عمران خان کی گرفتاری: ’میرے بھائی کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا، صرف ایک جھنڈا تھا‘

بی بی سی اردو  |  May 11, 2023

credit shah alam, ehtasham shami & umer aziz facebook

’ذاکر نےساری زندگی بہت مشکلات اور تکالیف دیکھی تھیں۔ اب تھوڑے سے حالات بہتر ہوئے تو وہ جوانی کے عالم ہی میں اس دنیا سے چلا گیا ہے۔‘

یہ الفاظ ذاکر خان کے ماموں زاد شاہ عالم خان کے ہیں۔ بدھ کے روز دیر کے علاقے چکدرہ میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران چترال سکاوئٹس کیمپ سامنے فائرنگ کے واقعہ میں ذاکر ہلاک ہو گئے تھے۔

9 مئی کو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خانکی گرفتاری کے بعد سے ملک کے مختلف شہروں میں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان آمنے سامنے ہیں۔

کئی مقامات پر یہ احتجاج پرتشدد مظاہروں میں بھی تبدیل ہو رہا ہے اور پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کے دوران پولیس اور پی ٹی آئی دونوں فریقینمیں متعدد ہلاکتوں اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔

بی بی سی نے ان مظاہروں میں ہلاک ہونے والے چند افراد کے اہلِ خانہ سے بات کی ہے۔

’ذاکر دبئی سے چھٹیاں گزارنے گھر آئے تھے‘credit shah alam

ذاکر خان نے سوگواروں میں ماں، بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں۔

بٹ خیلہ ہسپتال کے مطابق چکدرہ میں منگل کو فائرنگ کے واقعہ میں کئی افراد زخمی ہوئے اور ایک لاش بھی ہسپتال لائی گئیتھی جس کی شناخت ذاکر خان کےنام سے ہوئی ہے۔

ذاکر چکدرہ کے نواحی علاقے کے رہائشی تھے۔

ذاکر کے ماموں شاہ عالم خان نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ ’جس روز عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اسی روز ذاکر بھی چکدرہ گئے تھے۔‘

’سیاسی طورپر وہ عمران خان کے حامی تھے۔ اس حوالے سے دلائل بھی دیتے تھے۔ مجھے اب یہ نہیں پتا کہ وہ مظاہرے میں شرکت کے لیے گے تھے کہ وہاں سے گزر رہے تھے کہ گولی کا نشانہ بن گئے۔ تاہم وہ وہ دوبئی سے چھٹیاں گزارنے گھر آئے تھے۔‘

’جس دن ذاکر کا جنازہ ہوا اسی روز ان کی واپسی کا ٹکٹ تھا‘

شاہ عالم کہتے ہیں کہ ذاکر گھر سے چکدرہ گئے کہ وہاں پر کچھ دوستوں وغیرہ سے ملنے کے علاوہ کوئی ضرورت کی اشیا خرید لیں گے۔

ذاکر خان دوبئی میں رہائش پذیر ہیں اور ان دنوں چھٹیوں پر گھر آئے تھے۔

بدھ کےے روز ان کا جنازہ ہوا ہے اور اسیروز ان کی دوبئی واپسی کا بھی ٹکٹ بھی تھا۔

شاہ عالم کا کہنا تھا کہ’میری ان سے دو روزقبل کھانے پر ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ذاکر کی دوبئی جانے سے پہلے ہمارے ساتھ الوداعی ملاقاات تھی۔ ہمیں کیا پتا کہ یہہمیشہ کی الوداعی ملاقات ہو گی۔‘

’اس موقع پر ہمنےبہت گپ شپ کی تھی۔ذاکر خان کئی سالوں کی محنت مزدوری کے بعد اب تھوڑا خوش تھا۔‘

شاہ عالم کا کہنا تھا کہ ’ساری زندگی دو چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی بھی ذمہ داری بھی ذاکرپر رہی تھی۔ اس دن وہ کہہ رہے تھے کہ ہم دونوں بہن بھائیوں میں بڑے ہیں اس لیے ہماری پریشانیاں، مسائل اور ذمہ داریاں کبھی بھی کم نہیں ہوں گی۔‘

شاہ عالم کے مطابق ذاکر نےبچپن ہی سے بہت مشکلات دیکھی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ذاکر نے مجھے بتایا کہ کئی سالوں کی محنت کے بعد وہ اس سال اس قابل ہوا کہ اب کوئی تھوڑی سے زمین خرید سکے۔ اب جب کچھ بہتر ہوا تو دنیا ہی سے چلا گیا۔‘

