Reuters
جمعے کے دن انڈیا میں تین ٹرینوں کے ٹکرانے سے 288 افراد کی ہلاکت کے بعد اب تک اس واقعے کے بارے میں کافی سوال ایسے ہیں جن کے جواب نہیں ملے۔
یہ واقعہ، جس میں دو مسافر ٹرینیں اور ایک مال بردار ٹرین آپس میں ٹکرا گئی تھیں، ایک چھوٹے سے سٹیشن کے قریب پیش آیا تھا۔ ان میں سے ایک مسافر بردار ٹرین مال بردار گاڑی سے ٹکرائی اور اس کی بوگیاں ایک تیسری پٹری پر جا گریں جس سے ایک آنے والی ٹرین ٹکرا گئی۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ سگنل کی خرابی کی وجہ سے پیش آیا۔ سچ کیا ہے، اس کا فیصلہ تو مکمل تفتیش کے بعد ہی ہو گا۔ تاہم ایک بار پھر سے انڈیا کے ریلوے نظام سے متلعق خدشات سامنے آئے ہیں۔
انڈیا کا ریلوے نظام کافی وسیع ہے جس میں روزانہ ڈھائی کروڑ مسافر ملک بھر میں ایک لاکھ کلومیٹر طویل پٹریوں پر سفر کرتے ہیں۔ انڈیا کے وزیر ریلوے کے مطابق گذشتہ سال ہی 5200 کلومیٹر کی نئی پٹریاں بچھائی گئی ہیں اور ہر سال آٹھ ہزار کلومیٹر طویل پٹریوں کی اپ گریڈیشن کی جاتی ہے۔
حال ہی میں وزیر ریلوے اشونی ویشنو نے بتایا تھا کہ تیز رفتار ٹرینوں کے لیے پٹریوں کو تیار کیا جائے تاکہ ٹرین 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکے۔ واضح رہے کہ انڈیا کی حکومت ملک کے معاشی دارالحکومت ممبئی سے احمد آباد شہر تک ایک تیز رفتار ٹرین لائن تیار کر رہی ہے۔
تاہم سابق ریلوے بورڈ چیئرمین وویک سہائی نے مجھے بتایا کہ ان کوششوں کے باوجود ٹرینوں کا پٹریوں سے اتر جانا محکمہ ریلوے کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ’پٹری کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی، ٹرین کی کوچ میں مسئلہ ہو سکتا ہے یا ڈرائیونگ میں خرابی ہو سکتی ہے۔‘
AFP
2019-20 کی ایک رپورٹ کے مطابق پٹری سے اترنے کے واقعات ملک میں 70 فیصد حادثات کا باعث تھے۔ آگ لگنے کے واقعات اور ٹرینوں کا ٹکراؤ دیگر دو بڑی وجوہات ہیں۔
اس رپورٹ میں 33 مسافر بردار اور سات مال بردار ٹرینوں کے 40 ایسے واقعات کا جائزہ لیا گیا اور بتایا گیا کہ ان میں سے 17 پٹری میں خرابی کی وجہ سے پیش آئے۔ صرف نو واقعات ٹرین میں نقص کی وجہ سے پیش آئے جن میں انجن، کوچ یا ویگن میں نقص پایا گیا۔
لوہے کی بنی پٹریاں درجی حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے موسم گرما میں پھولتی ہیں جبکہ سردیوں میں سکڑ جاری ہیں۔ اسی لیے ان کو متواتر دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے جس کے دوران ٹریک میں کسی قسم کے نقص کو دور کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھ بھال پیدل یا ٹرالی کے ذریعے کی جاتی ہے۔
انڈیا کے محکمہ ریلوے کی سفارش ہے کہ ہر تین ماہ بعد پٹریوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ لیکن ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں انسپیکشن باقاعدگی سے نہیں کی جاتی۔
پٹری سے ٹرین کے اترنےکے واقعات کی 1100 سے زیادہ تحقیقاتی رپورٹس کے جائزہ سے معلوم ہوا کہ ایسے واقعات میں دو درجن سے زیادہ عوامل ملوث ہوتے ہیں۔
171 واقعات میں دیکھ بھال کی کمی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا جبکہ چند کیسز میں ٹریک اجازت سے زیادہ ردوبدل ہوئی۔
180 اقعات میں تکنیکی مسائل ہوئے جبکہ ایک تہائی واقعات کی وجہ کوچ یا ویگن میں نقص تھا۔
خراب ڈرائیونگ یا تیز رفتاری بھی ایک بڑی وجہ تھی۔
انڈیا میں ٹرینوں کو ایسے حادثات سے بچانے کے لیے ٹکراؤ سے بچاؤ والے آلات لگانے پر غور ہوتا رہا ہے۔ تاہم اب تک یہ نظام صرف دلی اور کلکتہ اور ممبئی اور دلی کے درمیان پٹری پر دستیاب ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا ٹرین حادثہ: ’میں مرنے والوں میں بیٹے کو ڈھونڈ رہا ہوں، وہ ملتا نہیں ہے‘
انڈیا میں صدی کا بدترین ٹرین حادثہ: مودی کا ذمہ داران کو کڑی سزائیں دینے کا وعدہ
اوڈیشہ ٹرین حادثہ: حکومت کے ’زیرو ایکسیڈنٹ‘ کے دعوے کے باوجود تین ٹرینوں میں تصادم کیسے ہوا؟
Getty Images
2010 میں مغربی بنگال میں پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعے میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ باغیوں نے کلکتہ-ممبئی مسافر بردار ٹرین کی پٹری کو نقصان پہنچایا تھا جس سے پانچ کوچیں مسافر بردار گاڑی سے ٹکرا گئیں۔ حالیہ جادثے میں ایسی کسی تخریب کاری کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ریلوے کے مطابق 2021-22 میں ایسے حادثات میں اضافہ ہوا اور گذشتہ سال کے 27 واقعات کے مقابلے میں 34 واقعات پیش آئے۔ 31 مئی کو دی ہندو اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2022-23 میں ایسے 48 حادثات ہوئے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ریلوے حکام ان حادثات میں اضافے سے پریشان ہیں اور انھوں نے سینئر حکام سے کہا ہے کہ وہ عملے کے کام کے طویل اوقات کا ازسرنو جائزہ لیں، خصوصا مشرقی ساحلی ریلوے اور جنوب مشرقی سینٹرل ریلوے سسٹم میں۔ جمعے کا واقعہ مشرقی ساحلی ریلوے کے علاقے میں پیش آیا۔