سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ جانتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا اور عمران خان کو گرفتاری کے بعد اب کیا ہوگا؟
القادر ٹرسٹکیس ہے کیا؟
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد گذشتہ سال جون میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ایک ریئل سٹیٹ ڈیویلپر سے 50 ارب روپے کی لانڈر کی گئی رقم کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے ان کے ٹرسٹ کے لیے اربوں روپے کی اراضی حاصل کی تھی۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس ضمن میں پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہپی ٹی آئی کی حکومت کے دوران برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے منی لانڈرنگ تحقیقات کے بعد پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی رقم کو واپس کیا تھا تو اس کو عمران خان نے 3 دسمبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں کابینہ کے اراکین کو اسے پڑھنے کی اجازت دیے بغیر مزکورہ پراپرٹی ٹائیکون کے حق میں برطانیہ سے واپس آئی رقم کے تصفیے کی منظوری لی تھی۔
اس بارے میں حکومت کی طرف سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ پراپرٹی ٹائیکون نے اپنے دیگر غیر قانونی معاملات کو ’کور‘ دینے کے لیے بھی القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی زمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کو دی تھی جبکہ دیگر تحفے تحائف اس کے علاوہ ہیں۔
قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضیسے متعلق انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا اور معاملہ پراپرٹیٹائیکون کے ساتھ مبینہ طور پر پچاس ارب سے زائد کی رقم کو لیگل کور دینے کے بعد منظر عام پر آیا تھا۔
نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔
اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ناقابل تردید شواہد سامنے آئے تھے، جس کی بنیاد پر اس معاملے میں کی جانے والی انکوائری کوانویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
نیب کے افسر کے مطابق جب معاملہ انویسٹی گیشن کے مرحلے میں آجاتا ہے تو پھر ملزمان سے براہ راست تفتیش کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر انھیں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
نیب حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عمران خان، بشریٰ بی بی بیرسٹر شہزاد اکبر اور ریئل سٹیٹ ڈیویلپر کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ القادر ٹرسٹ میں کی جانے والی انکوائری کو انوسٹیگیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے تو انھوں نے منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔
نیب حکام کے مطابق نیب نے انکوائری شروع کی تو عمران خان کیحکومت کے تقریباً تمام کابینہ ارکان کو طلب کیا تھا جنھوں نے 3 دسمبر 2019 کے اجلاس میں شرکت کی تھی تاہم نیب حکام کے مطابقپی ٹی آئی کے کچھ رہنما نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
اسلام آباد کے سب رجسٹرار آفس میں ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کے چند ماہ کے اندر جہلم میں 460 کنال اراضی خرید کر عمران خان کے قریبی دوستزلفی بخاری کے نام منتقل کر دی گئی اورٹرسٹ کی تخلیق کے بعد یہ زمین زلفی بخاری نے ٹرسٹ کے نام منتقل کردی۔
BBCنیب قوانین میں نئی ترامیم سابق عمران خـان کے لیے کتنی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں؟
قومی احتساب بیورو کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ موجودہ حکومت کی طرف سے نیب کے قوانین میں نئی ترامیم، جنھیں سابق وزیراعظم عمران خـان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، کا سب سے زیادہ اور فوری فائدہ عمران خان کو ہوگا۔
ان کے مطابق نئی ترامیم میں 90 دن کے ریمانڈ کے بجائے ریمانڈ کا عرصہ کم کر کے 14 دن کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق سیکشن 9 سی میں ہونے والی ترمیم کے مطابق نیب پابند تھا کہ وہ عمران خان کو کال اپ نوٹسز بھیجتا اور ان کے ساتھ انکوائری رپورٹ لف کرتا کہ اب یہ انکوائری حتمی ہے اور اب باقاعدہ تحقیقات ہوں گی۔
سابق پراسیکیوٹر کے مطابق ابھی عمران خان کے خلاف نیب نے نئی ترامیم کے تحت مکمل قانونی عمل کی پیروی نہیں کی ہے، جس کا فائدہ ملزم کو ہو گا۔
تاہم نیب نے اپنے اعلامیے میں یہ کہا ہے کہ عمران خان نیب کے کال اپ نوٹسز کا خاطر خواہجواب نہیں دیتے رہے اور ان کی گرفتاری نیب آرڈیننس اور قانون کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔
عمران شفیق کے مطابق گرفتاری کے لیے تین بڑی وجوہات کا ہونا ضروری ہے۔ پہلے نمبر پر تو یہ ہے کہ ملزم کے فرار ہونے کا خدشہ ہو، وہ حقائق میں ردوبدل کرا سکتا ہو یا وہ پہلے سے اشتہاری ہو۔
عمران شفیق کے مطابق نیب کی گرفتاری کے بعد عمران خان کو بالکل اسی پراسز کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی ملزم کو پولیس گرفتاری کے بعد سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کی میڈیکل ہوگا، ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا اور پھر انھیں مزید مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کے مطابق قانونی طور پر نیب ملزم پر جسمانی تشدد نہیں کر سکتا مگر ذہنی تشدد کے متعدد طریقے ہیں جن کا نیب کی حراست میں ملزمان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایڈووکیٹ عمران شفیق کے مطابق نئی نیب ترامیم کے تحت عمران خان آسانی سے ضمانت حاصل کرسکتے ہیں اور اب یہ اختیار ٹرائل کورٹ کو بھی ہے کہ وہ انھیں ضمانت دے سکے۔