ویلو ناچیار: وہ رانی جنھوں نے حیدر علی کی مدد سے سب سے پہلے انگریزوں کو شکست دی

بی بی سی اردو  |  May 15, 2023

حیدر علی سے ویلو ناچیار کی ملاقات اٹھارویں صدی کے ڈِنڈیگل میں ہوئی تھی۔

تالوں اور بریانی کے لیے مشہور، موجودہ انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کا یہ شہر، ڈِنڈیگل، تب جنوبی ہندوستانی ریاست میسور کا حصہ تھا۔

حیدر علی، شمال میں کرِشن دریا، مشرق میں مشرقی گھاٹوں اور مغرب میں بحیرہ عرب تک پھیلی اس ریاست کے حکمران تھے جس کا زیادہ حصہ اب تمل ناڈو اور کیرالا کی ہم سایہ ریاست کرناٹک میں ہے۔

ویلو ناچیار 1773 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں اپنے شوہر متھو ودوگناتھا پیریاوودایا تھیور اور ان کی ریاست سیوا گنگائی کو کھو کر، اپنی کم سِن بیٹی ویلاچی کے ساتھ پناہ اور مدد کی تلاش میں تھیں۔

حیدر علی اور ویلو کی ملاقات باہمی احترام کے ایک ایسے دور کی ابتدا تھی جسے اگلی نسل میں ٹیپوسلطان نے بھی نبھایا۔

ویلو کو حیدر علی سے مدد ملی تو انھوں نےایسا اعزاز سمیٹاجو ہمیشہ کے لیے یادگار ٹھہرا۔ یہ اعزاز کیا تھا، اس سوال کو یہیں چھوڑتے ہوئے کیوں نہ پہلے کچھ تفصیل سے یہ جان لیا جائے کہ ویلو ناچیار کون تھیں اور ان کے ساتھ جو بیتی تو کیسے بیتی؟

لائق شہزادی سے ملکہ بننے کا سفر

ویلو کے والدین رامند بادشاہت (اب یہ علاقہ تمل ناڈو میں ہے) کے حکمران تھے۔

سنہ 1730 میں پیدائش کے بعد، اپنی اس اکلوتی اولاد کوگھڑ سواری، تیر اندازی، اور مارشل آرٹس جیسے والیری (درانتی پھینکنا) اور سلمبم (چھڑی سے لڑنا) کی تربیت دی۔

وہ انگریزی، فرانسیسی اور اردو سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ 16 سال کی عمرمیں ویلو کی شادی سیوا گنگائی کے شہزادے سے ہوئی۔

اس جوڑے نے 1750 سے 1772 یعنی دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک سیوا گنگائی پر حکومت کی۔

یہ بھی پڑھیے

شہنشاہ اکبر کی ’آیا‘ ماہم انگہ: مغل سلطنت کی طاقتور ترین خاتون جن کے زوال کا باعث ان کا بیٹا بنا

مغل سلطنت کی طاقتور خواتین جن کو غیر معمولی اختیارات حاصل تھے

اورنگزیب کی ہیرا بائی سے محبت کی داستان

شوہر کا قتلاورپناہ اورمدد کی تلاش

سنہ 1772 ہی وہ سال تھا جب نواب آف آرکوٹ نے انگریزوں کے ساتھ مل کر سیوا گنگائی پر حملہ کیا اور ویلو ناچیار کے شوہر کو 'کلیار کوئل جنگ' میںقتل کر دیا۔

حملے کے وقت رانی ویلو اور ان کی بیٹی قریبی مندر میں تھیں، سو بچ گئیں۔ تھیور کے ساتھ لڑنے والے وفادار مرتھادو بھائی وہاںپہنچ گئے اور انھیں نکال کر لے گئے۔ ویلو کو اپنے شوہر کی لاش بھی نہ مل سکی۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی کی فوجی تاریخ کے ماہر شبندرا جی لکھتے ہیں کہ رانی کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے لیے، ان کی وفادار محافظ اڈیال اور دیگر خواتین جنگجو کولنگڈی میں پیچھے رہ گئی تھیں۔

نواب کے آدمیوں نے انھیں پکڑ لیا۔ تشدد کے باوجود اڈیال نے ملکہ کے ٹھکانے کو ظاہر نہ کیا تو ان کا سر کاٹ دیا گیا۔

جنگلوں میں اور گاؤں گاؤں بے بسی سے گھومتی ، رانی ویلو نے محسوس کیا کہ انھیں سیوا گنگائی کو انگریزوں سے واپس لینے کے لیے اتحادیوں اور مدد کی ضرورت ہے۔

مرتھادو بھائیوں نے وفاداروں کا ایک لشکر تیار کرنا شروعکردیا تھالیکن یہ انگریزوں کے مقابلے کے لیے ناکافی تھا۔

میسور کے سلطانحیدر علی کا نہ انگریزوں سے اچھا تعلق تھا اور نہ ہی نواب آف آرکوٹ سے۔ اسی لیے رانی ویلو نے ان کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور میسور کا خطرناک سفر کیا۔

