Getty Images
خرچہ کتنا ہو گا؟ آمدن کتنی ہو گی؟ اور فرق کہاں سے پورا ہو گا؟ حکومت نے ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے جس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔
واضح رہے کہ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی معیشت اور سیاست دونوں ہی بحرانی کیفیت میں ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے جو اندرونی اور بیرونی قرضے لے رکھے ہیں، وہ واپس کرنے ہیں اور کچھ کی قسطیں ادا کرنی ہیں۔ زرمبادلہ خاص طور پر امریکی ڈالر تو پاکستان کے پاس پہلے ہی بہت کم ہیں۔
ایسے میں پاکستان کی حکومت قرض کے لیے عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کی خواہش مند ہے جہاں سے اسے لگ بھگ دو ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔ اس معاہدے سے دیگر اداروں اور ممالک سے قرض ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
اسی لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ضروری ہے جس میں تاخیر پر تاخیر ہو رہی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر چکی ہے۔ دوسری جانب اس حکومت کی جانب سے متوقع طور پر یہ آخری بجٹ بھی ہے کیوں کہ اسی سال عام انتخابات ہونا ہیں۔
عام طور پر جب حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہوں اور انھیں بجٹ بنانا پڑ جائے تو وہ عام آدمی کو خوش کرنے کے لیے ٹیکس میں کمی کرتی ہیں، ریلیف کی سکیموں کا اعلان کرتی ہیں، سبسڈیز دیتی ہیں یا موجودہ سبسڈی کو بڑھا دیتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ایسے میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے بجٹ میں یہ پانچ چیزیں اہم ہیں۔
بجٹ آئی ایم ایف اہداف کے مطابق ہے یا نہیں؟Getty Images
آئی ایم ایف سے امداد ملنے کی امید کی وجہ سے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں دو عشاریہ چار ارب ڈالر کی متوقع امداد کو شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ جاری کرنے کا معاہدہ نہیں ہو سکا۔
پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں اقتصادی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے لیے معاہدہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اور ایسا نظر آتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط مانے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
آسان الفاظ میں آئی ایم ایف کی بجٹ کے حوالے سے جو شرائط ہیں ان کا خلاصہ یہی ہے کہ حکومت بجٹ میں کوئی ایسی سبسڈی یا سکیم نہ رکھے جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یعنی اس کے لیے پیسے کسی دوسرے ضروری خرچ میں سے نکالنے پڑیں۔
علی حسنین لاہور کی لمز یونیورسٹی میں اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’پاکستان اس وقت جس مشکل مقام پر کھڑا ہے اس کا فائدہ اسی میں ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر قرضداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔‘
لاہور سے ماہرِ اقتصادیات علی حسنین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے اداروں سے تعاون کا ’ایک عام پاکستانی کو فائدہ یہ ہو گا آئندہ پانچ سال کے دوران قرض لینے اور واپس کرنے کے طریقہ کار میں اصلاحات کی جا سکیں گی۔‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بجٹ خسارے میں جو تبدیلیاں کی ہیں وہ آئی ایم ایف کے نکتہ نظر سے مثبت تبدیلیاں ہوں گی۔ جو بجٹ ہم نے آئی ایم ایف کو دکھایا، یہ نمبرز اس سے بہتر ہیں۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ ’بجٹ کے نمبرز ملنے کے بعد آئی ایم ایف ہم سے کئی بار سوالات کر چکا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ بجٹ کے حوالے سے کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو مسئلہ ثابت ہو۔‘
جہاں تک آئی ایم ایف کی جانب سے چھ ارب ڈالر کے خسارے کو پورا کرنے کا مطالبہ ہے، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نے ایم ڈی آئی آئی ایم ایف کو کہا کہ یہ اعداد و شمار فروری میں دیے جانے والے جاری کھاتوں کے خسارے کے تخمینے کے مطابق تھا لیکن اپریل میں یہ نمبر تین عشاریہ تین بلین ڈالر تھا۔ 30 جون تک ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ ڈیفیسٹ چار بلین کے لگ بھگ ہو گا۔‘