شاہ عالم کا کہنا تھا کہ بچپن میں ذاکر ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھتے تھے جو ہمارے علاقے کے قریب تھا جب کہ سرکاری سکول دور تھا ’اب ہوتا یہ کہ ان کے پاس سکول کی فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ سکول میں فیس مانگتے تو یہ اپنی والدہ کو نہیں بتاتے بلکہ سکول ہی نہیں جاتے تھے۔‘

شاہ عالم کا کہنا تھا کہ ’ذاکر کو والدہ کہتی کہ سکول جانا ہے تو وہ گھر سے آکر باہر کسی جگہ پر بیٹھ جاتے۔‘

میرے پوچھنے پر ذاکر نے کہا کہ ’ماں سے نہیں کہہ سکتا کہ فیس دو سکول جاؤں اور اگر یہ کہتا ہوں کہ سکول نہیں جاتا تو وہ خفا ہو گی۔ اس لیے ادھر آکر بیٹھ جاتا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان حالات کا بس ایک ہی حل سمجھ آیا کہ وہ دوبئی چلے جائیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ذاکر سے بات کی وہ بہت چھوٹی عمر میں دوبئی جانے کو تیار ہو گئے‘۔

social media

’ذاکر کی والدہ ہوش میں نہیں ہیں‘

شاہ عالم بتاتے ہیں کہ دوبئی میں بھی ذاکر نے بہت مشکلات کا ساممنا کیا کیونکہ وہ مزدور تھے ’پردیس کاٹنا اور مزدوری کرنا کوئی آسان نہیں تھا، کبھی مزدوری ملتی اور کبھی نہیں ملتی تھی۔ اس طرح کئی سال گزر گئے تھےمگر وہ کام میں لگے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ان کی شادی بھی کروائی گی۔ انھوں نے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو بھی دوبئی بلا لیا تھا۔ ایک بھائی پانچ سال قبل اور ایک کچھ ماہ قبل دوبئی چلا گیا تھا۔

شاہ عالم کا کہنا تھا کہ ذاکر اپنے بچوں کی تعلیم اور اچھے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند رہتے تھے ’وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر بہت توجہ دیتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے اور بالخصوص بڑا بیٹا جس کی عمر چودہ سال ہے بہت اچھی تعلیم حاصل کرئےتاکہ اس کو ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کا انھیں خود کرنا پڑا تھا۔‘

شاہ عالم بتاتے ہیں کہ ’جب ذاکر کو دوبئی بھیجا جارہا تھا تو اس کی والدہ کہتی تھی کہ میرے بیٹے کو مجھ سے دور مت بھجو کہ یہ ادھر ہی محنت مزدوری کر لے گا اور جب وہ دوبئی گیا تو انھوں نے کئی دن کھانا نہیں کھایا تھا اور روتی رہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ذاکر بھی اپنے ماں سے بہت محبت کرتا تھا ’وہ اپنی ماں کا تابعدار تھا۔ اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اپنی ماں کی اجازت سے کرتا تھا۔اس وقت ذاکر کی ماں ہوش میں نہیں ہے اور اس پر سکتے کی کیفیت طاری ہے۔‘

’راشد کو وردی پسند تھی، کہتا تھا کہ میں پولیس میں پکا ہو جاؤں گا‘Ehtesham Shami

وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں راہوالی چیک پوسٹ کے قریب سکیورٹی فورسز اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ کر جاں بحق ہونے والا راشد مقبول پارٹی کارکن نہیں بلکہ پولیس کے رضاکار تھے۔

راشد کے والد محمد مقبول نماز جنازہ میں انتہائی افسردہ تھے اور تدفین کے موقع پر بھی وہ روتے ہوئے یہی کہتے رہے کہ ’میرا شیر جوان چلا گیا۔‘

