Getty Imagesرسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے جو والد پیٹرنٹی لیو لیتے ہیں ان کے بچے ان سے زیادہ قریب ہوتے ہیں
بچوں کی پیدائش کے بعد والد کو ملنے والی چھٹی یعنی ’پیٹرنٹی لِیو‘ کے بہت سے فوائد ہیں اور ماضی کے مقابلے اب زیادہ کمپنیاں مردوں کو یہ سہولت فراہم کررہی ہیں۔ اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ مرد اس سہولت کا فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں؟
لندن کی ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرنے والے رکارڈو ڈوکے سنہ 2018 کے موسم گرما میں اپنی بچی کی پیدائش کے بعد پانچ ماہ کی پیٹرنٹی لیو شروع کرنے ہی والے تھے کہ جنوبی پرتگال میں رہنے والی ان کی دادی کو شدید نمونیا ہو گیا۔
ڈوکے کی اہلیہ کا تعلق انڈیا سے ہے۔ وہ سات ماہ کی میٹرنٹی لیو یعنی زچگی کی چھٹی کے بعد سام سنگ کمپنی میں واپس ملازمت پر چلی گئی تھیں۔
ڈوکے کہتے ہیں: ’میں مشکل سے اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلے وقت گزار پاتا تھا۔ لیکن میرے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ میں اسے پرتگال لے گیا۔ وہاں میں نے اپنی بچی اور دادی، دونوں کی دیکھ بھال کی۔ مجھے کوئی مدد بھی حاصل نہیں تھی۔‘
ڈوکے اور ان کی اہلیہ کو جس وقت یہ معلوم ہوا کہ وہ والدین بننے والے ہیں تو دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ڈوکے بھی بچی کی ولادت کی لمبی چھٹی لیں گے۔ باوجود اس کے کہ دفتر میں ان کے ساتھیوں اور مینیجر نے ان کے اس فیصلے کے بارے میں عجیب تاثرات دیے اور ان کی دل سے حوصلہ افضائی بھی نہیں کی، لیکن ان کی چھٹی اس طرح شروع نہیں ہوئی جیسا کہ انھوں نے سوچا تھا لیکن ان کا تجربہ بے حد تسلی بخش رہا۔
ڈوکے بتاتے ہیں: ’جو وقت میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ گزارا وہ بیش قیمت تھا۔‘
Getty Imagesمردوں کے لیے بچے کے پیدائش کے بعد چھٹی لینے میں جنس سے متعلق دقیانوسی تصورات ایک اہم رکاوٹ ہیں
برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ڈوکے جیسے مردوں کی تعداد بہت کم ہے جو بچوں کی پیدائش کے بعد چھٹی لیتے ہیں۔ بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں قانونی طور پر مردوں کو بچے کی پیدائش کے بعد چھٹی لینے کی اجازت ہے اور چھٹی کا یہ دورانیہ تین ماہ تک محیط ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر 10 میں سے چار ادارے یا کمپنیاں ایسی ہیں جو چند ہفتوں تک تنخواہ کے ساتھ مردوں کو بچوں کی والادت پر یہ چھٹی دیتے ہیں۔ لیکن ایسے مردوں کی تعداد بہت کم ہے جو ولادت کے موقع پر دو تین ہفتوں سے زیادہ یا بغیر تنخواہ کے پیٹرنٹی لیو لیتے ہیں۔
اس بارے میں بیشتر مردوں کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے چھٹی نہیں لیتے کیونکہ دفتر میں تفریق کا خدشہ رہتا ہے اور یہ بھی ڈر رہتا ہے کہ لمبی چھٹی لینے کے باعث اُن کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہو گا یا یہ کہ وہ ترقی کا موقع کھو بیٹھیں گے۔
ماہرین کا کہنا کہ اس طرح کے خدشات کے لیے جنس یا جینڈر سے متعلق پرانے اور تباہ کن دقیانوسی تصوارتذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان خیالات اور تاثرات کو بدلنے کے لیے ایک اہم ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ساتھ میں یہ بھی اہم ہے کہ ادارے تنخواہ کے ساتھ پیٹرنٹی لیو سے متعلق بہتر قواعد و ضوابط بنائیں۔
دقیانوسی تصوارت
