پاکستان میں چھاپے اور گرفتاریں: مطلوب افراد کے والدین یا رشتہ داروں کو کیوں پکڑا جا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 05, 2023

Getty Images

’میں نجف میں ہوں اور میرے گھر سے میرے 75 سالہ والد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار کرنے والو میرے بوڑھے باپ کو چھوڑ دو میں آکر گرفتاری دے دوں گا۔ میرے باپ نے تو 15 برس پہلے سیاست پر لعنت بھیج دی تھی۔‘

یہ ٹویٹ گزشتہ رات پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن کی جانب سے کی گئی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ریاست کے اس عمل پر سخت تنقید ہوئی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ رات گئے پولیس ان کے گھر آئی اور ان کے والد کو اٹھا کر لے گئی۔

’وہ بوڑھے ہیں اور ان کے دونوں گھٹنوں کا آپریشن ہوچکا ہے۔ وہ سیاست دان رہے ہیں اس لیے وہ مضبوط عصاب کے مالک ہیں۔ان کی سوچ ہے کہ جب ریاست اور پولیس آپ کو لینے آئے تو کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ تاہم انھوں نے گرفتاری کے لیے آنے والوں کو یہ ضرور کہا کہ آپ کو گھر کے اندر اس طرح نہیں آنا چاہیے تھا۔ آپ نے ہماری چادراور چار دیواری کا تقدس پامال کیا ہے۔‘

پولیس نے آپ کے والد کو گرفتار کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ میرے بھائی پر یہ دباؤ تھا کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کریں۔ میں تو پہلے ہی پی ٹی آئی چھوڑ چکا تھا لیکن تین ماہ پہلے میرے بھائی نے بھی انھیں خیر باد کہہ دیا تھا۔ پچھلا الیکشن پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑا تھا، لیکن اس بار وہ آزاد ہی لڑ رہے ہیں۔

’ہم نے کہا کہ جب ہمارا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ہی نہیں تو ہم پریس کانفرنس کیوں کریں۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ میرابھائی تو سارا دن حلقے میں ہی ہوتا ہے۔ اگر مسئلہ یہ پریس کانفرنس کا ہوتا تو اسے گرفتار کرتے۔ ان لوگوں نے میرے گھر سے میرے والد کو اٹھایا ہے۔ اصل مسئلہ مجھ سے ہے۔کیونکہ میں عدل و انصاف کی بات کرتا ہوں اورغلط اقدام کے خلاف آواز اٹھاتا ہوں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے پکڑنا چاہتے تھے۔‘

Getty Imagesلوگوں کو جییو فینسنگ کے ذریعے گرفتار کیا جا رہا ہے

یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ندیم افصل چن کے والد کی گرفتاری سے ایک روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے یہ اطلاع دی تھی کہ ان کے 82 سالہ والد کو پولیس نے اٹھا لیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ انھیں مختلف قسم کے صحت کے مسائل ہیں۔ تاہم کچھ گھنٹوں کی تحویل کے بعد حماد اظہر اور ندیم افضل چن کے والدین کو چھوڑ تو دیا گیا۔ تاہم اس نوعیت کی گرفتاریوں کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے کردار پر سخت تنقید کی جاری ہے۔

یاد رہے کہ نو مئی کو ملک میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد سے بڑے پیمانے پر چھاپے اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ہیں۔ جبکہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس بارے میں پولیس کا یہ موقف ہے کہ ہم ان لوگوں کی تلاش کے لیے چھاپے مار رہے ہیں جو نومئی کے واقعات کے حوالے سے مطلوب ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ چھاپوں اور گرفتاں کے اس عمل میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی ریاستی ادارے شامل ہیں، جن میں آئی ایس آئی بھی مبینہ طور پر شامل ہے۔

Getty Imagesزیادہ تر گرفتاریاں رات کو گھروں پر چھاپے مار کر کی جاتی ہیںیہ گرفتاریاں کیسے کی جا رہی ہیں؟

مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے ان کے علاقوں، رشتہ داروں اور ان کے اپنے گھروں پر چھاپوں اور ریڈز کا سلسلہ تو جاری ہے، لیکن دوسری جانب پولیس مختلف مقامات پر ناکے لگا کر چیکنگ بھی کررہی ہے۔ ایسے ہی ناکے سےگزشتہ رات ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک بھی گزرے۔ انھیں دینہ کے قریب اس وقت روکا گیا جب وہ ایک مسافر بس میں سفر کر رہے تھے۔ ان کے مطابق صرف ان کی بس کو ہی نہیں روکا گیا، وہاں چھ سات مزید کوسٹرز اور بسوں کو بھی روکا گیا تھا۔ تمام تر سواریوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جا رہے تھے۔ انسے بھی کارڈ مانگا گیا۔ کارڈ چیک کرنے کے بعد انھیں جانے دیا گیا۔انھوں نے بتایا کہ ان کی بس میں سوار 4 سے 5 لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ انھوں نے وہاں موجود پولیس اہلکار سے پوچھا کہ ان کو کیوں پکڑا ہے، تو پولیس کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں نو مئی کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔

Getty Images

ان گرفتاریوں سے متعلق ایک سوال جو بار بار اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے اس کے بھائیوں یا اہل خانہ یا ان سے متعلق افراد کو کیوں حراست میں لیا جاتا ہے؟ اس معاملے پر آئی جی پنجاب کا دعوی ہے کہ ہم کسی بے گناہ کو حراست میں نہیں لے رہے۔ اگر کوئی غلط پکڑا جائے تو ہم جانچ پڑتال کے بعد اسے رہا کر دیتے ہیں۔ پولیس پر اس الزام کے بارے میںایڈوکیٹ اسامہ احمد کا کہنا ہے کہ پولیس کے لیے یہ عام بات ہے کہ وہ کسی کیس میں دباؤ ڈالنے کے لیے ملزم کےاہل خانہ کو ہراساں کرے یا پھر انھیں اٹھا لے۔ لیکن اس بار ایک چیز تھوڑی مختلف ہے کہ اٹھائےجانے والے شخص کے گھر والوں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اسے کس تھانے میں لے جایا گیا ہے۔ اگر عدالت کے پاس جائیں تو پولیس والے مانتے ہی نہیں ہیں کہ وہ شخص ان کے پاس ہے کیونکہ پولیس ایک تھانے سےدوسرے اور پھر تیسرے تھانے اسے منتقل کر دتیی ہے۔ اس کے بعد وہ اس شخص کو سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس تمام تر عمل میں ایک شخص ناحق تین سے چار دن تک پولیس کی حراست میں رہتا ہے۔ جبکہ عام حالات میں پولیس روزنامچہ میں اٹھائے جانے والے بندے کا نام ہی نہیں ڈالتی۔

قانونی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے وکیل اسامہ احمدکا کہنا تھا کہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کس طرح لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پولیس کو اگر کوئی مطلوب شخص نہیں ملتا تو وہ اس کے والد، بھائی یا گھر کے کسی اور فرد کو اٹھا لیتی ہے۔ یا پھر ان کومسلسل ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی لوگوں کے ساتھہو رہا ہے، جو قانوں کے خلاف ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟ Getty Imagesپی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں میں دیگر خفیہ ادارے بھی شامل ہیں

ایڈوکیٹ اسامہ احمد نے کہا کہ قانون کے مطابق حراست میں لیے جانے والے شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسے کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ یہاں اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس کے خلاف کون سا مقدمہ کہاں درج ہے۔جبکہ قانون کہتا ہے کہ ہر شخص کو انصاف تک رسائی ہونی چاہیے اور وہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے پتا ہوگا کہ اس پر الزام کیا ہے۔

’حال ہی میں میرے پاس درجنوں ایسے کیسز آئے ہیں جن میں اگر ایک شخص مطلوب ہے اور چھپا ہوا ہے تو اس کے خاندان کے دیگر افراد کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ایسی نوعیت کے ایک کیس میں ایک لڑکے کے باپ، بھائیوں، تایا، چاچا اورکچھ کزنز کو اٹھا لیا گیا۔ اور کہا گیا کہ لڑکا ہمارے حوالے کر دیں تو ہم آپ کو چھوڑ دیں گے۔ جبکہ اس لڑکے کے گھر والے خود لاعلم تھے کہ وہ کہاں موجود ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ قانون کے مطابق جب آپ کسی کو حراست میں لیتے ہیں تو پولیس اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پولیس ہی نہیں مان رہی کہ بندہ اس پاس ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ’ایسا لگ رہا ہے کہ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنا چاہتی ہے تاکہ کوئی بھی نہ تو آواز اٹھا سکے اور نہ ہی کسی کو انصاف کی فراہمی ہو سکے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More