نجم سیٹھی کا انٹرویو: ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی نہیں حکومت کرے گی‘

بی بی سی اردو  |  May 21, 2023

AFP

’اگر انڈیا ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آتا تو ہم بھی ورلڈ کپ کے لیے انڈیا نہیں جائیں گے۔‘

ایک ایسے وقت میں جب رواں سال ہونے والے ایشیا کپ سے متعلق پہلے ہی ایک غیر یقینی صورتحال تھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین نجم سیٹھی کے انڈین میڈیا کو دیے اس حالیہ بیان نے سرحد پار سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا ہے۔

انڈیا میں جہاں اُن کے ورلڈکپ میں شرکت سے متعلق بیان پر تنقید ہو رہی ہے وہیں پاکستان میں بھی ان کے اس بیان پر ملا جُلا ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف کرکٹ شائقین نجم سیٹھی کو سراہتے نظر آئے کہ ان کا انڈیا نہ جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے جبکہ دوسری جانب سابق پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ بچوں کو کہنا چاہیے تھا کہ وہ جا کر کھیلیں اور ورلڈ کپ جیت کر آئیں۔‘

پی سی بی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایسا سخت موقف کیوں اپنایا، ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے متعلق ان کی ٹیم کو لے کر کیا توقعات ہیں۔ ان سب سوالوں کے لیے بی بی سی نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی کا نہیں اور نہ ہی یہ جے شاہ یا میرا ہے۔ یہ فیصلہ اُس جانب انڈین حکومت کا ہے اور اِدھر پاکستانی حکومت کا ہے۔‘

نجم سیٹھی کے مطابق سکیورٹی کے خدشات ہی وہ واحد وجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ’اگر پاکستانی حکومت نے کہا کہ آپ جائیں ورلڈ کپ کھیلنے تو ہم ضرور جائیں گے۔‘

اس بیان کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال اکتوبر میں ہی پاکستان کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے باعث ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئیں گے۔

ایشیا کپ: پاکستان کا پیش کردہ ’ہائبرڈ ماڈل‘ کیا ہے؟Getty Imagesفائل فوٹو

پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی اور کرکٹ بورڈ نے اس پر خوب احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ جب اس سب سے بات نہیں بنی تو میڈیا میں چند ماہ قبل ’ہائبرڈ ماڈل‘ کا شور مچنے لگا۔

نجم سیٹھی نے میڈیا انٹرویوز میں اس کی وضاحت کی اور بتایا کہ یہ ماڈل اس تمام مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

اس ماڈل کے تحت ٹورنامنٹ کے شروع کے چار یا پانچ میچیز پاکستان میں کھیلے جائیں گے جس کے بعد تمام ٹیمیں اپنا بوریا بسترا گول کر کے ایک نیوٹرل وینیو پر چلی جائیں گی اور ٹورنامنٹ کے بقیہ میچز وہاں منعقد ہوں گے۔

نجم سیٹھی کے مطابق انڈیا کواس صورت میں پاکستان کا دورہ نہیں کرنا پڑے گا اور بطور میزبان پاکستان بھی ایشیا کپ کے چند میچز کی میزبانی کرنے کا اہل ہوجائے گا۔

پی سی بی چیئرمین نے گذشتہ کئی دنوں میں درجنوں انٹرویوز دیے ہیں جن میں سے زیادہ تر انڈین میڈیا کو دیے گئے۔ اس حوالے سے میں نے نجم سیٹھی سے پوچھا کہ اتنے سارے انٹرویوز کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ جن سے آپ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں وہاں سے آپ کو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا؟

نجم سیٹھی کا اس متعلق کہنا تھا کہ ’دس روز قبل میری بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ کی درخواست پرایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی)کے نائب صدر پنکج کِھمجی سے ملاقات ہوئی ہے۔‘

واضح رہے کہ نجم سیٹھی دبئی میں ہونے والی اس ملاقات کا تذکرہ تو مختلف انٹرویوز میں کر چکے ہیں لیکن ملاقاتی کا نام پہلے نہیں ظاہر کیا تھا۔

نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کے ساتھ تفصیل سے ہائبرڈ ماڈل کی تفصیلات شیئر کی گئی تھیں جو انھیں پسند بھی آئیں۔ نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کی طرف سے مثبت ردعمل آیا ہے اور انھوں نے کہا کہ وہ جے شاہ کے ساتھ جا کر اس پر تبادلہ خیال کریں گے۔