برطانیہ کی ایکزیٹر یونیورسٹی کے سوشل اینڈ اورگنائزیشنل سائیکولوجی کے شعبے میں رسرچ فیلو تھیکلا مورگن روتھ کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ گذشتہ چند دہائیوں میں دفاتر میں مرد اور خواتین کے توازن میں اہم تبدیلی آئی ہے جنس سے متعلق دقیانوسی تصورات آج بھی موجود ہیں اس کے باوجود کہ آج کے دور میں خواتین کی ایک بڑی تعداد افرادی قوت کا حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اب خواتین کو مردوں سے کم اہل نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن ان کو آج بھی اس نظریے سے دیکھا جاتا ہے کہ وہمردوں کی بانسبت زیادہ ملن سار، پرجوش، اور خیال رکھنے والی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہےکہ انھیں بچوں کی دیکھ بھال یا اس طرح کے ديگر کاموں کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہےکہ ’دوسری جانب مردوں کو آج بھی زیادہ فیصلہ کن، خود اعتماد، اور مقابلہ کرنے والا تصور کیا جاتا ہے۔‘
مورگن روتھ کا کہنا ہے کہ اس سے ولادت کی چھٹی لینے سے متعلق فیصلے کئی طرح سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
’پہلا یہ کہ مرد اور خواتین خود جینڈر یا جنس سے متعلق دقیانوسی تصورات کو صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرد یہ سوچ سکتے ہیں کہ خواتین زیادہ ملنسار اور خیال رکھنے والی ہوتی ہیں اس لیے وہ بچے کا بہتر خیال رکھ سکیں گی۔ ان کی اہلیہ یا جیون ساتھی بھی اس تصور کو قدرتی صلاحیت سمجھ کر مرد کو ولادت سے متعلق ذمہ داریاں اٹھانے سے منع کر سکتی ہیں تاکہ مردوں کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ یہ کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔‘
اس بارے میں وہ کہتی ہیں: ’جو مرد پیٹرنٹی لیو لیتے ہیں ان کو دفاتر میں شدید ردعمل کا سامنا ہو سکتا ہے اور انھیں ایک ایسے ملازم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو کمزور ہے اور اپنے فرائض کا پابند نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے یا تو ان کے عہدے میں کمی کی جا سکتی ہے یا پھر ان کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے گا۔‘
ان کا مزید کہنا ہےکہ ’مردوں کو ان سارے نتائج کا احساس ہوتا ہے اور یہی احساس ولادت کی چھٹی نہ لینے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، خواہ دفتر انھیں یہ چھٹی دینے کی پیشکش ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔‘
Getty Imagesرسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو والد ولادت کی چھٹی لیتے ہیں ان کے بچے ان سے زیادہ قریب ہوتے ہیںکوئی مثالی شخصیت نہیں
برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کے بزنس سکول میں لیکچرر اور اکیڈمک ریسرچر سارہ فوربس کا خیال ہے کہ مرد جس چھٹی کے حقدار ہیں اس کو بھی نہ لینے کے پیچھے کمیونیکیشن کی کمی ایک پوشیدہ رکاوٹ ہے۔
سنہ 2015 میں برطانوی حکومت نے ولادت سے متعلق ایک ایسی پالیسی متعارف کروائی تھی جس میں دو والدین 50 دنوں کی چھٹی اور 37 ہفتوں کی تنخواہ آپس میںبانٹ سکتے ہیں۔ لیکن 2018 میں کی گئی ایک ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں 900،000 والدین ایسے تھے جو اس پالیسی کا فائدہ اٹھا سکتے تھے یا اس کے حق دار تھے لیکن صرف 92000 یعنی ایک فیصد والدین نے ایسا کیا۔
ریکارڈو ڈوکے کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مردوں کو اپنے حقوق کا علم ہی نہیں ہے۔ ’جب میں نے پیٹرنٹی لیو لی تھی تو مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ بہت سارے ایسے والد تھے جن کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔‘
فوربز کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے مختلف شعبوں میں واضح طور پر ایسے مرد ہونے چاہییں جنھیں ایک مثال کے طور پر دیکھا جا سکے یا جو ’فادرہڈ چیمپئنز‘ ہوں، جو ولادت کی چھٹی لینے کے لیے دیگر مردوں کی حوصلہ افضائی کا سبب بنیں اور چھٹیوں سے متعلق لوگوں کی معلومات میں اضافہ کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر مینیجروں کو ولادت سے متعلق کمپنی کی پالیسی کے بارے میں صحیح علم ہے تو اس سے چھٹی لینے کے اہل والدین کو مدد ملے گی۔‘