ویلو ناچیار کی حیدر علی سے ملاقات سیواگنگائی سے لگ بھگ سو کلومیٹر دور ڈِنڈیگل میں ہوئی۔

ویلو ناچیار نےحیدر علی سے اردو زبان میں بات کی اور انھیں اپنی ہمت اور استقامت سے بھیبہت متاثر کیا۔

انھوں نےویلو کو ڈِنڈیگل قلعے میں رہنے کی دعوت دی جہاں ان کی عزت رانیکی طرح کی جاتی تھی۔ حیدر علی نے دوستی کی علامت کے طور پر ویلو کے لیے اپنے محل کے اندر ایک مندر بھی بنوایا۔

انگریزوں پر فتح

مورخ آر مانیکندن کے مطابق ’حیدر علی کے ساتھ ویلو ناچیار کا اتحاد باہمی ضرورت سے پیدا ہوا تھا۔ ویلو کو اپنی بادشاہت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے فوجی مدد کی ضرورت تھی، جبکہ حیدر علی نے اسے خطے میں برطانوی نوآبادیاتی طاقت کو چیلنج کرنے کا موقع جانا۔

حیدر علی نے انگریزوں کے خلاف ویلوکی لڑائی میں اتحادی بننے کا عہدکیا۔ انھوں نے ویلو کو ماہانہ 400 پاؤنڈز اور ہتھیاریوں کے ساتھ ساتھ سید کرکی کی سربراہی میں 5000 پیادہ اور گھڑ سوار دستوں کی امداد بھی فراہم کی۔

شبندرا جی لکھتے ہیں: اس فوج کے ساتھ، رانی ویلو نے سیوا گنگائی کے مختلف علاقوں کو فتح کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ 1781 میں تھیروچھیراپالی قلعے تک پہنچ گئیں جو انگریزوں کے قبضے میں تھا۔

حیدر علی کی وجہ سے انگریزوں تک کمک تو نہیں پہنچ سکتی تھی لیکن رانی ویلو کے پاس قلعہ میں داخلے کا سامان نہیں تھا۔

اُڈیال کی قربانی کی یاد میں، رانی ویلو نے ان کے نام پر خواتین کی ایک فوج تشکیل دے رکھی تھی۔ اسی فوج کی کمانڈر انچیف کوئیلی نے قلعے کے دروازے کھولنے کا ایک منصوبہ پیش کیا۔

'وجے دشمی کا تیوہار بس چند دن دور ہے۔ قریبی دیہات کی تمام خواتین مندر جائیں گی۔ ہم ان میں گھل مل کر اندر جا سکتے ہیں۔ میں اپنی اڈیال فوج کی لڑکیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کی قیادت کروں گی اور چھپے ہوئے ہتھیاروں کے ساتھ قلعہ میں گھس جاؤں گی۔ ہم آپ کے لیے اندر سے دروازے کھول دیں گے، میریرانی'۔

رانی ویلو کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

'آپ ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرلیتی ہیں، کویلی۔ آپ نے اُڈیال کا نام ہمیشہ بلند کیا ہے۔'

وجے دشمی کا دن آیا تو آس پاس کے دیہاتوں سے خواتین کے ساتھ کویلی اور ان کی ساتھی بھی اندر داخل ہو کرمرکزی مندر میں جمع ہوگئیں۔

رسمیں شروع ہوئیں اور مقررہ وقت پر، کویلی نے آواز دی: اٹھو میری بہنو!

اُڈیال عورتیں فوراً اٹھیں اور اپنی تلواریں نکال کر پہرے پر کھڑے انگریز سپاہیوں پر قابو پاتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھیں۔

کویلی نے مندر کے بالکل پیچھے گولا بارود کے ڈپو کی جانب اشارہ کیا۔ ساتھ ہی پوجا کے لیے گھی سے بھری ہوئی ایک دیگچی اٹھائی اور خودپر گھی انڈیل لیا۔

دروازے پر رکھی مشعل اٹھا کر خود کو آگ لگائی اور سپاہیوں کو پچھاڑتے ہوئے گولا بارود کے ڈپو میں داخل ہوگئیں۔

اچانک قلعے سے ایک زبردست دھماکے کی آواز سنائی دی۔ چند منٹوں میں، قلعے کے دروازے کھل گئے اور دو اُڈیال خواتین گھوڑے پر سوار وہاں پہنچ گئیں جہاں رانی ویلو کی فوج چھپی ہوئی تھی۔

'رانی! دروازے کھلے ہیں۔ انگریزوں کے گولا بارود کے ڈپو کو اڑا دیا گیا ہے۔ یہ حملہ کرنے کا صحیح وقت ہے،' ایک خاتون نے ویلو کو بتایا۔

اچھا، میری بیٹی! کویلی کہاں ہے؟'

اُڈیال خواتین نے آنکھیں نیچے کرلیں۔

'ہماری کمانڈر نے انگریزوں کے گولا بارود کو تباہ کرنے کے لیےخود کو قربان کر دیا۔'

