ہیروئن سے بھی 50 گنا زیادہ طاقتور دوا فینٹینیل جو سانس روک کر موت کا سبب بن جاتی ہے

بی بی سی اردو  |  May 08, 2023

Getty Images

مورفین سے 100 جبکہ ہیروئن سے 50 گنا زیادہ طاقتور فینٹینیل ایک مصنوعی دوا (اوپیئڈز) ہے جس کی امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے طبی استعمال کے لیے منظوری دی ہے۔

تاہم اگر طبی مقاصد سے ہٹ کر تفریحی مقاصد کے لیےاسے استعمال کیا جائے تو یہ طاقتور دوا مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ سنہ 2021 میں 70 ہزار601 امریکی اس دوا کی زیادہ مقدار استعمال کرنے سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آن ڈرگ ابیوز نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوا کے زیادہ استعمال سے بہت سے امریکی شہریوں کی موت واقعہوئی ہے۔ تاہم امریکی حکومت نے حال ہی میںاس مصنوعی اوپیئڈز کے اثر کوروکنے کے لیے نالوکسن نامی دوا کی اوور دی کاؤنٹر فروخت کی منظوری دی ہے۔

لیکن فینٹینیل کا دماغ پر کیا اثر ہوتا ہے؟ اور یہ اتنی خطرناک کیوں ہے؟

لذت اور بے چینی کا غائب ہونا

پہلی بار سنہ 1959 میں تیار کردہ اور 1960 کی دہائی میں نس کے ذریعے درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی فینٹینیل کو اپنی مختلف شکلوں (گولیاں، پیچ، انجیکشن وغیرہ) میں ایک بے ہوشی کی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور سرجری یا پیچیدہ صحت کی حالت کی وجہ سے ہونے والے شدید اور پرانے درد کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ہیروئن یا مورفین جیسی دیگر اوپیئڈز کی طرح فینٹینیل دماغ کے ان حصوں میں پائے جانے والے ’اوپیئڈ ریسیپٹرز‘ کے ساتھ جا کر ایسے ملتا ہے جو درد اور جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

یہ ریسیپٹرز عام طور پر ہمارے اپنے جسموں کی طرف سے جاری کیمیکلز کا جواب ہیں تا کہ ہم ان سرگرمیوں میں انعام کے طور پر جو ہماری بقا میں حصہ ڈالتی ہیں، جیسے کہ کھانا، پینا، یا جنسی تعلق۔

اوپیئڈز کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ مادہ دماغ میں کتنی جلدی داخل ہوتا ہے اور کتنی جلدی ایسا کرتا ہے۔

چونکہ یہ چھوٹی مقدار میں ایک انتہائی طاقتور دوا ہے، اس لیے اسے دماغ تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور فینٹینیل اس عمل میں مزید تیزی کا سبب بنتی ہے۔

Getty Images

ایک بار جب فینٹینیل دماغ میں داخل ہوتی ہے تو یہ اوپیئڈ ریسیپٹرز کے ساتھ تعامل کرتی ہے، ڈوپامائن کے اخراج میں سہولت فراہم کرتی ہے ، درد کو ختم کرتی ہے، مریض کی حالت میں بہتری اور سکون کا احساس دیتی ہے اور اضطراب کو کم کرتی ہے۔

یہ تھوڑا سا کوکین کی طرح کی ہے۔ جب لوگ اسے پہلی بار استعمال کرتے ہیں تو انھیں عمدگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اسے دوبارہ لیتے ہیں تو وہ کبھی بھی وہ سکون حاصل نہیں کرتے جو انھوں نے پہلی بار حاصل کیا تھا اور اس طرح ان کا رجحان اس طرف ہو جاتا ہے۔

اس دوا کی مقدار بڑھانے کے لیے کینیڈا میں مینیٹوبا یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ایمریٹس ڈینیئل ستار نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’یہ احساس فینٹینیل کو اتنا طاقتور لت بناتی ہے۔ تاہم دماغ پر اس کا ایک اور طرح کا اثر مرتب ہوتا ہے اور یہی چیز اسے مہلک بناتی ہے، یہ وہ اثر ہے کہ اس کی وجہ سے انسان سانس لینا بند کر دیتا ہے اور ہائپوکسیا سے مر جاتا ہے۔

سانس لینے میں کمی

ڈینیئل ستار کے مطابق دماغی خلیہ جو سانس کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے میں اوپیئڈ ریسیپٹرز بھی ہوتے ہیں۔ اور جب وہ فینٹینیل سے بھر جاتے ہیں تو ایسے میں آپ سانس روک سکتے ہیں، چاہے آپ ہوش میں ہوں۔

ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک میساچوسٹس جنرل ہسپتال کے محققین کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوا دیگر تبدیلیوں سے پیشتر اور ہوش کھونے سے پہلے سانس روک دیتی ہے۔

Getty Images

تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ فینٹینیل نظام تنفس کی خرابی کا باعث بننا شروع کر دیتی ہے۔۔ اعضا کے چوکنا ہونے کے عمل کے چار منٹ پہلے اور نیند یا سکون دینے والی دوسری دوائیوں سے اس کی ’کانسنٹریشن‘ 1,700 گنا کم ہوتی ہے۔

اس مقالے کے سرکردہ مصنف اور محقق پیٹرک ایل پرڈن کا کہنا ہے کہ ’اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ فینٹینیل اتنی مہلک کیوں ہے۔۔ یہ لوگوں کو اس کے علم ہونے سے پہلے ہی سانس لینا بند کر دیتی ہے۔‘

ڈینئیل ستار کے مطابق طبی وجوہات سے ہٹ کر جب اسے آپریشن کے دوران زیادہ مقدار میں اینستھیزیا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو سانس کو دبانا ’حقیقت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیوںکہ پھیپھڑوں کو ٹیوب کے ذریعے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے مطالعہ کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ جب تک کہ اسے ایک خاص مہارت سے طبی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے فینٹینیل کا کسی بھی مقدار میں استعمال خطرے سے خالی نہیں ہے۔

ڈینئیل ستار یہ بھی کہتے ہیں کہ دوسری طرف جب فینٹینیل کو تفریحی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو لوگ عام طور پر یہ نہیں جانتے کہ وہ اس کی کتنی مقدار لے رہے ہوتے ہیں۔

وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ دوائی میں عام طور پر دوسرے کیمیائی مادوں کے ساتھ ملاوٹ ہوتی ہے، جو ’اس کے اثرات کو غیرمتوقع بناتی ہے کیونکہ وہ مرکب کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’بعض اوقات اسے محرکات کے ساتھ ملایا جاتا ہے کیونکہ یہ ’ریوارڈ‘ کے اجزا کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔‘

یہ ڈوپامائن کے اخراج کو تیز کرتی ہے اور سانس کے نظام کومتاثر کرتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More