سوشل میڈیا پر تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا مسئلہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک طویل عرصے سے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے، لیکن چونکہ اب ٹیکنالوجی تیزی سے ویڈیوز کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، تو کیا حکام کو اس میں مداخلت کرنی چاہیے؟
کرسٹل برجر کا اصرار ہے کہ جب وہ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک پر تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرتی ہیں تو وہ اپنے خدو خال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا رہی ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں واقعی اپنے آپ کو صرف ڈیجیٹل طور پر بہترین میک اپ اور لائٹنگ دے رہی ہوں۔‘
امریکی ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والی نوجوان ماں برجر فیس ٹیون نامی ایپ کو سبسکرائب کرنے کے لیے ادائیگی کرتی ہیں، جسے دنیا بھر میں دو کروڑ سے زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔
ایپ اپنے صارفین کو چہرے میں تبدیلیاں کرنے کی اجازت دیتی ہے، جیسے جھریوں کو ہموار کرنا، یا پھر متبادل طور پر انھیں مکمل آزادی دینا کہ وہ اپنے چہرے کو پورا تبدیل کر لیں۔ مثال کے طور پر، وہ اپنا چہرہ تنگ کر سکتے ہیں، اپنی آنکھوں کی شکل اور سائز تبدیل کر سکتے ہیں، یا ڈیجیٹلی اپنی ناک کو مختلف بنا سکتے ہیں۔
فیس ٹیون دو سال پہلے تک صرف تصاویر پر کام کرتی تھی لیکن بعد میں اس نے مختصر سیلفی ویڈیوز کے لیے ایک ورژن لانچ کیا جس نے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔
دریں اثنا، پرفیکٹ 365 ایک اور مقبول ایپ ہے جو صارفین کو اپنی سوشل میڈیا تصاویر میں تبدیلی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سال کے آخر میں اس کا ویڈیو ورژن لانچ ہونے والا ہے۔
فیس ٹیون اسرائیلی کمپنی لائٹرکس کی ملکیت ہے اور دو سال قبل اس کمپنی کی قیمت 1.8 ارب ڈالر بتائی گئی تھی۔
لائٹرکس کے بانی زیو فاربمین کا کہنا ہے کہ اصل بات ایپ کو آسان طریقے سے کام کرنے والی ایپ بنانا ہے۔ ’آپ لوگوں کو 20 فیصد پیشہ ورانہ پیچیدہ سافٹ ویئر کے ساتھ۔ 80 فیصد طاقت دینا چاہتے ہیں،یہی وہ گیم ہے جسے ہم کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیئے
ناروے میں سوشل میڈیا پر فلٹرز کا استعمال کرنے والوں کو اس کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا
سوشل میڈیا پر ’بیوٹی فلٹرز‘ کہیں آپ کو احساس کمتری میں مبتلا تو نہیں کر رہے
#filterdrop مہم: انسٹاگرام کے چہرہ تبدیل کرنے والے فوٹو فلٹرز پر ماڈلز کی تنقید
لیکن طویل عرصے سے یہ دلیل دی جاتی رہی ہے کہ اس طرح کے ٹولز غیر صحت بخش ہوتے ہیں، کیونکہ وہ خوبصورتی کے غیر حقیقی نظریے کو فروغ دیتے ہیں جو خطرناک ہو سکتا ہے، خاص طور پر چھوٹے بچوں اور نوجوان بالغوں کے لیے۔ مثال کے طور پر، سکن کیئر برانڈ ’ڈوو‘ کے 2021 کے سروے کے مطابق، 80 فیصد نوعمر لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے 13 سال کی عمر تک آن لائن تصاویر میں اپنی شکل بدلی تھی۔
اگرچہ کوئی بھی ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہا، لیکن سوشل میڈیا پر اشتہار دینے والوں اور انفلواینسرز کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ تسلیم کریں کہ انھوں نے اپنی جسمانی ساخت کو تبدیل کیا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اکثر غیر رسمی طریقے سے مصنوعات کی تشہیر کرنے کے لیے ادائیگی کی جاتی ہے۔
