Getty Images
پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے مطابق بپر جوائے نامی سمندری طوفان ’انتہائی شدت‘ اختیار کر چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ جنوب مشرقی سندھ میں کیٹی بندر گاہ اور انڈیا میں گجرات کے ساحل سے 15 جون کو ٹکرائے گا۔
سسٹم کے گرد تیز ہواؤں کی رفتار قریب 180 سے 200 جبکہ مرکز میں 220 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ لہروں کی اونچائی 35 سے 40 فٹ بتائی گئی ہے۔
ڈپارٹمنٹ کے مطابق سائیکلون بپر جوائے کراچی کے ساحل سے قریب 690 کلومیٹر، ٹھٹہ سے 670 کلو میٹر اور اورماڑا سے 720 کلو میٹر دور ہے۔
اس طوفان کے رُخ کا تعین کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ ہوا کی سمت کے حساب سے اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس طوفان کا رُخ جنوب مشرقی سندھ اور انڈیا میں گجرات کے ساحل کی جانب ہو گا۔
اس کے ممکنہ خطرات میں بتایا گیا ہے کہ 13 سے 17 جون کے درمیان کراچی، ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، عمر کوٹ اور دیگر ساحلی علاقوں میں شدید بارشیں ہوسکتی ہیں۔
ادھر قدرتی آفات سے نمنٹے والے ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ اس سمندری طوفان کی پیشرفت کو جانچ کر ہی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے گا کہ یہ کس مقام پر ساحل سے ٹکرائے گا اور اس کے کیا اثرات ہوں گے۔
محکمہ موسمیات کے ساتھ ساتھ این ڈی ایم اے کی جانب سے بھی تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
https://twitter.com/ndmapk/status/1667712171885699072
سمندری طوفان کی کراچی کی جانب ممکنہ پیش قدمی
پاکستان کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے الرٹ کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کراچی ائرپورٹ پرپیشگی اقدامات کے احکامات جاری کردیے۔
کراچی میں 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔
سی اے اے کے شعبہ ائرسائیڈ نے متعلقہ اداروں کو الرٹ کردیا ہے اور تجویز کیا ہے کہ ہلکے وزن کے ہوائی جہازوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیا جائے یا کسی مظبوط چیز سے باندھا جائے اور رن ویز اور ٹارمک ایریا کے آس پاس اشیا کو تصادم کے خدشے کا باعث محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔
الرٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرج چمک کے ساتھ بارش اور تیز ہواؤں کے دوران مختلف قسم کے کیڑے مکوڑوں کے خاتمے کے لیے اسپرے کویقینی بنایا جائے اور جہازوں سے پرندوں کو دوررکھنے کے لیےاضافی برڈ شوٹرزتعینات کیے جائیں
سی اے اے نے بارش کے دوران محفوظ آپریشن کے لیے رن وے کی رگڑ/بریکنگ ایکشن کا تعین کرنے والی ٹیم کو بھی تیار رہنے کا کہا ہے۔
’بپر جوائے‘ کا مطلب کیا ہے؟
سائیکلون کا نام ’بپر جوائے‘ بنگلہ دیش کی جانب سے رکھا گیا ہے جس کا بنگالی میں مطلب تباہی یا قدرتی آفت ہے۔
پاکستان کی طرح انڈیا کے محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی پیشگوئی کی جا چکی ہے کہ یہ سمندری طوفان اگلے کچھ گھنٹوں میں ’انتہائی شدید سائیکلونک طوفان‘ میں بدل سکتا ہے اور 15 جون تک پاکستان کے ساحل اور اس سے ملحقہ سوراشٹرا اور کچ تک پہنچ سکتا ہے۔
انڈیا کے محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں اس کی وجہ سے بحیرہ عرب میں ہوائیں 155 سے 165 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں اور آگے بڑھتے ہوئے ہوا کی رفتار 190 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔
انڈین محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان بِپرجوئے دھیرے دھیرے مضبوط ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں گجرات کے ساحل کے بہت قریب آ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
جنوبی وزیرستان میں غیر معمولی ژالہ باری سے کھڑی فصلیں تباہ: ’ایسے لگتا تھا جیسے ہر پھل کو زخمی کر دیا گیا ہو‘
’نہ آم پکے گا نہ مٹھاس آئے گی‘: بےموسمی بارشیں اور ژالہ باری پاکستان کو کتنا نقصان پہنچا رہی ہیں؟
سائیکلون بپر جوائے کے ممکنہ اثرات
پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ سمندری طوفان کی وجہ سے جنوب مشرقی سندھ میں کراچی، ٹھٹھہ، بدین، تھرپارکر، میر پور خاص کے اضلاع میں 13 جون کی شام سے تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کا امکان ہے جس سے کچے مکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس اندیشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اس طوفان کے ساتھ تین میٹر یعنی آٹھ سے دس فٹ بلند لہریں بھی ساحلی پٹی سے ٹکرا سکتی ہیں۔
مچھیروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ 11 جون سے کھلے سمندر میں سفر کرنے سے اجتناب کریں کیوں کہ بحیرۂ عرب میں موسمی حالات خراب ہو سکتے ہیں۔
ادھر کمشنر کراچی نے شہریوں کے سمندر کی طرف جانے، مچھلی پکڑنے اور نہانے پر 11 جون سے لے کر طوفان تھمنے تک پابندی عائد کی ہے۔
طوفان سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر انڈین محکمہ موسمیات نے بھی گجرات کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے اور ماہی گیروں سے کہا گیا ہے کہ وہ 15 جون تک مغربی وسطی بحیرہ عرب اور 12 سے 15 جون تک شمالی بحیرہ عرب اور ملحقہ وسطی بحیرہ عرب میں نہ جائیں۔
انڈیا حکام نے گجرات، مہاراشٹر، گوا سمیت اکثر ساحلی علاقوں کو سنیچر سے ہائی الرٹ رہنے کی تنبیہ جاری کی ہے۔
سائیکلون یا سمندری طوفان کیسے بنتا ہے؟
سائیکلون گرم ہوا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور ایک گول دائرے کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے طوفان اپنے ساتھ کافی تیز ہوائیں اور بارش لاتے ہیں جو سمندروں کے گرم پانی کے اوپر جنم لے کر آگے بڑھتے ہوئے شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔
جب سمندر کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے تو اس کی حدت میں کمی آتی ہے اور یہ بادل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے زیادہ دباؤ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔
جیسے جیسے یہ ہوا بلند ہوتی ہے سمندری سطح کے قریب ہوا میں کمی ہوتی ہے۔ اسے کم دباؤ کا علاقہ کہتے ہیں۔
اس کم دباؤ والے علاقے کی جانب خلا کو پُر کرنے کے لیے اور ہوا حرکت میں آتی ہے جو گرم ہو کر ایک گول دائرے کی صورت میں گھومتی ہے۔
ایسے سمندری طوفان جو گھومتے ہیں، ان کا ایک مرکزی نقطہ ضرور ہوتا ہے۔ اسے طوفان کی آنکھ یعنی ’آئی آف دی سٹورم‘ کہا جاتا ہے جو پرسکون حصہ ہوتا ہے۔
یہاں ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور اسی نقطے کے گرد طوفان گھومتا ہے۔
AFPسمندری طوفان تباہ کن کیوں ہوتے ہیں؟
پانی کی سطح پر سفر کے دوران سمندری طوفان کی شدت بڑھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طوفان کے اوپر موجود گرم ہوا ایندھن کا کام کرتی ہے۔
جیسے جیسے یہ گرم ہوا بلند ہوتی ہے اس کی جگہ متبادل ہوا لے لیتی ہے اور اسی سے طوفان یا سائیکل بنتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سمندری طوفانوں کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔
تاہم جب یہ سمندری طوفان زمین کے قریب پہنچتے ہیں تو ان کی شدت میں کمی آتی ہے کیوں کہ وہ گرم پانی پر سفر نہیں کر رہے ہوتے اور اسی لیے ان کا ایندھن کم ہوتا جاتا ہے۔
اس کے باوجود یہ طوفان تیز رفتار ہواؤں اور بارش سے کافی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تاہم یہ پیشگوئی کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ سمندری طوفان کتنا طاقتور ہو گا اور زمین کے کس حصے سے ٹکرائے گا۔
ان کی سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے اور وقت سے پہلے تیاری ان کے اثرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
ایسے علاقے جو ساحل کے قریب ہوں، وہاں عمارات کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ سمندری طوفان سے ان کو زیادہ نقصان نہ ہو۔
ایسے ہی ان علاقوں میں سائرن کے ذریعے مقامی افراد کو خبردار کیا جا سکتا ہے۔ چند ممالک میں شہریوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ ضروری سامان پہلے سے ہی خرید کر رکھ لیں جس میں خوراک، پانی اور طبی امداد کا سامان شامل ہوتا ہے۔