Getty Imagesپاکستان میں 1999 میں آنے والے سمندری طوفان کے نتیجے میں سندھ میں درجنوں افراد ہلاک اور لاپتہ ہو گئے تھے
’اب جب سمندری طوفان کی باتیں ہو رہی ہیں تو مجھے وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب کئی برس پہلے ہم نے افراتفری میں اپنا گھر بار چھوڑا تھا۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز آ رہی تھی کہ ’بھاگو، طوفان آ رہا ہے۔‘ میں اس وقت چھوٹا تھا، میں بھی اپنے والد کے ساتھ بھاگا مگر بعد میں میرے والد لاپتہ جبکہ ایک بہن ہلاک ہو گئی تھی۔ ہم لوگ کافی دنوں تک کیمپ میں رہے تھے۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے رہائشیمحمد اکرم کا جو اس وقت کراچی میں ملازمت کرتے ہیں۔ محمد اکرم کا خاندان سنہ 1999 کے پاکستان کی تاریخ کے بدترین سمندریطوفان کے متاثرین میں سے ہے۔
سنہ 1999 میں آنے والے اس طوفان کے باعث صوبہ سندھ میں درجنوں افراد ہلاک اور لاپتہ ہوئے جبکہ 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس طوفان کے نتیجے میں 138,000 گھر اور 256,000 ایکٹر زرعی زمین تباہ ہوئی تھی۔ اس سمندری طوفان کی تباہی کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔
اس سمندری طوفان سے سندھ کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ٹھٹھہ، بدین اور کیٹی بندرگاہ تھے۔
Getty Images1999 کے سمندری طوفان کے بعد بے گھر ہونے والے افراد میں کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے
محمد اکرم کہتے ہیں کہ ہم نے کافی دنوں بعد اپنے علاقے میں واپس جا کر اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کیا تھا۔
’میں اس وقت چھوٹا تھا مجھے میری والدہ نے بتایا کہ والد کو کافی تلاش کیا گیا مگر وہ نہیں ملے تھے۔ صرف ہم ہی نہیں کئی لوگوں کے عزیز و اقارب لاپتہ ہوئے تھے، جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ ان کی لاشوں کو سمندر کی لہریں واپس اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔‘
محمد اکرم نصحیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اب جب دوبارہ ایک اور طوفان کیٹی بندرگارہ، ٹھٹہ اور بدین کی طرف بڑھ رہا ہے تو میں دعا گو ہوں کہ سب لوگ محفوظ رہیں اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ فی الفور اپنا علاقہ چھوڑ دیں۔ہماری طرح آخری وقت کا انتظار نہ کریں۔‘
اس وقت سمندری طوفان بپر جوائے پاکستان کے ساحلوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ سائیکلون کراچی سے 490 کلومیٹر دور ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ 1999 اور اب کے طوفان میں کئی چیزیں مشترک ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو شدت 1999 کے طوفان کی تھی، وہ ہی شدت بپر جوائے کی بھی ہے۔
’فائبر سے بنی کشیتوں کا قیمہ بن گیا تھا‘
محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ سمندر میں چھوٹے بڑے طوفان آتے رہتے ہیں اور ماضی میں پاکستان میں بھی کئی چھوٹے بڑے سمندری طوفان آئے ہیں اور اگر ہم دیکھیں تو بپر جوائے اور 1999 کے طوفان میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں سنہ 2007 میں سمندری طوفان ’یمین‘ اور 2010 کا سمندری طوفان ’پیٹ‘ نے بھی کافی تباہی مچائی تھی۔
سمندری ماحولیات کے ماہر اور سابق ڈائریکٹر جنرل میرین اینڈ فشریز معظم خان کے مطابق یہ دونوں طوفان بہت خوفناک تھے جن میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2010کا سمندری طوفان ’پیٹ‘ عمان کی طرف سے بلوچستان کی ساحلی پٹی کے علاقوں چمنی اور گوادر میں ٹکرایا تھا۔ اس طوفان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے پورا گودار الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔
’فائبر کو مضبوط سمجھا جاتا ہے مگر اس طوفان نے فائبر سے تیار کردہ پانچ سو کشیتوں کا قیمہ بنا دیا تھا۔‘
معظم خان کا کہنا تھا کہ سمندری طوفان ’پیٹ‘ پاکستان کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کیٹی بندر اور کراچی کے سامنے سے گزرا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ بارشیں ہوئی اس دوران ہوئی تھیں، انتہائی کم وقت میں سات انچ بارش ہو گئی تھی۔ اگر یہ بارش چند گھنٹے مزید رہتی تو پھر بہت زیادہ نقصان ہوتا۔
