جب ٹک ٹاک نے برطانوی صحافی کی جاسوسی کے لیے ان کی ’بلی کا اکاؤنٹ‘ استعمال کیا

بی بی سی اردو  |  May 07, 2023

کرسمس سے دو روز قبل ٹک ٹاک نے لندن کی صحافی کرسٹینا کریڈل کو بتایا کہ کمپنی کے چین میں موجود دو ملازمین اور دو امریکی ملازمین نے اُن کی اجازت یا علم میں لائے بغیر کرسٹینا کے ذاتی اکاؤنٹ کا ڈیٹا حاصل کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ بہت خوفناک تھا اور ذاتی طور پر بڑی خلاف ورزی تھی۔‘

’میں اپنی نوجوان بہن اور کزنز کے ساتھ اپنے آبائی گھر میں تھی جو ہر وقت ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا ’کیا ہمیں بھی پریشان ہونا چاہیے؟‘

کرسٹینا فنانشل ٹائمز کی نامہ نگار برائے ٹیکنالوجی ہیں اور میری پرانی کولیگ رہ چکی ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ وہی ہے جس کی ٹک ٹاک اور اس کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس ماضی میں تردید کرتے آئے ہیں۔ اسی لیے کرسٹینا نے اپنی کہانی بی بی سی کو بتانے کا فیصلہ کیا۔

’مجھے خطرہ محسوس ہوا‘

ٹک ٹاک نے تصدیق کی کہ اس کے انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے ارکان نے کرسٹینا کے آئی پی ایڈریس سے ان کی لوکیشن حاصل کی۔ آئی پی ایڈریس سے مراد ڈیوائس کا مخصوص نمبر ہوتا ہے جس میں صارفین کی معلومات موجود ہوتی ہے۔

انھوں نے اس معلومات کا موازنہ اپنے عملے میں ایک نامعلوم نمبر کی آئی پی ڈیٹا سے کیا تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ آیا کمپنی میں کون خفیہ طور پر صحافیوں سے ملاقات کر رہا ہے۔

ٹک ٹاک کے ملازمین نے ایسا کرتے ہوئے ’اختیارات سے تجاوز کیا‘ اور انھوں نے حکام بالا سے اجازت نہیں لی تھی۔

کرسٹینا کو معلوم نہیں کہ انھیں کتنی دیر تک اور کتنی بار ٹریک کیا گیا۔ تاہم انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ گذشتہ موسم گرما کے دوران ہوا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری لوکیشن 24 گھنٹے مانیٹر ہو رہی تھی۔ یہ محض میرے کام کی جگہ تک محدود نہیں تھی۔ اگر بات یہاں تک بھی رہتی تو یہ صحیح نہ ہوتا۔ بلکہ انھوں نے میری ذاتی زندگی کی بھی نگرانی کی، جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی تھی، یا کسی چھٹی پر جا رہی ہوتی تھی۔ اس معلومات میں یہ سب شامل ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اصل خطرہ اسی میں ہے کہ میں بس اپنا کام کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔‘

کرسٹینا کا ٹک ٹاک کا اکاؤنٹ ان کے ذاتی موبائل فون پر، ان کی بلی ’بفی‘ کے نام سے تھا۔ بایو (تفصیل) میں ان کا نام یا پیشہ درج نہیں تھے۔

ان کے 170 فالوورز تھے اور تین سال میں انھوں نے بفی کی قریب بیس ویڈیوز اپ لوڈ کی تھیں۔ ان ویڈیوز کو سینکڑوں بار دیکھا جا چکا تھا۔

دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی طرح ٹک ٹاک صارفین کے اکاؤنٹس سے کافی معلومات جمع کرتا ہے، جیسے:

لوکیشن ڈیٹالائیکساستعمال کی جانے والی ڈیوائس پلیٹ فارم کے باہر آن لائن سرگرمیاں

ٹک ٹاک کا دعویٰ ہے کہ مغربی صارفین کے ڈیٹا تک چین کے اندر سے رسائی نہیں کی جاتی، نہ ہی اسے چین میں محفوظ کیا جاتا ہے۔