’انھوں نے کہا کہ وہ 15 مئی کو رابطہ کریں گے۔ میں ابھی انتظار کر رہا ہوں کہ انھوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔‘

ممکنہ نیوٹرل وینیوز؟ Getty Imagesگالے سٹیڈیم

نجم سیٹھی کے مطابق ہائبرڈ ماڈل گذشتہ ماہ ایشین کرکٹ کونسل کی میٹنگ میں پیش کیا گیا تھا اور ایشیائی ممالک کو اصولی طور پر اس پر اعتراض نہیں تھا بلکہ انھیں اعتراضات اس بات پر تھے کہ یہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ آنا جانا کتنا زیادہ ہوگا؟ پروڈکشن یونٹس کتنے استعمال ہوں گے؟

جب پی سی بی چیئرمین سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ اعتراضات دور کردیے گئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ کے بعد ایک جامع پلان تمام رکن ممالک کو دیا گیا تاکہ یہ اعتراضات دور کیے جاسکیں۔

ایشیا کپ کے لیے ممکنہ نیوٹرل وینیوز کے ناموں میں سری لنکا، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ لندن کا بھی نام میڈیا رپورٹس کی زینت بنا ہوا ہے۔

اس حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’مجھے احساس ہے کہ سری لنکا کی جانب سے اے سی سی پردباؤ ہے کہ نیوٹرل جگہ کے لیے سری لنکا کا انتخاب کیا جائے۔‘

متحدہ عرب امارات کے حوالے سے نجم سیٹھی کے مطابق سری لنکا کو اعتراضات تھے کہ ستمبرمیں وہاں بہت گرمی ہو گی اور کھلاڑیوں کے لیے ایک روزہ میچز کھیلنا کافی مشکل ہوگا۔

نجم سیٹھی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’اسی موسم میں یہاں پہلے بھی ایشیا کپ اور آئی پی ایل منعقد کروائے جا چکے ہیں اور یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

پی سی بی چیئرمین کے مطابق کون سے ملک میں میچز کا انعقاد کرایا جاتا ہے؟ اس فیصلے میں سب سے اہم ’گیٹ منی‘(میچ کی ٹکٹوں کی فروخت سے آنے والی رقم ) ہے اور یہ رقم ہمیشہ میزبان ملک کو ملتی ہیں جو اس مرتبہ پاکستان ہے۔

سری لنکا میں اگر میچیز کھیلے جاتے ہیں تو گیٹ منی کافی کم ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ دبئی اور لندن سے ’گیٹ منی‘ کافی بڑی تعداد میں اکٹھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر متفقہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ میچیز سری لنکا میں ہی ہونے ہیں اور ’ہمیں وہ اس کا معاوضہ دے دیتے ہیں تو اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔‘

پاکستان کی جانب سے مختلف آپشنز کے سامنے آنے پر کئی کرکٹ کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی انٹرنیشنل سٹیج پر پوزیشن کمزور ہے اور شاید اس لیے وہ اور کسی بھی سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ہماری پوزیشن کمزور نہیں ہے انڈیا کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ آپ اس کو اس نظر سے دیکھیں کیونکہ اگر ہمکمزور ہیں تو اس کا مطلب تمام آئی سی سی ممبرز کی پوزیشن کمزور ہے اور صرف ایک انڈیا ہے جو سب سے مضبوط ہے۔‘

’پاکستان میں اب کوئی سکیورٹی ایشو نہیں‘Getty Images

پی سی بی نے یہ واضح کردیا ہے کہ رواں سال انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شرکت حکومتی اجازت سے مشروط ہے۔

انڈیا نے آخری مرتبہ پاکستان کا دورہ 2008 میں کیا تھا جس کے بعد سے انڈین کرکٹ بورڈ نے تواتر سے سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔

اس کے برعکس پاکستان نے 2016 میں انڈیا کا دورہ کیا اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت کی۔

پاکستان کے لیے اس دورے نے کیا سکیورٹی خدشات کی دلیل کو کمزور نہیں کردیا؟ اس سوال کے جواب میں نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’2016 تک ہم خود نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ٹیم پاکستان آئے کیونکہ ہماری سکیورٹی کے حالات ٹھیک نہیں تھے‘

