کور کمانڈر ہاؤس جلاؤ گھیراؤ: یاسمین راشد کا کیس دیگر گرفتار افراد سے مختلف کیسے بن گیا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 05, 2023

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی کور کمانڈر ہاؤس پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں بریت کے بعد جہاں ایک جانب پنجاب پولیس نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں سوشل میڈیا پر یہ سوال زیر گردش ہے کہ یاسمین راشد کا کیس پی ٹی آئی کے ان دیگر رہنماؤں اور کارکنوں سے مختلف کیسے ہے جو اسی مقدمے میں سول اور فوجی عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بریت کے اس فیصلے کو بظاہر یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت کا کور کمانڈر ہاؤس میں پیش آنے والے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ’یاسمین راشد کو کور کمانڈر لاہور کی رہائشگاہ میں جلاؤ گھیراؤ کے معاملے میں بیگناہ قرار دیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ مرکزی پنجاب کی صدر کے طور پر (ڈاکٹر یاسمین راشد) اور پاکستان تحریک انصاف کا بطور جماعت اس جلاؤ گھیراؤ میں قطعاً کوئی کردار نہیں اور تحریک انصاف کے خلاف سارا کریک ڈاؤن اسی جواز کی آڑ میں کیا گیا کہ تحریک نے پرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی، اس بیانیے کی تو اب واقعتاً دھجیاں اُڑ چکی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو پارٹی الیکشن چاہتی ہے وہ انتشار نہیں چاہتی اور جو الیکشن سے فرار چاہتے ہیں، ان سب نے مل کر یہ سازش کی تھی۔ یہ ایک ایسی چیز ہوئی ہے کہ ہمیں غدار اور فوج کا دشمن بنا دیا گیا، مگر اب سب کو سوال کرنا چاہیے کہ اس کے پیچھے کون تھا۔‘

تاہم دوسری جانب پولیس اور حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’یہ قانونی معاملہ ہے جبکہ تحریک انصاف اسے سیاسی رنگ دے رہی ہے۔‘

عدالت نے بریت کے فیصلے میں کیا کہا؟

اتوار کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں وہ وجوہات بیان کی ہیں جن کی بنیاد پر ڈاکٹر یاسمین راشد کو کور کمانڈر ہاؤس کیس میں ڈسچارج کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق ’عدالت میں یاسمین راشد کو پیش کرتے ہوئے اس کیس کے تفتیشی افسر نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاکہ فوٹوگرامیٹری، وائس میچ ٹیسٹ اور موبائل فونز کو ریکور کیا جا سکے۔ تاہم عدالت کے سامنے پیش کیے گئے اس کیس کے ریکارڈ کے مطابق نہ تو یاسمین راشد (اس کیس کی) ایف آئی آر میں نامزد ہیں اور نہ ہی انھیں ضمنی بیان کے ذریعے اس کیس کا حصہ بنایا گیا۔‘

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پولیس نے انھیں اس کیس (کور کمانڈر ہاؤس جلاؤ گھیراؤ) میں انھیں ایک شریک ملزم کے بیان کی بنیاد پر شامل کیا، جس کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘

انسداد دہشت گردی عدالت نے انھیں اس مقدمے سے ڈسچارج کرتے ہوئے لکھا کہ ’چونکہ یاسمین راشد کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں جو ظاہر کرتے ہوں کہ انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا، چنانچہ تفتیشی افسر کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے اور انھیں اس کیس سے ڈسچارج کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو ان کو فی الفور رہا کیا جائے۔‘

یاسمین راشد کو رہا کیوں نہیں کیا گیا؟

عدالت کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد کے بریت کے فیصلے کے بعد وہ اب بھی پنجاب پولیس کی حراست میں ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر یاسمین لاہور ہی میں درج دو مقدمات میں نامزد ہیں اور شادمان تھانے پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ سے متعلق ایک اور کیس میں وہ پہلے ہی جوڈیشل ریمانڈ پر تھیں۔

پیر کے روز ڈاکٹر یاسمین راشد نے انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست ضمانت بعد از گرفتاری دائر کی ہے جس پر عدالت نے فریقین کے وکلا کو دلائل کے لیے نو جون کو طلب کیا ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد پر تھانہ شادمان جلاو گھراؤ کرنے کا مقدمہ درج ہے جس پر وہ فی الحال ریمانڈ پر ہیں۔

کور کمانڈر ہاؤس: یاسمین راشد کا کیس دیگر افراد کے کیس سے مختلف کیسے بن گیا؟

یاد رہے کہ نو مئی کو کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعے کے بعد پولیس نے اس کیس میں ملوث درجنوں مرد و خواتین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ گرفتار افراد میں سے چند کے کیسز دہشت گردی کی عدالتوں جبکہ ایک سابق ایم پی اے سمیت 16 افراد کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جا رہے ہیں۔