اویس حیدر موسم پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پاک ویدر کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سمندری طوفان ’پیٹ‘ 31 مئی 2010 کو وجود میں آیا اور اس کا اختتام سات جون 2010 کو ہوا۔اس سمندری طوفان کے نتیجے میں چلنے والی تین منٹ تک زیادہ سے زیادہ ہوا کی رفتار 155 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سمندری طوفان کے نتیجے میں کراچی کو بھی طوفانی ہواؤں اور موسلا دھار بارش کا سامنا کرنا پڑا اور 16 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ملک کو 81 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اس طوفان کو پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بدترین طوفان سمجھا جاتا ہے، جس میں ہلاکتیں اور نقصانات خوش قسمتی کے باعث کم رہے تھے۔
Getty Images2007 کا سمندری طوفان ’یمین‘
معظم خان اور اویس حیدر متفق ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین سمندری طوفانوں کی درجہ بندی کی جائے تو غالباً 2007 کا سمندری طوفان یمین کا نمبر تیسرا ہے۔
معظم خان بتاتے ہیں کہ یمین جون میں بحیرۂ بنگال سے چلا اور یہ انڈیا سے گزرتا ہوا انڈین ریاست گجرات سے کراچی کے قریب آیا تھا، اور بلوچستان سے گزرتا ہوا افغانستان تک گیا تھا۔
ان کے مطابق ’یہ اپنی تاریخ کا عجیب و غریب طوفان تھا جو ہر کچھ گھنٹوں بعد اپنا رخ اور شدت تبدیل کرتا رہتا تھا۔ اس طوفان نے بلوچستان کے علاقے تربت میں بہت تباہی مچائی تھی۔‘
اویس حیدر کہتے ہیں کہ سمندری طوفان یمین 26 جون 2007 کو بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا۔ اس سمندری طوفان کے نتیجے میں چلنے والی ہواؤں کی رفتار 65 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس سمندری طوفان کے نتیجےمیں درجنوں افراد ہلاک ہوئے جبکہ 20 لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ تیز ہواؤں کے نتیجے میں کراچی میں انتہائی تیز بارش اور ہوائیں ریکارڈ کی گئیں تھیں۔
اس وقت کے ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق کراچی میں ایک دن میں 100 سے زیادہ لوگ بارشوں اور اس سے متعلقہ حادثات کے باعث سے ہلاک ہو گئے تھے۔
معظم خان کا کہنا تھا کہ اس میں تو شاید دو رائے نہیں ہے کہ جدید دور میںاب تک 1999 کا سمندری طوفان اپنی تاریخ کا پہلے نمبر پر بدترین طوفان ہے۔
’مگر اب جس طرح بپر جوائے بپھرتا جا رہا ہے ہمیں یہ لگ رہا ہے کہ یہ اس طوفان کے نقش قدم پر ہے بلکہ یہ اس کا ایکشن ری پلے ہے۔‘
بپر جوائے 1999 کے سمندری طوفان کا ’ایکشن ری پلے‘BBC
ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ تاریخوں کے تھوڑے بہت فرق کے علاوہ موجودہ طوفان اسی روٹ، حدود پر سفر کر رہا ہے جس پر 1999 والے طوفان نے سفر کیا تھا۔ اس کی اس وقت رفتار بھی وہ ہی ہے جو کہ 1999 میں تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دنوں میں یہ طوفان کیٹی بندرگاہ سے ٹکرائے گا۔ یاد رہے کہ سنہ 1999 والا طوفان بھی کیٹی بندرگارہ سے ٹکرایا تھا۔
ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے بھی تقریباً اس ہی مقام پر وجود میں آیا ہے جہاں سے 1999 والا طوفان وجود میں آیا تھا۔ ہمیں 1999 والے اور اب کے طوفان میں بہت سی مماثلت ملتی ہیں۔
معظم خان 1999 میں میرین اینڈ فشریز ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر جنرل کی خدمات انجام دے رہے تھے اور اس وقت کراچی میں تعنیات میں تھے۔ ان کو 1999 والے سمندری طوفان کے واقعات ابھی بھی یاد ہیں جبکہ وہ بپر جوائے کو ابھی سیٹلائیٹ کے ذریعے مانیٹر کر رہے ہیں۔
معظم خان بتاتے ہیں 1999 کے سمندری طوفان کی لہریں 28 فٹ اونچی تھیں جبکہ آج اس وقت تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس کے مطابق بپر جوائے کی لہریں 30 سے 40 فٹ اونچی ہیں۔
سنہ 1999 میں جب وہ طوفان پاکستان کے علاقوں سے ٹکرایا تو اس نے انڈس ڈیلٹا کے علاقے سے لے کر بدین تک بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی مکمل طور پر حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے، لوگ آگاہ نہیں تھے کہ اس طوفان سے کیا ہو سکتا ہے اور کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں اور اس سے کیسے بچنا ہے۔
معظم خان کا کہنا تھا کہ 1999 کے طوفان نے پاکستان کو ماحولیاتی، معاشی، معاشرتی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ’یہ سمندری طوفان انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اگر ان سے بچاؤ کے لیے قابل از وقت مناسب اقدامات نہ ہوں تو نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت میرا خیال ہے کہ حکام اور لوگ ذہنی طور پر اس طوفان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ جس کی وجہ اطلاعات کا ملنا ہے جبکہ 1999 میں بروقت اطلاعات دستیاب نہیں تھیں۔جس وجہ سے مجھے توقع ہے کہ اس طوفان سے اچھے طریقے سے نمٹا جا سکے گا جبکہ ان تمام طوفانوں سے بچاؤ میں اہم عوامل ہمارا ماحولیاتی نظام اور خوش قسمتی بھی تھی۔‘