تھیکلا مورگن روتھ کا بھی خیال ہے کہ رول ماڈلز بے حد اہم ہیں۔ انھوں نے کہا: 'اگر ایک کمپنی میں دوسرے مرد ولادت کی چھٹی لے رہے ہیں تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کمپنی میںدوسرے مردوں کے لیے یہ چھٹی لینا عام اور قابل قبول بات ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس طرح کی روایت تب عام ہوتی ہے جب کمپنی کے سینیئر اہلکار پیٹرنٹی لیو لیتے ہوں۔ ایسا کرنے سے وہ ایک رول ماڈل بن سکتے ہیں اور یہ تصور عام کر سکتے ہیں کہ ولادت کی چھٹی لینے کے باوجود بھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘
بدقسمتی سے اس طرح کے شواہد موجود ہیں کہ کمپنی کے سینیئر اہلکار ہی وہ لوگ ہیں جو سب سے کم چھٹی لیتے ہیں اور سب سے زیادہ دفاتر میں نظر آتے ہیں۔
سنہ 2017 میں جرمنی، آسٹریا اور سوئڑرلینڈ میں کیے جانے والے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مینجیروں کی بانسبت وہ ملازم اپنے منصوبے کے تحت چھٹی لے سکے تھے جن کے اوپر کوئی مینیجیریل ذمہ داری نہیں تھی یا یہ کہیں کہ وہ عام ملازم تھے۔
اس ریسرچ میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ جس ملازم پر جتنی ذمہ داری تھی اس پر آفس میں موجود ہونے کا بھی اتنا ہی دباؤ تھا۔
تھیکلا مورگن روتھ کا کہنا ہے کہ ’اس رویے اور نظام کو بدلنا ہوگا۔ یہ بہت اچھی بات ہو گی کہ اگر کمپنیاں ایک والد کو لمبی مدت کے لیے تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دیں، اور انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن جب تک کمپنی کے افسران یہ تاثر نہیں دیں گے کہ مردوں کہ ولادت کی چھٹی سے متعلق پالیسی کا فائدہ اٹھانے کی کوئیسزا نہیں دی جائے گی تب تک کچھ نہیں بدلے گا۔‘
Getty Imagesمردوں کے لیے ولادت کی چھٹی لینا بچوں کی بہتر پرورش کے لیے اہم ہے ان کہے ضوابط
ماہرین متنبہ کررہے ہیں کہ کووڈ 19 کی وبا سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ملازمت کھونے کے ڈر میں اضافے کے بعد چھٹی لینے سے متعلق تشویش میں بھی اضافہ ہو گا۔
گذشتہ مئی کے آخر میں امریکہ میں کیے جانے والے ایکسروے میں 500 والدوں نے حصہ لیا تھا جن میں دو تہائی نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ایک ان کہا سا قانون یہ ہے کہ مرد پیٹرنٹی کی پوری چھٹی نہ لیں اور کم از کم چھٹی لینا بھی بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔
اس سروے میں حصہ لینے والے 90 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنیوں نے 12 ہفتوں سے کم کی پیٹرنٹی لیو کی پیشکش کی تھی لیکن دو تہائی نے چھ ہفتوں کی چھٹی لینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ 58 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ انھیں یہ ڈر تھا کہ اگر وہ چھ ہفتوں کی بھی چھٹی لیتے ہیں تو ان کا کریئر پیچھے چلا جائے گا۔
امریکہ میں کمپنیاں خود اپنے طور پر پیٹرنٹی لیو دیتی ہیں۔ وہاں مردوں کو قانونی طور پر ولادت کی چھٹی نہیں دی جاتی ہے۔ یہی نہیں امریکہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کمپنوں پر خواتین کو بھی بچے کی پیدائش کے بعد چھٹی یعنی 'میٹرنی لیو' دینے کاکوئی قانونی دباؤ نہیں ہے۔
صدر جو بائیڈن نے اس مسئلے کو 'امریکن فیملیز پلان' نامی مجوزہ قانون میں شامل کیا ہے لیکن یہ نہیں معلوم یہ قانون کب منظور ہوگا۔
وبا کے دوران گھر اور بچوں کی ذمہ داریکی وجہ سے لاکھوں خواتین نے اپنی ملازمتیں چھوڑ دی ہیں۔ امریکہ میں افرادی قوت میں خواتین کی حصہ داری 1988 کے بعد سے سب سے کم ہو گئی ہے۔ وبا کے دوران جنس سے متعلق ضوابط اور واضح ہو گئے ہیں۔ معاشی غیر استحکامی کا یہی حال رہا جو ہے تو ایسے میں مردوں کے لیے دفتر سے چھٹی لینا مزید مشکل ہوجائے گا۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف مینچیسٹرز ورک اینڈ اکوالیٹیز انسٹی ٹیوٹ کی پروفیسر ایما بینسٹر کا کہنا ہے کہ ’دفاتر میں خواتین اور مردوں میں غیر برابری تب تک جاری رہے گی جب تک یہ تصور ختم نہ ہو کہ بچے کی پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پر خواتین کی ہے۔ موجود پالیسیاں اس تاثر کو چیلنج کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