جیل میں موجود بیشتر افراد کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل ہو چکا ہے، تاہم ڈاکٹر یاسمن راشد کے خلاف نہ تو کوئی چارج شیٹ عدالت میں پیش کی گئی اور نہ ہے ان کو شناخت پریڈ کاحصہ بنایا گیا کیونکہ وہ اس مقدمے کی درج ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں تھیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عالیہ حمزہ، خدیجہ شاہ، صنم جاوید اور دیگر گرفتار خواتین پر ایسی ہی نوعیت کے الزامات ہیں تو ڈاکٹر یاسمن راشد کا کیس ان سے مختلف کیسے ہے؟

اگر اس کیس میں درج ایف آئی آر کو دیکھا جائے تو اس میں لکھا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال (مبینہ طور پر) اس ہجوم کی قیادت کر رہے تھے جس نے کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کیا جبکہ (ایف آئی آر کے مطابق) موقع سے گرفتار ہونے والے افراد نے دوران تفتیش بتایا کہ عمران خان، شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، فرخ حبیب، جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، زبیر نیازی، اسد زمان، مراد سعید اور علی امین گنڈاپور نے انھیں حکم دیا تھا کہ عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانا ہے۔

رہنماؤں کے علاوہ اس ایف آئی آر میں 1400 سے 1500 نامعلوم پی ٹی آئی کارکنان کی بات کی گئی ہے جن کے بارے میں پولیس نے آگاہ کیا کہ انھیں سامنے آنے پر شناخت کیا جا سکتا ہے۔

اس کیس میں ہی ایک ملزمہ کے وکیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت نے دستیاب شواہد پر ڈاکٹر یاسمین کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ (ڈاکٹر یاسمین راشد کے کیس میں) تفتیش کو فرانزک بنیادوں پر آگے بڑھا رہی ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کے عدالتی نظام کی کارروائی کے دوران عمومی طور پر فرانزک ثبوتوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے، اور خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جب فرانزک ثبوت مکمل نہ ہوں اور ان پر کام جاری ہو۔

پی ٹی آئی کی دیگر خواتین کارکن جو اس کیس میں پولیس کی حراست میں ہیں، اس پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابتدا میں یہ ’نامعلوم ملزمان‘ کی کیٹگری میں تھیں لیکن پھر شناخت پریڈ کے دوران انھیں شناخت کیا گیا اور باقاعدہ اس کیس میں نامزد کیا گیا تاہم ڈاکٹر یاسمین کے کیس میں شناخت پریڈ کا عمل نہیں ہوا کیونکہ رہنما ایف آئی آر میں نامزد تھے نہ کہ نامعلوم۔

انھوں نے کہا کہ یہ وہ وجوہات تھیں جو ڈاکٹر یاسمین کی بریت کا باعث بنی ہیں۔

پولیس کا کیا کہنا ہے؟Getty Images

یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے یاسمین راشد کی بریت کا فیصلہ سامنے آنے کے فوراً بعد آئی جی پنجاب نے دیگر سینیئر پولیس افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بریت کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا کیونکہ یاسمین راشد کے خلاف ’ناقابل تردید‘ ثبوت موجود ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے کور کمانڈر ہاؤس پر جلاؤ گھیراؤ کے دوران بنائی گئی مختلف تصاویر اور ویڈیوز میڈیا نمائندگان کو دکھاتے ہوئے استفسار کیا کہ ’اس سب مواد کو دیکھ کر بھی کیا کوئی اب یہ کہے گا، کہ یاسمین راشد اس میں ملوث نہیں تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں اور ہم عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ اس کیس سے متعلق تمام ترثبوتوں کو ہم ہائیکورٹ میں پیش بھی کریں گے۔ ‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ یاسمین راشد کی کور کمانڈر ہاؤس کے پاس سے41 کالز ٹریس ہوئی ہیں اور پولیس اس معاملے پر فرانزک سائنس کا سہارا لے رہی ہے۔

یاد رہے کہ اس پورے کیس میں پولیس کے پراسیکیوشن افسران بھی تنقید کی زد میں ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرح پولیس کی جانب ایف آئی آر میں نامزد کیوں نہیں کیا گیا۔

اس بارے میں بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’نگراں حکومت‘ نو مئی کے واقعات کے بعد درج ہونے والے کیسز میں پراسیکیوشن سے ناخوش ہیں اور ا س سلسلے میں ایک محکمہ پراسیکیوشن کے اعلی افسر کو ان کے عہدے سے ہٹایا بھی گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More