گذشتہ سال کرسٹینا سمیت دیگر مغربی صحافیوں کا ڈیٹا چرانے کے الزام میں عملے کے کچھ لوگوں پر جرمانے عائد کیے گئے تھے۔

بائٹ ڈانس (ٹک ٹاک کی مالک کمپنی) نے اس ’بڑی خلاف ورزی‘ پر ’گہرے افسوس‘ کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

سوشل میڈیا، وہ دہائی جس نے زندگیاں بدل دیں: فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک کے عروج کی کہانی

کیا چینی جاسوس ٹک ٹاک ایپ کے ذریعے آپ کی ’برین واشنگ‘ کر سکتے ہیں؟

شاؤ زی چیو: ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو، جو اپنے بچوں کو یہ ایپ استعمال نہیں کرنے دیتے

’ٹریس کرنے کے لیے بڑی محنتکرنا پڑی ہو گی‘

گذشتہ سال کرسٹینا ٹک ٹاک کے ان ملازمین سے بات چیت کر رہی تھیں جو اپنی کمپنی کے اقدامات سے ناخوش تھے۔ ٹک ٹاک کا کہنا تھا کہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے والے ملازمین کرسٹینا کے ذرائع کا پتا چلانے میں ناکام رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سے یورپی یونین کی سخت پالیسی ’جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن‘ کی خلاف ورزی ہوئی جس میں صارفین سے ان کی ڈیٹا کے استعمال کے حوالے سے آگاہ کرنا اور اجازت لینا ضروری ہے۔ خلاف ورزی پر کمپنیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔

ابھی کے لیے کرسٹینا نے اپنا اکاؤنٹ اوپن ہی رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ کام کے سلسلے میں ٹک ٹاک تک رسائی رکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن اب انھوں نے یہ ایپ ایک ڈمی موبائل فون پر رکھی ہوئی ہے جس کو کام کی جگہ تک محدود رکھا جاتا ہے۔

اس واقعے کے بعد سے انھوں نے اپنا اور اپنی بلی بفی کا سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی حفاظت کے لیے سوچنے لگی ہوں، خاص کر ڈیجیٹل سیفٹی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں اب بہت محتاط رہتی ہوں۔ مجھے یقینی بنانا ہوگا کہ میری ڈیوائسز ٹریک نہیں ہو رہیں۔ مجھے یہ دیکھنا ہوگا کہ میرے ذرائع بھی اپنے تحفظ کے بارے میں آگاہ رہیں۔‘

سری یونیورسٹی میں سائبر سکیورٹی کے ماہر پروفیسر ایلن وڈورڈ کا کہنا ہے کہ اس سطح کی ٹریکنگ جسے حادثاتی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی ایک واقعے تک محدود رکھا جاسکتا ہے۔

’کسی کو یہ جاننے کے لیے محنت کرنی پڑی ہوگی کہ بلی کا اکاؤنٹ درحقیقت کرسٹینا چلا رہی تھیں۔‘

ٹک ٹاک امریکہ میں اپنی بقا کے لیے لڑ رہا ہے۔ کئی ملکوں میں ٹک ٹاک سرکاری ڈیوائسز پر انسٹال کرنا منع ہے۔

بائٹ ڈانس کا ہیڈکوارٹر بیجنگ میں ہے تاہم اس نے یورپ اور امریکہ میں بھی اپنے دفاتر کھول رکھے ہیں۔ ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ چینی ریاست کی درخواست پر ٹک ٹاک مغربی صارفین کا ڈیٹا ان سے شیئر کر سکتا ہے۔

اس سب کے باوجود ٹک ٹاک ایک مشہور ایپ ہے جسے دنیا بھر میں 3.5 ارب مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More