مقبول نے صحافی احتشام شامی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ڈیرے پر مزدوری کرتے ہیں ’ہمارا کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، ہم کسی مقامی سیاستدان کو نہیں جانتے ، آج جنازے میں بھی کوئی سیاستدان اس لیے نہیں آیا کہ ہمارا کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں جبکہ پولیس کے محکمے سے سب افسران اور جوان شریک ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ راشد کو پولیس کے محکمے میں بھرتی ہونے کا بہت شوق تھا لیکن ’ایک تو اس کی تعلیم کم تھی اور دوسرا ہماری کوئی سیاسی سفارش بھی نہیں تھی ، وہ سارا دن میرے ساتھ ایک ڈیرے پر کام کرتا اور شام کو پولیس چوکی ٹھٹھہ داد میں ڈیوٹی پر چلا جاتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ راشد گذشتہ پانچ سال سے پولیس چوکی ٹھٹھہ داد میں بطور قومی رضاکار ڈیوٹی دے رہا تھا اور اس کام کے عوض اسے روزانہ پانچ سو سے ایک ہزار روپے تک بطور معاوضہ ملتے تھے ، لیکن اس کا شوق یہ رقم لینا نہیں تھا بلکہ رضاکار کے بعد محکمہ پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہونا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’راشد کو میں کہتا تھا کہ تمہاری شادی کی عمر ہے ، شادی کروالو، لیکن وہ کہتا تھا کہ افسران کہتے ہیں کہ تمہاری کارکردگی اچھی ہے تم جلد ہی محکمہ پولیس میں پکے ہو جاؤ گے ، جب میں پکا ملازم ہو جاؤں گا تو شادی بھی کروالوں گا، مجھے ابھی کوئی جلدی نہیں‘۔۔۔۔ لیکن کسے پتہ تھا کہ وہ ہم سب کو روتا دھوتا چھوڑ کر اگلے جہان چلا جائے گا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔‘

یاد رہے کہ پنجاب میں مختلف تھانوں اور چوکیوں میں عملے کی کمی کے باعث قومی رضاکار رکھے جاتے ہیں جن کی بھرتی کے لئے کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں ہوتا، ان رضاکاروں سے پولیس کی معاونت کا کام لیا جاتا ہے جس کے عوض انھیں روزانہ کی اجرت کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔

’کھانا بھی نہیں کھایا اور جلدی جلدی یونیفارم پہن کر گھر سے نکل گیا‘

Ehtesham Shami

راشد کے ماموں غلام عباس نے بتایا کہ راشد چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور خاندان کا لاڈلا تھا۔

وہ روزانہ شام کو پولیس چوکی چلا پر جاتا تھا لیکن گذشتہ روز اسے جلد پہنچنے کا بلاوا آگیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کا جلوس راہوالی آرمی چیک پوسٹ کے قریب پہنچ رہا تھا اور پولیس نفری کو وہاں فوری طور پرپہنچنے کے احکامات ملے تھے۔

انھوں نے کہا کہ راشد ایک پرجوش اور بہادر لڑکا تھا، اس نے گھر سے کھانا بھی نہیں کھایا اور جلدی جلدی یونیفارم پہن کر گھر سے نکل گیا، اس کے بعد راہوالی میں کیا حالات ہوئے یہ ہم نہیں جانتے ، بس رات ایک بجے کے قریب اطلاع آئی کہ راہوالی آرمی چیک پوسٹ کے قریب فائرنگ ہوئی ہے جس میں راشد اپنے فرض کی ادائیگی پر قربان ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں پولیس افسران نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آپ کے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ’ چونکہ یہ واقعہ رات کے اندھیرے میں پیش آیا اور وہاں ہر طرف سے فائرنگ ہورہی تھی اس لئے وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ راشد کو کس کی گولی لگی۔‘

’میرے بھائی کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا، صرف ایک جھنڈا تھا‘Umer Aziz Facebook

’خاندان کا بزرگ بھی اگر طبعی موت مر جائے تو لوگ اسے نہیں بھولتے لیکن میرا بھائی تو جوان تھا اور اس کی ناگہانی موت نے ہمارے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔‘

یہ الفاظ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طارق ناصر کے ہیں جن کے چھوٹے بھائی عمر عزیز منگل کے روز کوئٹہ کینٹ میں تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران سر پر گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔

بی بی سی کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے طارق ناصر نے دعویٰ کیا کہ ’بھائی کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا بلکہ صرف ایک جھنڈا تھا اس لیے انھیں گولی مارنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘

اس احتجاج میں ناصرف عمر عزیز سرپر گلی لگنے سے زندگی کی بازی ہار گئے تھے بلکہ تحریک انصاف کے متعدد کارکن زخمی بھی ہوئے تھے۔

