ہنی ٹریپ: ماتا ہری سے جُڑی فوجی افسران کی جاسوسی کی روایت جس نے انڈیا کو ’پریشان‘ کیا ہے

بی بی سی اردو  |  May 07, 2023

Getty Images

انڈین ریاست مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے رواں سال پانچ مئی کو ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ایک سائنسدان کو گرفتار کیا۔

ان پر پاکستان کے لیے مبینہ طور پر جاسوسی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اے ٹی ایس نے کہا ہے کہ ’یہ ’ہنی ٹریپ‘ کا معاملہ ہے اور پردیپ کورولکر نامی ایک سینیئر سائنسدان، جو پونے میں کام کرتے تھے، ایک پاکستانی ایجنٹ سے واٹس ایپ اور ویڈیو کالز کے ذریعے رابطے میں تھے۔‘

اس معاملے کی تحقیقات جاری ہے لیکن اس سے پہلے ’ہنی ٹریپ‘ سے متعلق کچھ اہم سوالات کے جوابات جاننے کی ضرورت ہے۔

اہم اس لیے بھی ہے کہ اس قسم کا معاملہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔

چند ماہ قبل یعنی نومبر 2022 میں دلی پولیس نے مبینہ طور پر انڈین وزارت خارجہ کے لیے کام کرنے والے ایک ڈرائیور کو اس وقت گرفتار کیا جب سکیورٹی ایجنسیوں نے پولیس کو الرٹ کیا کہ ڈرائیور 'ہنی ٹریپ' ہو کر ’پاکستان میں کسی کو خفیہ معلومات فراہم کر رہا تھا۔‘

'ہنی ٹریپ' کیا ہے؟

جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور 'ہنی ٹریپ' جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد بہت مشہور ہوئی تھیں۔

نیدرلینڈ کی مارگریٹ میکلوڈ جو ’دلکش‘ تھیں اور رقص کے فن میں مہارت رکھتی تھیں۔ انھیںایک فرانسیسی فائرنگ سکواڈ نے جرمن افواج کے لیے مبینہ طور پر جاسوسی کرنے اور فرانسیسی-برطانوی افسران کے قریب ہو کر معلومات اکٹھی کرنے کے لیے گولی مار دی تھی۔

ماتا ہری مشہور ناول نگار پاؤلو کوئلو کے ناول 'دی سپائی' میں مرکزی کردار ہیں۔ ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ 'جب ماتا ہری پیرس پہنچیں تو ان کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن جلد ہی وہ پیرس کے معاشرے کی سب سے زیادہ فیشن ایبل اور پرکشش خواتین میں سے ایک بن گئیں۔ زیادہ تر افسران یا فوجی ان کے ساتھ اپنی دوستی کے قصے سناتے نہیں تھکتے تھے۔‘

اگرچہ تاریخ کے مطابق ماتا ہری پر ’ہنی ٹریپ‘ کے الزامات کبھی بھی پوری طرح سے ثابت نہیں ہوسکے لیکن پھر بھی انھیں فرانسیسی حکومت نے سزا دی کیونکہ یہ معاملہ مبینہ طور پر انتہائی خفیہ دستاویزات کے دشمن تک پہنچنے کا تھا۔

درحقیقت 'ہنی ٹریپنگ' کا عمل رومانوی یا جنسی تعلق بنا کر ہدف سے معلومات نکالنا ہے۔ یہ معلومات یا تو بڑی رقم کے لین دین کے لیے استعمال ہوتی ہیں یا پھر سیاسی وجوہات کی بناء پر ان میں جاسوسی شامل ہوتی ہے۔

پچھلی دو دہائیوں میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں 'ہنی ٹریپ' کے کئی کیسز بھی سامنے آئے ہیں، جہاں غیر قانونی وصولی یا بلیک میلنگ کے الزامات عائد کیے گئے۔

کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ’ہنی ٹریپ (یا میٹھا جال) لوگوں کو پھنسانے کے لیے پرکشش چیز ہے۔ ہنی ٹریپس کو جاسوسی کے حوالے سے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘

جاسوسی کے لیے ’ہنی ٹریپ‘

دوسرے ممالک سے پہلے انڈیا میں ہنی ٹریپ کی بات کرتے ہیں۔

ایک بہت مشہور کہانی بی رمن کی کتاب ’دی کاو بوائز آف را: ڈاؤن میموری لین‘ میں اس جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس کے مطابق ماسکو میں تعینات ایک نوجوان انڈین سفارت کار کو ایک روسی رقاصہ سے پیار ہو جاتا ہے۔

جب روس کی انٹیلیجنس ایجنسی کے جی بی نے اس ڈانسر کے ذریعے اس سفارت کار سے کچھ معلومات لینا چاہی تو اس نے صاف انکار کر دیا اور دلی آ کر وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو ساری بات بتا دی۔

سفارت کار کو زیادہ محتاط رہنے کی تنبیہ کے ساتھ معاف کر دیا گیا لیکن اس کے بعد سے انڈین فارن سروس کے تمام افسران کو ’دوسرے ممالک میں ایسے کسی بھی فتنے سے بچنے کی ہدایت دی گئی، جو آج تک جاری ہے۔‘

برطانوی مؤرخ رچرڈ ڈیکن اپنی کتاب ’سپائیکلوپیڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سرد جنگ کے دوران روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی میں ’موزنو‘ نامی خاتون جاسوسوں کو غیر ملکی حکام سے رابطہ کرنے، ان سے تعلقات قائم کرنے اور پھر انٹیلیجنس دستاویزات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘

سنہ 2009 اور 2010 کے درمیان غیر ملکی جاسوسوں کے حوالے سے امریکہ اور برطانیہ میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ہنی ٹریپ: وہ ’دلفریب‘ جال جس میں پھنس کر لوگ خود کچے کے ڈاکوؤں تک پہنچ جاتے ہیں

چین کا جاسوسی کا عالمی نیٹ ورک: اہم شخصیات سے کام لینے کے لیے انھیں کیسے ’پھنسایا‘ جاتا ہے؟

ماتا ہری: مشہور جاسوسہ جنھوں نے سزائے موت سے قبل آنکھوں پر پٹی بندھوانے سے انکار کیا

ماتا ہری: ڈانسر سے جاسوس بننے والی خاتون، جن کی زندگی ایک صدی بعد بھی معمہ ہے

معروف فارن پالیسی جریدے نے لکھا کہ ’ایم آئی 5 (برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسی) جنسی تعلقات کے بارے میں فکر مند ہے۔ گذشتہ سال اس نے برطانوی بینکوں، بڑے کاروباری اداروں اور مالیاتی اداروں پر 'چینی جاسوسی کے خطرے‘ کے عنوان سے 14 صفحات پر مشتمل دستاویز شائع کی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ چینی جاسوس مغربی تاجروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں جن کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا جا سکتا ہے اورپھر انھیں بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔

امریکی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ بھی تیار کی گئی تھی جس میں اس کا واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

Getty Imagesپریس انفارمیشن سیکرٹری مادھوری گپتا کی موت کے بعد ان کا معاملہ ختم ہواانڈیا میں ’ہنی ٹریپ‘

1980 کی دہائی میں انڈیا میں مبینہ 'ہنی ٹریپ' کا معاملہ اس وقت بہت زیادہ سرخیوں میں آیا جب ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (را) کے ایک افسر کے وی اننی کرشنن پر امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے جاسوس کے ذریعے 'ہنی ٹریپ' ہونے کا الزام لگا تھا۔

اطلاعات کے مطابق یہ خاتون جاسوس پین ایم ایئرویز میں ایئر ہوسٹس تھیں۔

کے وی اننی کرشنن ان دنوں چنئی میں را کی برانچ میں تعینات تھے اور وہ مبینہ طور پر ایل ٹی ٹی ای کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

1987 میں انڈیا اور سری لنکا کے درمیان امن معاہدے سے کچھ عرصہ قبل کے وی اننی کرشنن کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

سنگاپور یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور سفارت کاری کے پروفیسر کے پی باجپئی کے مطابق: ’سیٹلائٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے دور سے پہلے تو جاسوسی صرف انسانوں کے ہی ذریعے ہو سکتی تھی۔ غیر ملکی پوسٹنگ پر بہت کم لوگ جاتے تھے اس لیے دوسرے ممالک اس کی پروفائل کے مطابق اچھی تیاری کرتے تھے۔

حالیہ دہائیوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تعینات انڈین فارن سروس کی پریس انفارمیشن سیکرٹری مادھوری گپتا کا معاملہ اس وقت اہمیت کا مرکز بن گیا جب 2010 میں دہلی پولیس کے سپیشل سیل نے ان پر 'پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی' کو حساس معلومات فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ انھیں اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سنہ 2018 میں ایک ذیلی عدالت نے انھیں تین سال کی سزا سنائی لیکن ساتھ ہی انھیں ضمانت پر رہا بھی کر دیا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا: ’مادھوری گپتا نے وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے افسران اور ان کے خاندان کے افراد کی پاکستانی جاسوسوں کو تعیناتی کی معلومات دی تھیں۔‘

بہرحال 2021 میں 64 سالہ مادھوری گپتا کی موت کے بعد یہ معاملہ بھی ختم ہوگیا۔ ویسے انڈیا نے 'ہنی ٹریپ' کے بڑھتے ہوئے معاملات پر مزید چوکنا رہنے کی بات کو بار بار دہرایا ہے۔

مثال کے طور پر سنہ 2019 میں راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، وزیر مملکت برائے دفاع شریپد نائک نے کہا: ’پاکستان کی آئی ایس آئی ایجنسی انڈین افواج کے افسران کو 'ہنی ٹریپ' کرنے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ سبھی کو مزید الرٹ کرنے کی ضرورت ہے۔'

بہر حال اس معاملے کے چند ماہ بعد انڈین فوج نے اپنے اہلکاروں کو اپنے موبائل فونز سے فیس بک، ٹک ٹاک، ٹروکالر اور انسٹاگرام سمیت 89 ایپس کو ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More