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کراچی کی ایک سرمایہ کاری کمپنی کے چیف انوسٹمنٹ آفیسر شہباز اشرف کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں اصلاحات کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے جبکہ لیکسن انوسٹمنٹ کے مصطفی پاشا کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ٹیکس کے معاملات میں مذید اقدامات کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دنیا نیوز کے پروگرام میں میزبان کامران خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم پاکستان کے بجٹ پر سوال اٹھا سکتا ہے اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اتنے اخراجات کریں گے، اتنا ٹیکس جمع ہو جائے گا، تو کیا آئی ایم ایف مانے گا کہ واقعی جتنا ٹیکس اکھٹا کرنے کا دعوی کیا گیا وہ اکھٹا ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’بجٹ میں جو اندازے لگائے گئے ہیں، ان کو مان بھی لیا جائے تو تقریبا 200 سے 250 ارب روپے کا فرق ہے جو حکومت کو پورا کرنا پڑے گا۔‘
میری تنخواہ، پینشن کتنی بڑھی ہے؟Getty Images
وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد تک کے ’ایڈہاک ریلیف الاؤنس‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ایک سے 16ویں گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ 17 سے 22 ویں گریڈ کے افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی مد میں کیا گیا ہے۔
اب یہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا مطلب کیا ہے؟ ایسا ایڈہاک ریلیف الاؤنس اس سے قبل بھی حکومتوں کی جانب سے دیا جاتا رہا ہے، تاہم بعد میں اسے ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں ضم کر دیا جاتا ہے۔
تاہم فی الحال یہ الاؤنس ایک سال کے لیے ہو گا۔
سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی 17ویں گریڈ کے ملازم کی تنخواہ 50 ہزار ہے تو اسے تنخواہ کی مد میں ساڑھے 17 ہزار روپے زیادہ دیے جائیں گے۔ تاہم اس کے ساتھ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات میں یہ اضافہ شامل نہیں کیا جائے گا، اور یہ ان کی پینشن میں بھی کاؤنٹ نہیں ہو گا۔
اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی پینشنز میں ساڑھے 17 فیصد کا فلیٹ اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ وفاقی ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن بڑھا کر 12 ہزار روپے کر دی گئی ہے جبکہ ای او بی آئی کی پنشن ساڑھے 8 ہزار روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
تنخواہ پر ٹیکس کتنا دینا پڑے گا؟Getty Images
عام طور پر بجٹ میں جو اقدام نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کو متاثر کرتا ہے وہ انکم ٹیکس کی مد میں اضافہ یا سلیبز میں تبدیلی ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ نہ تو کوئی اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ہی سلیبز میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے امیر افراد سے ’سپر ٹیکس‘ کی وصولی کے لیے تین نئے سلیب متعارف کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔
فنانس بل کےمطابق فی الوقت اس وقت 15 کروڑ روپے سے زائد آمدن کمانے والے افراد پر یکساں طور پر سپر ٹیکس لگتا ہے تاہم اب حکومت کی جانب سے اس میں مزید تین سلیبز متعارف کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔
تجویز کردہ تین نئے سلیب کے مطابق 35 کروڑ سے 40 کروڑ کمانے والے افراد پر چھ فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔
40 سے 50 کروڑ سالانہ آمدن والے افراد پر سپر ٹیکس کی شرح آٹھ فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ 50 کروڑ سے زائد سالانہ آمدن والے افراد پر دس فیصد کے حساب سے سپر ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔
24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی برآمدات پر فری لانسر کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
تنخواہ کے علاوہ کس چیز پر ٹیکس کٹے گا؟
اگر عام آدمی کی تنخواہوں پر ٹیکس نہیں بڑھایا گیا تو حکومت کہاں سے ٹیکس کاٹے گی؟
عام طور پر ایسے میں حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایسے ہی اقدامات میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ سے بیرون ملک ادائیگیوں پر ٹیکس فائلرز کے لیے ٹیکس ایک سے بڑھا کر 5 فیصد جبکہ نان فائلرز کے لیے دو سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اسی طرح نان فائلرز کے بینکوں سے کیش نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی دی گئی ہے، یعنی اگر آپ نان فائلر ہیں تو بینک سے ایک لاکھ کیشن نکلوانے پر آپ کو 600 روپے ٹیکس دینا ہو گا۔