تحریک انصاف کے رہنماوں نے کارکن کی ہلاکت اور دیگر کو زخمی کرنے کی ذمہ داری سیکورٹی اہلکاروں پر عائد کی ہے۔

تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ نے ان الزامات کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ویگو میں سوار لوگوں کی فائرنگ سے احتجاج کرنے والوں میں سے ایک ہلاک اور دوسرے زخمی ہوئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پرامن احتجاج کہیں اور بھی کیا جا سکتا تھا لیکن تحریک انصاف کے لوگ جھتہ لے کر کینٹ گئے جس کا کوئی بھی جواز نہیں تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ احتجاج میں شامل لوگوں نے پولیس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔

’26 سالہ عمر عزیز یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے‘

عمرعزیز کا تعلق ضلع لورالائی سے تھا تاہم ان کے خاندان کا کوئٹہ میں بھی گھر ہے۔ ان کا تعلق پشتونوں کے قبیلے ناصر سے تھا۔

طارق ناصر نے بتایا کہ ان کا بھائی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ان کی عمر 26 سال تھی اور ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ چھ بہن بھائیوں میں عمر عزیز پانچوِں نمبر پر تھے۔

طارق ناصرنے بتایا کہ عمر عزیز 2013 سے تحریک انصاف سے وابستہ تھے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کی گرفتاری: پی ٹی آئی کے پُرتشدد احتجاج کے بعد مرکزی قیادت گرفتار

القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب کیا ہو گا؟

’یا تو انقلاب آ چکا یا کچھ بہت بُرا ہونے جا رہا ہے‘ عمران خان کی گرفتاری، مظاہروں پر تبصرے

’میرے بھائی کی ناگہانی موت نے ہمارے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے‘

Umer Aziz Facebook

طارق ناصر نے بتایا کہ ’میرا بھائی یاروں کا یار تھا اور جو لوگ بھی ان سے ملتے تھے وہ ان کے خلوص کو دیکھ کر ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ بھائیوں میں وہ ہم سب سے چھوٹا تھا اسی لیے ہمارے گھر کا لاڈلا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’خاندان کا بزرگ بھی اگر طبعی موت مر جائے تو لوگ اسے نہیں بھولتے لیکن میرا بھائی تو جوان تھا اور ان کی ناگہانی موت نے ہمارے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نوجوان ہونے کے ناطے ان کے بھائی کی زندگی کے خواب تھے جن کے لیے وہ جدوجہد کر رہے تھے ’عمر عزیز کو اس ملک اور لوگوں سے عشق تھا اور وہ ایک ایسے پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے تھے جس میں لوگوں کا وقار اور عزت ہو۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’عمر ملک میں غریب اور بے سہارا لوگوں کی حالت پر ہر وقت کڑتے تھے اور تبدیلی کی خواہش میں انھوں نے تحریک انصاف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔‘

'میرے بھائی سمجھتے تھے کہ لوگوں کی بہتری کا مشن عمران خان کی قیادت میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد وہ اس دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ ان کے ہاتھ میں تحریک انصاف کا پرچم ہی تھا۔‘

’عمر کو گولی مارنے کا کوئی جواز نہیں تھا‘

Umer Aziz Facebook

طارق ناصر کا دعویٰ ہے کہ ’پوری دنیا نے دیکھا احتجاج کے دوران عمر عزیز کے ہاتھ میں صرف ایک پرچم تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے گڑبڑ کی ہو لیکن اس کی سزا یہ نہیں ہے کہ آئینی اوربنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو گولی ماری جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میرے بھائی کو براہ راست پیشانی پرگولی ماری گئی۔میرے بھائی کے پاس جب صرف ایک جھنڈا تھا اور ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا توان کو گولی مارنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘

عمر عزیز کوئٹہ میں تحریک انصاف کے احتجاج کرنے والے کارکنوں میں شامل تھے جنھوں نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ کینٹ کے ایئرپورٹ روڈ کی جانب سے مین گیٹ کے قریب دھرنا دیا تھا۔

ایونٹ کی کوریج کرنے والے کیمرہ مینوں نے عمر عزیز کوگولی لگنے کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔

عینی شاہدین کے مطابق گولی ان کی پیشانی پر لگی جس کے باعث ان کے سر کا ایک حصہ اڑ گیا۔

گولی لگنے کے بعد انھیں سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ہسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

