریز نے بیان میں یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ٹیکس کے نظام کو پھیلانے کے موقع کو ضائع کیا گیا۔

ان کے مطابق توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمت عملی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

تاہم ایستھر پیریز کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف استحکام برقرار رکھنے کے لیے پالیسیوں پر بات چیت میں مصروف ہے۔

Getty Imagesآئی ایم ایف کے اعتراضات پر حکومت کا کیا مؤقف ہے؟

وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش پاشا نے بدھ کی شام سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ کے مختلف امور پر سوالات کیے ہیں۔

ان کے مطابق ریسورس موبالائزیشن، پاور سیکٹر اور اخراجات پر وضاحت مانگی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے اہداف پر آئی ایم ایف نے وضاحت مانگی ہے کہ ان اعداد و شمار کو کس بنیاد پر طے کیا گیا اور انھیں کیسے حاصل کیا جائے گا۔

پیٹرولیم لیوی سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت فی الوقت لیوی میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تاہم بجت میں یہ تجویز شامل ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں اضافے کی صورت میں پیٹرولیم لیوی میں ایڈجسٹمنٹ کی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ بجٹ پیش کیے جانے کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ کیا حکومت نے آئی ایم ایف کی تجاویز کے مطابق بجٹ تیار کیا ہے تو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے بجٹ خسارے میں جو تبدیلیاں کی ہیں وہ آئی ایم ایف کے نکتہ نظر سے مثبت تبدیلیاں ہوں گی۔ جو بجٹ ہم نے آئی ایم ایف کو دکھایا، یہ نمبرز اس سے بہتر ہیں۔‘

اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ’بجٹ کے نمبرز ملنے کے بعد آئی ایم ایف ہم سے کئی بار سوالات کر چکا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ بجٹ کے حوالے سے کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو مسئلہ ثابت ہو۔‘

یاد رہے کہ پاکستان نے جنوری کے مہینے سے لے کر اب تک آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے مختلف شرائط پوری کی ہیں جن میں بجلی کے شعبے میں سبسڈی کا خاتمہ اور بجلی کے بلوں میں اضافی سرچارج کی منظوری شامل ہے۔

اس کے ساتھ اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے 18 فیصد کر دی گئی جبکہ لگژری اشیا پر اس کی شرح 25 فیصد کر دی گئی اور پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کیا گیا۔

Getty Imagesکیا پاکستان ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے بجٹ پر اعتراضات کے ساتھ ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ڈیفالٹ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار متعدد بار یہ دعوی کر چکے ہیں کہ پاکستان اپنی تمام تر ادائگیاں وقت پر ممکن بنائے گا۔

لیکن بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق موڈیز کی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اس امکان میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام مکمل نہیں کر پائے گا۔

معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق کا کہنا ہے ڈیفالٹ کا خدشہ موجود تو ہے تاہم حکومت کے پاس فی الحال چند راستے موجود ہیں۔

وفاقی بجٹ پر آئی ایم ایف کے اعتراضات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ کا جائزہ لیں تو ٹیکس اکھٹا کرنے کے لیے سارے ایسے اقدامات لے گئے جو پہلے ہی تھے، ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے پتا چلے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا اور آئی ایم ایف کا یہی اعتراض ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت خدشہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ تاخیر کا شکار ہو گا جبکہ وقت کم ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا جو اس لیے مشکل ہے کیونکہ وقت کم ہے۔‘

ثنا توفیق کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ’یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر فنانسنگ کہاں سے ہو گی اور اب تک حکومت کی جانب سے کوئی پلان بی نظر نہیں آ رہا۔‘

’متبادل یہ ہے کہ واجب الادا قرضے کی ری سٹرکچرنگ قرضے ہو یا ری پروفائلنگ ہو۔ اس طریقے میں ایک سال کے شارٹ ٹرم قرضے کو کھینچ کر تین سال تک کے لیے لے جایا جاتا ہے اور وہ ایک بہتر راستہ ہے۔ اس سے سانس لینے کی جگہ ملتی ہے۔‘

’دوسرا ذریعہ کرنٹ اکاوئنٹ ہے۔ اگر حکومت خسارے سے بچے، امپورٹ کو کم رکھا جائے اور ایکسپورٹ کو بڑھانے کی کوشش کی جائے تو وقت حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہونا موجودہ عالمی حالات میں ایک مسئلہ ہے۔‘

ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت اسی طرح معاشی میدان کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی۔

’لیکن دوسری جانب اگر سیاسی حکومت کی جگہ نگران حکومت آتی ہے تو ان کے لیے ایک چیلنج ہو گا کہ وہ دو سے تین ماہ کیسے گزارتے ہیں، لگ رہا ہے کہ یہ سارا دباؤ نگران حکومت پر پڑنے والا ہے۔‘

’اور یہ دیکھنا ہو گا کہ نگران حکومت کے ساتھ کریڈیٹرز بات چیت کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ معاملات مینیج نہیں ہو سکے، تو پھر بات ڈیفالٹ کی طرف جا سکتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More