یہخبر سن کر رانی ویلو اپنے گھوڑے پر بیٹھی کی بیٹھی رہ گئیں۔ مگر پھر سید کرکی نے انسے کہا: ’ہم ان کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دے سکتے۔ اب حملہ کرنے کا وقت ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘

رانی ویلو نے اپنا حوصلہ بحال کیا اور حملے کا حکم دے دیا۔ قلعے کے اندر کرنل ولیم فلارٹن کی قیادت میں برطانوی افواج کے پاس رسد اور گولا بارود کی کمی ہوچکیتھی۔

مصنف سریش کمار لکھتے ہیں کہ اگست 1781 میں ویلو ناچیار اور حیدر علی کی مشترکہ افواج نے بالآخر قلعہ کے دفاع کو توڑا اور اس پر قبضہ کر لیا۔

یوں جنگ آزادی سے 77 سال پہلے ویلو ناچیار برطانوی نوآبادیاتی طاقت کے خلاف جنگ جیتنے والی ہندوستان کی پہلی رانی بن گئیں۔

انھوں نے اپنی بیٹی ویلاچی کو بادشاہی سونپنے سے پہلے اگلے 10 سالوں تکسیوا گنگائی پر حکومت کی۔

مورخ آر مانیکندن کا کہنا ہے کہ ’ویلو ناچیار ایکایسی قابل فوجی رہنما تھیں جو اپنے دشمنوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں ماہر تھیں۔ خطے میں برطانوی نوآبادیاتی طاقت کو چیلنج کرنے کے لیے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے ساتھ ان کا اتحاد ان کی حکمت عملی کی ایک مثال ہے۔‘

ایک زبردست جنگجو کے طور پر اپنی شہرت کے باوجود، ویلو ناچیار اپنی رعایا کےلیےہمدردیرکھتی تھیں۔ مؤرخ وی پدماوتی کے مطابق: ’وہ ایک انصاف پسند اور ہمدرد حکمران تھیں جو اپنے لوگوں سے پیار کرتی تھیں۔‘

ان کی ہمدردی کی ایک مثال ان دلتوں کو پناہ دینے کے فیصلے میں نظر آتی ہے جنھیں حکمران ذات کے لوگوں نے ستایا تھا۔

آر مانیکندن کے مطابق: ’وہ ایک فطری رہنما تھیں۔‘

جنگ کے بعد

فتح کے بعد، ویلو ناچیار نے ایک دہائی تک حکومت کی۔ مشکل وقت کے ساتھیوں کو مملکت میں انتظامی عہدے دیے۔ حیدر علی کی بے پناہ اور بروقت مدد کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ویلو ناچیار نے سارگانی میں ایک مسجد تعمیر کی۔

جے ایچ رائس نے دی میسور سٹیٹ گزٹیئر میں لکھا ہے کہ انگریزوں کے خلاف میسور کی دوسری جنگ میں ویلو ناچیار نے حیدر علی کی حمایت کی اور ان کی مدد کے لیے اپنی فوج بھیجی۔

حیدر علی کی وفات کے بعد ویلو نے ان کے بیٹے ٹیپو سلطان کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات رکھے اور ان سے بھائی کی طرح پیار کیا۔ ویلونے ٹیپو سلطان کو تحفے کے طور پر ایک شیر بھی بھیجا۔

محب الحسن نے حیدر علی اور ٹیپو سلطان پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ٹیپو سلطان نے ویلو ناچیار کو فوج کو مضبوط کرنے کے لیے ہتھیار اور گولا بارود بھی فراہم کیا۔

ٹیپو سلطان نے ویلو ناچیار کو ایک تلوار بھی بھیجی جسے انھوں نے اپنی بہت سی لڑائیوں میں استعمال کیا۔

ویلو ناچیار کی بیٹی ویلاچی نے 1790 سے 1793 تک حکومت کی۔ ویلو ناچیار کی وفات 1796 میں سیوا گنگائی میں ہوا۔

ہمسادھوانی الگرسامی لکھتی ہیں کہ ویلو کو تمل تہذیب میں 'ویرامانگائی' (بہادر عورت) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سنہ 2008 میں ان کی یاد میں انڈیا میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ تمل ناڈو کی سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی جے للیتا نے سنہ 2014میں سیوا گنگائی میں 'ویرامانگائی ویلو ناچیار میموریل ' کا افتتاح کیا۔ رانی کا چھ فٹ کا کانسی کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا۔

جے للیتا ہی کے دور میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی بہادری کے اعتراف میں ایک منی منڈپم (یادگار) کی تعمیر کی ابتدا ہوئی۔

یہ یادگار پچھلے پانچ سال سے ڈِنڈیگل میں سیاحوں کی توجہ کا مرکزہے۔ وہی ڈِنڈیگل جہاں حیدر علی اور ویلو ناچیار نے اپنے طویل اتحاد کا آغاز کیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More