ہسپتال کے اہلکارکے مطابق انھیں ایک ہی گولی سر میں لگی تھی جو کہ ان کی موت کی وجہ بنی۔

تحریک انصاف کی جانب سے عمرع زیز پر گولی چلانے کا الزام سیکورٹی اہلکاروں پرعائد کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کے مقامی رہنما آصف ترین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت وہاں پولیس اہلکاروں کے علاوہ دیگر سیکورٹی اہلکار بھی موجود تھے جس کے باعث ہم اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ ان پر کس نے گولی چلائی۔‘

’ ایک نامعلوم لاش جس کی کوئی شناخت نہیں‘

بی بی سی کے عزید اللہ خان کے مطابق پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کل 94 زخمی لائے گئے ہیں جن میں بیشتر کو معمولی زخمآئے تھے لیکن ان میں چار ایسے تھے جو ابدی نیند سو چکے تھے لیکن ان کے بارے پولیس اور جماعت کے رہنماؤں کے پاس کوئی معلومات نہیں تھی کہ یہ کون تھے۔

ہسپتال میں ایک نامعلوم لاش بھی لائی گئی ہے جس کی کوئی شناخت نہیں تھی۔۔۔ نہ نام نہ کوئی پتا۔۔ بس اندازے سے اس کی عمر 25 سال لکھی گئی تھی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد دو روز میں جاری احتجاجی مظاہروں اور فائرنگ کے واقعات میں ملک بھر میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے سات کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں چار افراد دم توڑ چکے ہیں۔ ہسپتال کے ترجمان کے مطابق ان چاروں کو گولیاں لگی تھیں اور ان کی عمریں 18 سال سے 27 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔

پشاور کے پولیس حکام نے بتایا کہ ان چاروں میں سے ایک کی تو کوئی شناخت نہیں ہو سکی کہ یہ کون تھا اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے کیسے اور کہاں گولی لگی ہے۔

اس کے علاوہ ان میں ایک ابرار احمد ولدجہانزیب کی شناخت ہوئی ہے جو پشاور کی دیر کالونی کے رہائشی تھے۔ ان کی عمر 27 سال بتائی گئی ہے اور انھیں قلعہ بالا حصار کے قریب سورے پل کے ساتھ گولی لگی ہے۔

یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ فائرنگ کس جانب سے کی گئی تھی۔ پی ٹی آیی کے کارکنوں کا الزام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار فائرنگ کرتے رہے ہیں۔

Getty Images

سکندر ولد محمد جانپشاور کے علاقے شاہ ڈھنڈ کے رہائشی بتائے گئے ہیں اور ان کی عمر 18 سال تھی۔ ان کی ہلاکت بادشاہ خان چوک پر ٹریفک ہیڈ کوارٹر کے قریب ہوئی ہے۔ یہاں ٹریفک ہیڈ کوارٹرکے قریب منگل کی رات احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔

اسی طرح ایک مقتول کا نام محمد بلال ولد محمد زبیر بتایا گیا ہے اور ان کا تعلق ضلع خیبر کےن علاقے لنڈی کوتل سے ہے۔ ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں کب اور کیسے قتل کیا گیا ہے تاہم ان کی عمر 20 سال بتائی گئی ہے۔

اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے ضلع پشاور کے رہنما عرفان سلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تصویروں کے ساتھ تمام کارکنوں کی فہرستیں تیار کر رہے ہیں جو زخمی یا ہلاک ہو گئے ہیں۔

پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں جہاں احتجاجی مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے وہاں فائرنگ کی آوازیں تو وقفے وقفے سے سنائی دی جاتی تھیں لیکن یہ معلوم نہیں ہو پاتا تھا کہ فائرنگ کس جانب سے کی جا رہی ہے۔

پشاور میں قلعہ بالا حصار کے ساتھ ٹولیوں کی شکل میں مظاہرین آتے تھے جہاں وہ وقفے وقفے سے نعرہ بازی کرتے اور پھر اس کے بعد فائرنگ کی آوازیں شروع ہو جاتی تھیں اور آنسو گیس کے شیل پھینکے جاتے۔۔۔ یہ معلوم نہیں ہو پاتا تھا کہ فائرنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال بھی قلعہ بالا حصار کے قریب واقع ہے اور اس ہسپتال میں وقفے وقفے سے زخمیوں کو لایا جا رہا تھا۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ جرما میں یونیورسٹی کے قریب جھڑپ میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More