’جیسے زچگی کی چھٹیاں لینا کوئی جرم ہو‘
ہم دفتر سے ضروری چھٹیاں کیوں نہیں لے پاتے؟
سویڈن: ایسا ملک جہاں بیمار بچے کی دیکھ بھال پر والدین کو تنخواہ ملتی ہے
محقیقین نے پیٹرنٹی لیو لینے کے فوائد کو بھی اجاگر کیا۔ سنہ 2019 میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپر میں یہ بات کہی گئی کہ پیدا ہونے کے نو برس بعد بھی وہ بچے اپنے والد سے قریب تھے جنھوں نے پیدائش کے بعد دو ہفتے کی بھی چھٹی لی تھی بانسبت ان باپوں کے جنھوں نے پیٹرنٹی لیو نہیں لی تھی۔
ایک مختلف ریسرچ پیپر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شادی شدہ مرد خواتین کے جوڑے میں سے اگر والد نے بچے کی پیدائش کے بعد ولادت کی چھٹی لی ہے تو ان کے درمیان طلاق کا امکان بچے کی پیدائش کے چھ برس بعد تک ملتوی ہو جاتا ہے۔
بعض ممالک نے مردوں کے لیے پیٹرنٹی لیو سے متعلققانون میں مثبت تبدیلی کرکے اسے بہتر بنایا ہے۔ سویڈن میں دونوں والدین فی بچے کی پیدائش پر مشترکہ طور پر 480 دن کی تنخواہ کے ساتھ ولادت کی چھٹی لے سکتے ہیں۔ ماں اور والد دونوں اپنی چھٹیاں ایک دوسرے کو منتقل کرسکتے ہیں لیکن دونوں کو کم ازکم 90 دن کی چھٹیاں خود لینی ہوں گی۔
سنہ 2008 سے 2017 تک بچوں کی پیدائش پر مردوں کو زیادہ چھٹی لینے پر مائل کرنے کے لیے خاندانوں کو اتنے دن کا بونس دیا گیا تھا جتنے دن کیچھٹیاں والدین ایک دوسرے کے ساتھ برابر شیئر کرسکتے تھے۔
یہ پالیسی کامیاب ثابت ہوئی ہے اور سنہ 2019 میں کیے گئے ایک سروے سے یہ معلوم ہوا کہ سویڈین میں 90 فیصد مردوں نے اس پالیسی کا فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے اپنی کل چھٹیوں کی 96 فیصد چھٹیاں لیں۔ سویڈین ان ترقی پسند معیشتوں میں شامل ہے جہاں ورک فورس میں خواتین کی شمولیت قابل ستائش ہے۔
Getty Imagesبرابری والے سماج کی حمایت
پروفیسر بینسٹر کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واضح اور تفصیلی قوانین کی غیر موجودگی میں کمپنیوں کے مالکان کو یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ ملازموں کے جنس اور جنسی رجحان کی پرواہ کیے بغیر بچے کی پیدائش یا اس کو گود لینے کے شروعاتی ایک برس میں چھٹی لینے کا عمل معمول کی بات ہو۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ پیٹرنٹی لیو لینے میں جو روکاٹیں، ہچکچاہٹیں ہیں وہ کم ہو سکیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ چھٹی دیتے وقت بعض مخصوص باتوں کا خیال رکھنا ہو گا، مثال کے طور چھٹی کا وقت۔ بچے کی پیدائش کے بعد کمپنیوں کی جانب سے کم تنخواہ یا بغیر تنخواہ کے دی جانے والیچھٹی اکثر بچے کی پیدائش کے شروعاتی مہینوں میں دی جاتی ہیں جب ماں کے لیے گھر پر رہنا بہتر ہوتا ہے اور وہ بچے کو دودھ پلاتی ہیں۔
لیکن اگر کمپنیاں بچے کی پیدائش کے وقت دی جانے والی چھٹیوں کے ساتھ ساتھ 'سبسڈائزڈ پرینٹل لیو' کے لیے اچھی تنخواہ دیں چاہے وہ یہ چھٹی کبھی بھی لی جائے تو اس سے والدین کو بہت فائدہ ہوگا۔
پروفیسر بینسٹر کا کہنا ہے کہ مردوںکے لیے چھٹی یا معاشی سپورٹ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ امریکہ کی طرح بچے کی پیدائش کے بعد مردوں کو چھٹی دینے کی ذمہ داری کمپنیوں پر چھوڑ دینے سے ' ٹو ٹیئر سسٹم' (دو سطحی نظام) بنے گا جہاں صرف بعض سیکٹر پیٹرنٹی لیو کی پیش کش کرتے ہیں۔
تمام طرح کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئے ہے کہ والدوں کو ولادت کی چھٹی لینے میں جو روکاٹیں ہین انھیں ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے بہتر اور واضح قوانین ضروری ہیں جو کہ عام روایات اور جنس سے متعلق دقیانوسی تصوارت کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
پروفیسر بینسٹر کا کہنا ہے کہ 'حکومت کو ایسی مراعات یا پیکیجز متعارف کرانے ہونگے جن سے اس طرح کے رویے کو فروغ ملے جو جنسی برابری والے سماج کی حمایت کرتے ہوں۔'