حکومت نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ گھر سے باہر کھانا کھانے کے لیے اگر آپ ادائیگی ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے تو آپ کو 15 کے بجائے 5 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔
مہنگائی کا کیا بنے گا؟Getty Images
واضح رہے کہ وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال جی ڈی پی کی شرح 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ اوسط مہنگائی کی شرح کا اندازہ 21 فیصد لگایا گیا ہے۔
تاہم ماہرین کی رائے ہے کہ اس بات کا دارومدار بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں ریویو کی کامیابی یا ناکامی پر ہو گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہرِ اقتصادیات علی حسنین پاکستان میں معیشت کے ایک معتبر ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا کے ایک حالیہ مضمون کا حوالہ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا اس بات سے متفق ہیں کہ ’آئی ایم ایف نے پاکستان میں مہنگائی کی شرح جون 2024 تک واپس 16 فیصد تک آنے کی جو پیشگوئی کی ہے اس کی کامیابی بھی آئی ایم ایف پروگرام اور بیرونی فائننسنگ کی بحالی کے ساتھ جڑی ہے۔‘
اس لیے ان کے خیال میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ ترتیب دینا ضروری ہو گا۔ اس طرح عام پاکستان کو درمیانے اور طویل عرصے کی اصلاحات سے فائدہ ہو گا اور مہنگائی میں بتدریج کمی کرنا ممکن ہو گا۔
’پاکستان کو جون کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ تین سال کا ایک نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت ہو گی تا کہ بیرونی فائننسنگ کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی لہر کی جو مخلتف وجوہات تھیں ان میں سیلاب، قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔
تاہم عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی مہنگائی میں کمی آنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت کو بجٹ پیش کرنے میں کیا مشکلات ہیں اور عوام کے لیے اس میں کیا سرپرائز ہو سکتے ہیں؟
گروسری بل کیلکولیٹر: پاکستان میں مہنگائی نے آپ کے سودا سلف پر خرچ کو کتنا متاثر کیا؟
بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اب اپنے ملک میں پیسے کیوں کم بھیج رہے ہیں؟
مجھے اپنی ضرورت کی اشیا پر کتنا ٹیکس دینا پڑے گا؟Getty Images
ماہرِ اقتصادیات ساجد امین کہتے ہیں حکومت ٹیکسوں کی مد میں جمع ہونے والی آمدن کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ ان ڈائریکٹ یا بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہے۔ یہ وہ ٹیکس ہیں جو ان اشیا پر لگا دیا جاتا ہے جو لوگ استعمال کرتے ہیں۔
جب وہ کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس پر لاگو جنرل سیلز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی یا بالواسطہ ٹیکس کٹ کر حکومت کو چلا جاتا ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس کے دوران جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا تھا۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے یا کمی کا بھی کوئی اعلان نہیں کیا جو اس وقت 18 فیصد ہے اور اس میں ظاہر ہے کھانے پینے کی اشیا بھی آتی ہیں۔
کس طبقے اور مصنوعات کو سبسڈی ملتی ہے؟
واضح رہے کہ جب بنیادی ضرورت کی کچھ ایسی اشیا اتنی زیادہ مہنگی ہو جائیں کہ ان تک رسائی عام آدمی کے لیے مشکل ہو جائے تو حکومت اس کی مدد کرنے کے لیے ان اشیا پر سبسڈی دیتی ہے یعنی امداد دیتی ہے۔ اس سبسڈی سے حکومت اس چیز کی قیمت کا حصہ خود ادا کرتی ہے۔
حکومتیں بجٹ میں ایسی سبسڈیز کے لیے علیحدہ سے خاص طور پر رقوم رکھتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عام آدمی کو تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا ہے۔ ایسے میں وہ خاص طور پر بجٹ میں حکومت کی طرف دیکھ رہا ہو گا کہ حکومتی کتنی چیزوں پر اور کتنی سبسڈی دیتی ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بجلی ، گیس اور دیگر شعبوں پر سبسڈی کے لیے 1074ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ڈاکڑ ساجد امین کہتے ہیں کہ ’کم آمدن والے افراد یا پھر چھوٹے کسان کو سبسڈی کا فائدہ زیادہ پہنچنا چاہیے اور زیادہ کمائی کرنے والے یا بڑے کسانوں کو نہ بھی ملے تو عام آدمی کا فائدہ ہو گا۔‘