ان کے مطابق اب سکیورٹی کا کوئی اِیشو نہیں۔ ’اب ساری دنیا کی ٹیموں نے پاکستان آ کر کھیل لیا ہے۔ 2016 اور 2023 میں بڑا فرق ہے۔‘

نئی سیلیکشن کمیٹی اور پاکستان کی ورلڈ کپ کی تیاریGetty Images

پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سےحال ہی میں گرانٹ بریڈبرن کو بطور ہیڈ کوچ تعینات کرنے کا اعلان کیا گیا جو مکی آرتھر کی ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔

نجم سیٹھی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر کی کاؤنٹی کلب سومرسیٹ کے ساتھ مصروفیات کا اثر پاکستان کی کارکردگی پر پڑے گا۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ مکی آرتھر پاکستانی ٹیم سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور وہ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور وہ ایشیا کپ میں انڈیا کے میچز سے قبل بھی ڈریسنگ روم میں موجود ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مکی آرتھر کی ہر سانس میں پاکستان کرکٹ رچی بسی ہے۔‘

پاکستان کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر نئی سیلیکشن کمیٹی کا اعلان تو نہیں کیا مگر بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں چیئرمین پی سی بی نے کمیٹی کے ارکان کے نام بتا دیے۔ نجم سیٹھی کے مطابق نئی سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی ہارون رشید کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں مکی آرتھر، گرانٹ بریڈبرن اور حسن چیمہ شامل ہوں گے۔

حسن چیمہ سے متعلق بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ان کی شمولیت یہ یقینی بنائے گی کہ ’سیلیکشن کے دوران ڈیٹا پر بھی انحصار کیا جائے اور حسن اس فیلڈ کے ماہر ہیں۔‘

پاکستان نے 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد صرف 27 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جبکہ باقی فل ممبرز نے اس کے برعکس اس سے کہیں زیادہ میچز کھیلے ہیں۔

کم میچ پریکٹیس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو میں بہت پُر امید ہوں کہ ایشیا کپ ضرور ہوگا لیکن اگر وہکسی بھی وجہ سے نہیںہوتا تو بورڈ نے اس کی جگہ ایک سہ فریقی سیریزکرانے کا پلان بنایا ہے جو ایشیا کپ کی مقرر کردہ تاریخوں پر منعقد ہوگی۔‘

انڈیا کو آمدن کا 38 فیصد تو پاکستان کو چھ فیصد کیوں؟

میڈیا میں رپورٹ ہونے والے آئی سی سی کی آمدن کی تقسیم کے ماڈل کی تفصیلات کرک انفو کو موصول ہوئیں۔ کرکٹنگ ویب سائٹ کے مطابق یہ ماڈل ابھی حتمی نہیں اور اس ماڈل سے متعلق باضابطہ فیصلہ جولائی میں ہونے والے آئی سی سی اجلاس میں کیا جائے گا۔

کرک انفو کے مطابق مجوزہ ماڈل میں، بی سی سی آئی کو 600 ملین امریکی ڈالر کی متوقع سالانہ آمدنی کا 38.5 فیصد ملنے کی توقع ہے، اس کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ کو 6.89 فیصد، کرکٹ آسٹریلیا کو 6.25 فیصد جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈکو صرف 5.75 فیصد حصہ ملے گا۔

اس مجوزہ ماڈل پر تبصرہ کرتے ہوئے پی سی بی چیئرمین کا کہنا تھا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انڈیا زیادہ آمدن کا حقدار ہے لیکن میٹنگ میں اس بات پر ضرور بحث ہوگی کہ انڈیا کو 38 فیصد اور پاکستان کو صرف پانچ یا چھ فیصد کیوں۔

واضح رہے کہ اس ماڈل پر اٹھائے گئے اعتراضات باضابطہ طور پر صرف پاکستان کی جانب سے سامنے آئے ہیں جس پر نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ یہ ہمار حق ہے کہ اس ماڈل میں مزید شفافیت آئے اور ہمیں بتایا جائے کہ یہ اعداد و شمار پر آئی سی سی کیسے پہنچا۔ ہمارے ساتھ کچھ اعداد و شمار شیئر کیے گئے ہیں لیکن مکمل طور پر تفصیلات تک ہمیں رسائی حاصل نہیں ہوئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More