Getty Images
انڈیا کی ریاست راجستھان کے شہر صورت گڑھ میں انڈین ایئرفورس کا مگ طیارہ ایک گھر پر گر کر تباہ ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
انڈین ایئرفورس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ معمول کی پرواز کے دوران طیارے میں خرابی کے باعث پیش آیا اور طیارہ تباہ ہونے سے قبل دونوں پائلٹس بحفاظت ایجکٹ (یعنی طیارے سے نکلنے میں) کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
انڈین ایئرفورس کے مطابق ’پائلٹس اس واقعے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اس حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے انکوائری آرڈر کر دی گئی ہے۔‘
پریس ریلیز کے مطابق ’طیارے کا ملبہ ضلع ہنومان گڑھ میں بہلول نگر میں ایک گھر پر گرا جس سے تین افراد ہلاک ہوئے۔ اس حوالے سے تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔‘
خیال رہے کہ جولائی 2022 میں راجستھان میں ایک تربیتی پرواز کے دوران دو پائلٹس مگ 21 گرنے کے بعد ہلاک ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ انڈیا میں جنوری 2021 کے بعد سے اب تک سات مگ طیارے گرنے کے باعث انڈین فضائیہ کے پانچ پائلٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔
جولائی 2022 میں پیش آنے والے حادثے میں ونگ کمانڈر ایم رانا اور فلائٹ لیفٹیننٹ ادویتیا بال نامی پائلٹس کی ہلاکت کے بعد انڈیا میں مگ 21 طیاروں کے خطرناک ہونے کے بارے میں ایک بار پھر بحث ہونا شروع ہوئی تھی۔
روسی ساختہ مگ 21 طیارے پہلی بار انڈین ایئرفورس کا 1960 میں حصہ بنے تھے اور دہائیوں تک انھیں ملک کی ایئرفورس ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی۔ سنہ 1999 میں کارگل جنگ کے دوران مگ 21 سکواڈرن کے ذریعے ’آپریشن سفید ساگر‘ کیا گیا تھا۔
جب فروری 2019 ونگ کمانڈر ابھینندن کے طیارے کو پاکستان میں گرایا گیا تھا تو وہ مگ 21 ہی اڑا رہے تھے۔ انڈیا کا دعویٰ کیا تھا کہ ابھینندن نے ’پاکستانی فضائیہ کے ایف 16 طیارے کو مار گرایا تھا‘ جس پر بعد میں انھیں ملک کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’ویر چکرا‘ دیا گیا تھا۔
تاہم پاکستان نے اپنا ایف 16 طیارہ تباہ ہونے کی تردید کی تھی جبکہ امریکی جریدے فارن پالیسی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے محکمۂ دفاع کے اہلکاروں نے انڈیا کے اس دعوے کے بعد پاکستانی ایف 16 طیاروں کی گنتی کی تھی اور وہ تعداد میں پورے ہیں یعنی کوئی ایف 16 تباہ نہیں ہوا تھا۔
https://twitter.com/IAF_MCC/status/1655446544164995075?s=20
انڈین ایئرفورس کی ’ریڑھ کی ہڈی‘ سے ’اڑتے تابوت‘ تک
تاہم گذشتہ چند دہائیوں میں مگ طیاروں کو پیش آنے والے متعدد حادثات کے باعث ان طیاروں کو ’اڑتے تابوت‘ کا نام دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ انڈیا اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ اس کی پاکستان سے دہائیوں پرانی لڑائی اور چین کے ساتھ تناؤ میں اضافے کے باعث ہے۔
انڈیا کی جانب سے روس کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی فوجی ساز و سامان خریدا جا رہا ہے اور فرانس سے درجنوں فرانسیسی رافیل طیارے خریدے تھے جن کی ڈیلیوری سنہ 2020 سے شروع ہوئی ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مجموعی طور پر تقریباً گذشتہ 60 سال کے دوران مگ- 21 طیاروں کے تقریباً 400 حادثے ہوئے جن میں تقریباً 200 پائلٹ ہلاک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا فرانس سے خریدے گئے نئے رفال طیارے انڈیا کو پاکستان پر فضائی برتری دلا سکتے ہیں؟
فوجی ساز و سامان کی درآمد پر پابندی کا انڈین فوج پر کیا اثر پڑے گا؟
’پاکستانی ایف سولہ مار گرانے پر‘ انڈین فضائیہ کے پائلٹ کے لیے ویر چکرا کا اعزاز
جولائی 2022 میں دی ہندو نےسرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے خبر دی تھی کہ انڈین ایئرفورس مگ 21 طیارے کو مرحلہ وار طریقے سے سنہ 2025 تک فیز آؤٹ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
Getty Images
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو اور دفاعی امور کے ماہر سوشانت سرین نے گذشتہ سال بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج آپ 1960 میں تیارہ کردہ گاڑی بھی نہیں چلاتے۔ اسے بھی ونٹیج کہا جاتا ہے۔ مگ-21 لڑاکا طیاروں کو دس سال پہلے مرحلہ وار ختم کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ طیارے آپ کی فضائیہ کا ایک بڑا حصہ ہیں۔‘
ایک قابل غور امر یہ ہے کہ حکومت کا جس شرح سے پرانے لڑاکا طیاروں کو انڈین فضائیہ میں سروس سے ہٹانے کا منصوبہ ہے، اسی شرح سے نئے طیاروں کے آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
اس وقت انڈین ایئر فورس کے پاس 70 مگ 21 اور 50 مگ 29 طیارے موجود ہیں۔