’جیک آباد تا ایران بارڈر کے علاقے نمی جذب کرتے ہیں‘
معظم خان کہتے ہیں کہ بڑے اور خوفناک طوفانوں میں تباہی سے بچنے کی کئی ایک چھوٹی اور بڑی وجوہات ہیں۔ جس میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک جتنی بھی بڑے سمندری طوفان آئے ہیں۔ ان کی نمی ہمارے جیک آباد سے لے کر ایران تک کے بارڈر تک کے علاقے جذب کرتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جیک آباد سے ایران بارڈر تک کے ہمارے علاقے انتہائی خشک اور گرم علاقے ہیں۔ جب بھی سمندری طوفان آتا رہا تو اس وقت یہ علاقے اس کی نمی کو جذب کر لیتے تھے جس وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔
’اب بھی ہم توقع کرتے ہیں کہ بپر جوائے کی نمی کو بھی یہ علاقے جذب کر لیں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کا بہت دارو مدار اس بات پر بھی ہو گا کہ وہ علاقے چند دونوں سے کتنے گرم اور خشک تھے۔
اویس حیدر کہتے ہیں کہ کئی ایک سمندری طوفانوں میں دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ساحلی علاقوں تک پہچنتے پہچنتے وہ اپنی شدت کم کر لیتے ہیں۔ اس طوفان کے بارے میں بھی شروع میں تو یہ رائے تھی کہ یہ اپنی شدت کو کم کر لے گا اس لیے جب یہ پیدا ہوا تو کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی مگر یہ اپنی شدت کو کم نہیں کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے طوفان سالوں میں پیدا ہوتے تھے مگر اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہر سال پیدا ہوتے ہیں۔
بحیرۂ عرب میں درجہ حرارت میں اضافہ Getty Images
اویس حیدر کہتے ہیں کہ ہر سمندر کا اپنا اوسط درجہ حرارت ہے جس میں سمندر پرسکون رہتا ہے۔ بحیرۂ عرب کا اوسط درجہ حرارت 26 سے لے کر 28 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور جب یہ درجہ حرارت 29 تک جائے گا تو سمندر میں طوفان پیدا ہو گا۔
’اب اس وقت مون سون سے پہلے زیادہ گرمی پڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں بحیرۂ عرب کا درجہ حرارت 30 اور 32 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جس وجہ سے اب ہر سال ہم مون سون سے پہلے سمندری طوفان دیکھ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے سالوں میں جب درجہ حرارت زیادہ بڑھے گا تو ہم زیادہ سمندری طوفانوں کا مشاہدہ کریں گے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ یہ صورتحال ہر سال بدتر سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
معظم خان کہتے ہیں کہ پہلے بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ سمندری طوفان سے کچھ نقصانات براہ راست ہوتے ہیں اور کچھ اس کے بعد ہوتے ہیں۔ سمندری طوفان کی وجہ سے مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ انڈیا کی ریاست گجرات میں شدید بارشیں اور ہوائیں چلنا شروع ہو چکی ہیں جبکہ کراچی سمیت مختلف علاقوں میں شدید بارشوں کی پیش گوئی ہے۔
’پاکستان کا انفرا سٹرکچر زیادہ قابل بھروسہ نہیں‘Getty Images
معظم خان کہتے ہیں کہ 1999 کا شدید سمندری طوفان عمان سے گزرتا ہوا تباہی مچاتا بلوچستان اور کیٹی بندر گاہ سے ٹکرایا تھا۔ عمان میں انفراسٹرکچر مضبوط تھا زیادہ نقصان نہیں ہوا مگر پاکستان میں بہت زیادہ نقصاں ہوا۔ اس طرح کئی طوفان خوش قسمتی سے کراچی اور پاکستان کے ساحلوں سے ٹکرائے بغیر گزر گئے تھے۔
ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ممتاز قانون دان مہدی زمان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’قسمت ہر وقت ساتھ نہیں دیتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سمندری طوفان تو گزر گئے مگر اس کے نتیجے میں بارشوں اور تیز ہواؤں نے تباہی مچا دی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب اس وقت کراچی ناقص تعمیرات اور کنکریکٹ کا جنگل ہے۔اس کی بلند و بالا عمارتوں پر دیو قامت ہورڈنگ بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ بہت کم علاقوں میں معیاری تعمیرات کا خیال رکھا گیا ہے۔ نکاسی اب کا انتظام موجود نہیں ہے۔ پتا نہیں بپر جوائے کیا کرے گا مگر اس کے نتیجے میں جو ہوائیں اور بارشیں ہوں گی وہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔‘