Getty Images
کیا آپ کو وہ آخری ون ڈے ورلڈ کپ یاد ہے جب پاکستان ٹیم ٹورنامنٹ سے کئی ماہ پہلے ہی فیورٹ قرار دے دی گئی تھی؟
شاید آپ کا جواب سنہ 2003 کا ورلڈ کپ ہو جس میں انڈیا سے شکست کے بعد وسیم، وقار، سعید انور، انضمام، شعیب، شاہد آفریدی جیسے کھلاڑیوں پر مبنی پاکستان ٹیم پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئی تھی۔
اس ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کے اکثر لیجنڈ کرکٹرز اپنے عروج کے دن گزار چکے تھے اور ریٹائرمنٹ کے قریب تھے، اس لیے شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سنہ 1999 وہ آخری ورلڈ کپ تھا جب پاکستان کی صحیح معنوں میں ’ڈریم ٹیم‘ آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ کپ فائنل میں شکست کھا گئی۔
دو دہائیوں میں اب دوبارہ ایک ایسا موقع آیا ہے کہ ابھی ورلڈ کپ شروع ہونے میں پانچ ماہ باقی ہیں اور پاکستانی شائقین کو ٹیم پر بھروسہ ہے کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے فیورٹ ٹیموں میں سے ہے۔
ان دو دہائیوں میں یہ ٹیم کئی مرتبہ پاکستانی مداحوں کے دل دکھا چکی ہے اور انھیں صدموں سے دوچار کر چکی ہے۔
سنہ 2007 میں بھی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونے کا صدمہ ہو یا سنہ 2011 موہالی میں انڈیا سے سیمی فائنل ہارنے کا رنج۔ سنہ 2015 میں کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد سنہ 2019 میں بھی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونا، دکھوں کا وہ تسلسل ہے جو کسی کے لیے بھی سہنا مشکل ہے۔
تاہم اس مرتبہ پاکستان ٹیم سے امید لگانے والے مداحوں کے پاس آئی سی سی ون ڈے رینکنگز میں ٹیم کا سرِفہرست ہونے کا جواز بھی ہے۔
یہ پوزیشن پاکستان نے گذشتہ رات نیوزی لینڈ کو سیریز میں چار صفر سے شکست دے کر حاصل کی ہے اور یہ ون ڈے میں رینکنگ سسٹم آنے کا بعد پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان اس درجہ بندی میں سرِفہرست آیا ہو۔
بیٹنگ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کے ٹاپ تھری یعنی فخر زمان، امام الحق اور بابر اعظم تینوں ہی آئی سی سی ون ڈے بیٹنگ رینکنگ میں پہلے پانچ درجوں پر ہیں۔ ون ڈے کرکٹ میں تیز ترین پانچ ہزار رنز مکمل کرنے والے بابر اعظم پہلے، فخر زمان دوسرے جبکہ امام الحق پانچویں نمبر ہیں۔
فاسٹ بولنگ پر نظر دوڑائیں تو حارث رؤف، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور ان کے بیک اپ بولرز جیسے محمد وسیم جونیئر اور احسان اللہ بھی اچھی فارم میں ہیں۔
سپن آلراؤنڈرز میں شاداب خان اور محمد نواز انڈین پچزکے لیے موزوں ہیں اور گذشتہ کئی میچوں سے لیگ سپنر اسامہ میر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح مڈل آرڈر میں محمد رضوان اور سلمان علی آغا کی بہترین کارکردگی بھی حوصلہ افزا رہی ہے اور ڈومیسٹک کے اعداد و شمار کے مطابق ون ڈے کرکٹ افتخار احمد کا فیورٹ فارمیٹ ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ شاید اس حوالے سے تجزیے قبل از وقت اس لیے بھی ہیں کیونکہ پاکستان نے سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سے اب تک بہت کم ون ڈے کھیلیں ہیں اور پاکستان کی موجودہ کارکردگی نیوزی لینڈ کی ایک کمزور ٹیم کے خلاف ہے۔
ایسے میں مداحوں کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ سے امیدیں لگانا تو ٹھیک ہے لیکن کیا ابھی ٹیم میں مزید بہتری کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں ہم نے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان طفیل ارباب اور صحافی عمر فاروق کالسن سے تفصیل سے بات کی ہے۔
Getty Images’سرِ فہرست آنا خوش آئند ہے لیکن یہ تھوڑے وقت کے لیے ہو سکتا ہے‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان ارباب نے کہا کہ پاکستان کے آئی سی سی رینکنگ میں سرِفہرست آنے کے حوالے سے فی الحال محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
’یہ بہت خوش آئند بات ہے لیکن رینکنگز اکثر کچھ دیر کے لیے ہوتی ہیں۔ کچھ عرصے میں دوسری ٹیمیں کرکٹ کھیلنا شروع کریں گی اور صورتحال بدل جائے گی۔
’لیکن اس وقت یہ رینکنگ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی ٹیم گذشتہ ایک سال سے بہت اچھی پوزیشن میں ہے اور جو سوالات اس ٹیم کے بارے میں کچھ عرصے پہلے تک لوگوں کے ذہنوں میں تھے، جیسے مڈل آرڈر سے متعلق، وہ اب اچانک سے حل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جب ہر رول کے لیے ہمارے پاس کھلاڑی موجود ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عام طور پر جو ہماری پلیئنگ الیون ہوتی ہے اور جو متبادل کھلاڑی ہوتے ہیں ان کے ٹیلنٹ اور معیار میں بہت فرق ہوا کرتا تھا، تاہم اب ایسا نہیں ہے۔‘
صحافی عمر فاروق کالسن کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے پاس اس وقت جو 16 کھلاڑیوں کا سکواڈ ہے وہ تو بہترین ہے، یہ ان کا ریکارڈ بھی بتاتا ہے لیکن عموماً پاکستان کے ساتھ جو مسئلہ پیش آتا ہے وہ 11 کھلاڑیوں کے حوالے سے صحیح کامبینیشن بنانے کا ہے جو ابھی تک ہم حل نہیں کر سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ’ابھی ہمارے پاس 11 کے اعتبار سے پوری تیاری نہیں ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں اوورز زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے ہر پوزیشن کے لیے سپیشلائزڈ کھلاڑی ہوتا ہے، ابھی تک ہمارے مڈل آرڈر میں کچھ مسائل ہیں جو ورلڈ کپ سے پہلے ہمیں دور کرنے ہیں۔‘
تاہم عمر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ورلڈ کپ جیتنے کے لیے ٹاپ فور فیورٹ ٹیموں میں ضرور شامل ہے۔‘
Getty Images’پاکستانی کرکٹرز کی گولڈن جنریشن جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں‘
خیال رہے کہ عموماً ورلڈ کپ کے سال میں پاکستان کرکٹ تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے اور اس دوران کپتانی کے حوالے سے بھی بحث جاری رہتی ہے۔
سنہ 2011 اور سنہ 2015 کے ورلڈکپ سے قبل شاہد آفریدی اور مصباح الحق کی کپتانی سے متعلق تنازع چلتا رہا تھا، جبکہ سنہ 2003 کے ورلڈ کپ سے قبل یہی کشمکش وسیم اکرم اور وقار یونس کے درمیان تھی۔
اس مرتبہ بھی افغانستان کے خلاف سیریز سے قبل ایسی خبریں گردش کرنے لگی تھیں جن میں بابر اعظم کی کپتانی کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے تھے اور اس حوالے سے پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کے بیانات بھی حوصلہ افزا نہیں تھے۔
تاہم پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے اس دوران بابر اعظم کے لیے ہمت کے پیغامات سے یہ تاثر زائل ہوا اور اب نیوزی لینڈ سے سیریز جیتنے کے بعد بابر اعظم کو ورلڈ کپ سے قبل کپتانی سے ہٹانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔
عمر فاروق اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ورلڈ کپ سے قبل اس طرح کا ماحول بنانے سے ٹیم کی تیاری پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ ’ہم پریس کانفرنسز کی حد تک تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم ورلڈکپ کو نظر میں رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ ہم ایک اچھا سکواڈ ہونے کے باوجود بڑے ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ سٹیج پر جا کر رہ جاتے ہیں جیسے پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس میں ہوا ہے۔‘
ایمان طفیل اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پی سی بی نے اس مرتبہ بھی ورلڈکپ سے پہلے کوشش نہیں کی پاکستان ٹیم میں تبدیلیاں کرنے کی۔ شاہد آفریدی کے سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بننے پر ہم سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہو گا۔
’پھر شان مسعود کو نائب کپتان بنانے کی چہ مگوئیاں شروع ہوئیں لیکن اس ٹیم کی خوبی یہی ہے کہ یہ اس موقع پر متحد رہی ہے اور یہ کپتان کا اور ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے ہیں۔‘
ایمان طفیل کہتی ہیں کہ ’ہماری نسل نے پہلی مرتبہ کرکٹرز کی اس گولڈن جنریشن کی وجہ سے اس ٹیم پر اعتماد کرنا شروع کیا ہے، یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ٹیلنٹڈ ہیں اور اس وقت ایک ایسی ٹیم بن چکی ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘
Getty Imagesاگر ایشیا کپ نہ ہو سکا تو؟
’گولڈن جنریشن‘ اس ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے گذشتہ کچھ سالوں سے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ٹیم ان بلندیوں تک پہنچی ہے جس تک پچھلی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں اور بظاہر ان کے درمیان اچھی ہم آہنگی بھی بتائی جاتی ہے۔
پاکستانی کرکٹزز کی یہ جنریشن پی ایس ایل کے آغاز کے بعد سے منظرِ عام پر آئی اور ان میں سے اکثر پاکستانی ٹیم میں اسی کی بدولت شامل ہوئے۔
تاہم پاکستان کرکٹ سنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد سے باقی ٹیموں کے مقابلے میں کافی کم ون ڈے کھیلیں ہیں۔ سنہ 2019 کے بعد سے پاکستان نے اب تک صرف 27 ون ڈے کھیلیں ہیں۔ اس دوران افغانستان کے علاوہ باقی تمام ٹیموں نے اس سے زیادہ ون ڈے کھیل رکھے ہیں۔
پاکستان کے لیے تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ ون ڈے ورلڈ کپ تک اس کی صرف افغانستان کے ساتھ ون ڈے سیریز اور ایشیا کپ شیڈول ہے۔ تاہم ان دونوں کے حوالے سے تاحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ منعقد ہو سکیں گے یا نہیں۔
عمر فاروق کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ یہ ایشیا کپ میں شامل دیگر ٹیموں کے بھی مفاد میں ہے کہ وہ ورلڈ کپ سے پہلے ایک بڑے ٹورنامنٹ کا حصہ ہوں۔
’میرے خیال میں ٹورنامنٹ آخرکار ہو جائے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پاکستان کا کسی بڑی ٹیم کے ساتھ کھیلنا اس ٹیم کے اس وقت مصروف نہ ہونے پر ہے جو میرے خیال میں مشکل ہو گا۔‘
ایمان طفیل کہتی ہی کہ ’جب آپ ون ڈے کرکٹ کے لیے ٹیم بنانے لگتے ہیں تو آپ کو کچھ چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں جن میں آپ کو ہر بیٹنگ پوزیشن اور رول کے لیے کوئی کھلاڑی سیلیکٹ کرنا ہوتا ہے اور پھر اس کا بیک اپ دیکھنا ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تمام پوزیشنز کے لیے کھلاڑی اور ان کے بیک اپ موجود ہیں۔
’لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں گیم ٹائم کی ضرورت نہیں ہے اس کی اپنی اہمیت ہے۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ اگر ایشیا کپ اور افغانستان کے ساتھ سیریز نہیں ہو پاتی تو پی سی بی آنے والے دنوں میں کوئی سیریز منعقد کروا دے گا۔‘
Getty Images’ٹاپ آرڈرکے کھلاڑیوں سے مڈل آرڈر کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا‘
صحافی عمر فاروق اس بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاکستان نے تاحال مڈل آرڈر میں رول کے حساب سے کھلاڑی نہیں کھلائے جس کی وجہ سے ابھی تک ہمارا مڈل آرڈر کا مسئلہ برقرار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ نمبر چار پر اوپنرز کو کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ اگر حارث سہیل زخمی نہ ہوتے تو افتخار احمد تو اس ٹیم کا حصہ ہی نہیں تھے جو اس فارمیٹ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھاتے رہے ہیں۔‘
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ایک فارمیٹ کی بنیاد پر دوسرے فارمیٹ میں کھلاڑی کو ڈراپ کرنے یا سیلیکٹ کرنے کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انھوں نے خوشدل شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انھیں بھی ٹی ٹوئنٹی میں ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ون ڈے سے نکالا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب آپ کو ایک سے لر کر چھٹے ساتویں نمبر تک کھلاڑیوں کو ان کے رولز سے آگاہ کر دینا چاہیے اور انھیں آئندہ گیم ٹائم دینا چاہیے۔
ایمان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں آغا سلمان نے بہت اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور لوگ انھیں ہلکا لے رہے ہیں، وہ پاکستان کے لیے مڈل آرڈر میں مسائل کا حل بن کر سامنے آئے ہیں۔
’اسی طرح رضوان بہت اچھا کھیل رہے ہیں اور محمد حارث اور افتخار احمد کی شکل میں آپ کے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو میچ فنش کر سکتے ہیں۔‘
وہ بھی شان مسعود اور عبداللہ شفیق کو نمبر چار پر آزمانے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آتی، شاید یہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اگر کسی میچ میں ہمارے ٹاپ تھری جلدی آؤٹ ہو جائیں تو ایک ایسا کھلاڑی موجود ہو جو اننگز کو ازسرِ نو تعمیر کر سکے، لیکن اس رول میں سلمان آغا اور رضوان کو بھی آزمایا جا سکتا ہے۔
’عبداللہ شفیق اور شان مسعود دونوں کو بیک اپ اوپنر کے طور پر تو دیکھا جا سکتا ہے، لیکن مڈل آرڈر میں ان کے رول پر سوال موجود رہے گا۔‘
تو کیا آنے والے مہینوں میں پاکستان کو اس کے مڈل آرڈر کے مسئلے کا مستقبل حل مل سکے گا؟ صحافی عمر فاروق کے مطابق اس کا حل اسی سکواڈ میں ہے لیکن مینجمنٹ اسے ٹاپ آرڈر کے کھلاڑیوں میں تلاش کر رہی ہے۔