ناروے نے 2021 میں ایک قانون متعارف کرایا تھا جس کے تحت ان دو سوشل میڈیا گروپس کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ آیا کسی تصویر کو دوبارہ ٹچ کیا گیا ہے یا نہیں۔ فرانس اب ایک اور ہاتھ آگے بڑھ رہا ہے، اور اسی قسم کے مطالبے کے ساتھ ساتھ وہ کہہ رہا ہے کہ تصاویر کے ساتھ ساتھ ویڈیوز کے متعلق بھی بتائیں کہ انھیں ٹچ کیا گیا ہے کہ نہیں۔
دریں اثنا، برطانیہ بھی اب اس مسئلے کو دیکھ رہا ہے، کیونکہ حکومت کا آن لائن سیفٹی بل پارلیمنٹ میں پہنچ چکا ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا قانون صرف سوشل میڈیا پر اشتہارات یا پھر انفلواینسرز کو بھی ٹارگٹ کرے گا۔
سائنس، انوویشن اور ٹیکنالوجی کے نئے ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’حکومت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مواد کو ڈیجیٹل طور پر چھیڑنے سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اور (حکومت) اس مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔‘
سان فرانسسکو میں مقیم پرفیکٹ 365 کے چیف ایگزیکٹو شان ماؤ لوگوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان کی ایپ کو ’محفوظ اور اخلاقی طریقے سے‘ استعمال کریں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ایپ کا استعمال کریں اور دوسروں کو دھوکہ دینے یا خود کو غلط طریقے سے پیش کرنے کے لیے ایپ کا استعمال نہ کریں۔‘
ماہر نفسیات سٹورٹ ڈف کہتے ہیں کہ کچھ سوشل میڈیا انفلیواینسرز ہمیشہ اپنی آن لائن ظاہری شکل کو بہتر بنانے کے لیے ٹرکس استعمال کرنے کے خیال کی طرف کھچیں گے، کیونکہ اچھا لگنا بکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’جب دوسروں سے مصنوعات اور خدمات خریدنے کی بات آتی ہے تو جسمانی کشش ہمارے فیصلوں پر بہت مضبوط لیکن اکثر لاشعوری اثر رکھتی ہے۔‘
"جب پوچھا جاتا ہے کہ سب سے اہم چیز کیا ہے، تو ہم شعوری طور پر جسمانی ظاہری شکل کی اہمیت کو کم کرتے ہیں اور ذہانت، اقدار اور شخصیت جیسی خوبیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، پھر بھی نفسیاتی تحقیق مستقل طور پر کسی شخص کی کشش اور اس کی ہمیں وہ چیز بیچنے کی صلاحیت کے درمیان مضبوط مثبت تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔‘
ایک سوشل میڈیا انفلواینسر کے، جو برانڈن بی کے نام سے جانے جاتے ہیں، یوٹیوب پر 56 لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تصویر اور ویڈیو میں چھیڑ چھاڑ کرنے والی ایپس کو مثبت طریقے سے دیکھا جانا چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے خوشی ہے کہ ایسی ایپس موجود ہیں، کیونکہ میرے خیال میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو خود کو سوشل میڈیا پر پیش کرنے میں اتنے ’باڈی پوزیٹیو‘ نہیں ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ محسوس کریں کہ انھیں ساتھ لے کر چلا نہیں جا رہا۔ یہ ٹولز (ان کے) سوشل میڈیا پر آنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔‘
تاہم، اونٹاریو، کینیڈا میں ساؤتھ نیاگرا ہسپتال کی ایمرجنسی فزیشن ڈاکٹر شیرا براؤن کہتی ہیں کہ جسم کی ساخت کے بارے میں مسخ شدہ تاثرات سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر دکھائی دیے جاتے نظر آتے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے محکموں میں ذہنی صحت پر سوشل میڈیا کے فوری نتائج دیکھتے ہیں، جیسے بے چینی، خودکشی کے خیالات اور ڈپریشن۔‘