Getty Images
جب شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کے دوران انڈین وزیرخارجہ ایس جے شنکر پاکستان کا نام لیے بغیر کراس بارڈر دہشت گردی کے خلاف تمام رکن ممالک کو متحد ہونے کی اپیل کر رہے تھے، اس وقت ہی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے راجوری ضلع میں ایک سرچ آپریشن کے دوران مسلح شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں پانچ انڈین فوجی ہلاک ہو گئے۔
اس سے قبل 20 اپریل کو راجوری ہی سے ملحقہ ضلع پونچھ کے طوطا گلی بھاٹا دُوریاں علاقے میں ایک فوجی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں بھی پانچ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
ان دونوں حملوں کی ذمہ داری ’پیپلز اینٹی فاشسٹ فورس‘ یا پی اے ایف ایف نے قبول کی ہے۔ پی اے ایف ایف کے بارے میں فوج اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستانی حمایت یافتہ مسلح تنظیم جیش محمد کا ’فرنٹ‘ ہے۔
جمعہ کے روز ہوئے حملے کے بارے میں پولیس نے بتایا کہ ’گذشتہ ماہ ہوئے حملے میں ملوث دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے وسیع پیمانہ پر سرچ آپریشن جاری تھا اور اسی دوران دہشت گردوں نے بارودی دھماکہ کیا جس میں موقع پر ہی دو فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ افسرسمیت چار زخمی ہوئے۔ ہسپتال میں مزید تین فوجیوں کی موت ہوگئی۔‘
حکام کے مطابق سرچ آپریشن کو مزید تیز کیا گیا ہے اور آپریشن اب بھی جاری ہے۔
کیا یہ شدت پسندی کا نیا دور ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دو بڑے حملوں میں مجموعی طور پر 10 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیرانتظام جموں اور کشمیر کے حالات سے متعلق انڈین حکومت کے نئے بیانیے کو چیلنج کا سامنا ہے۔
راجوری کے رہائشی اور معروف صحافی و تجزیہ نگار ظفر چودھری نے بی بی سی کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران بتایا کہ ’پانچ اگست 2019 کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پہلی مرتبہ وادی میں شدت پسندی پر قابو پایا گیا ہے۔‘
Getty Images
وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وادی کے حالات پر 2016 کے فوراً بعد ہی قابو پانے کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ وادی کشمیر میں بڑی حد تک حکومت اور فورسز کی رِٹ قائم ہوچکی ہے اور لوگوں نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔‘
تاہم راجوری اور پونچھ میں حالیہ واقعات کے پس منظر میں طفر کہتے ہیں کہ اگر مسلح شدت پسندوں سے نمٹتے وقت اس بار کوئی غلطی کی گئی تو جموں کے خطے میں حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تین باتیں بہت اہم ہیں۔ راجوری اور پونچھ ایل او سی کے قریب ہیں، پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی سطح پر شدت پسندی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور دونوں اضلاعمیں ہندوؤں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے حملہ آور حملہ کرکے چلا جائے گا، لیکن پھر سکیورٹی اداروں کا ردعمل سینکڑوں شہریوں کی گرفتاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی عوام دوست حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تو راجوری اور پونچھ کے لوگوں میں بھی مسلح تشدد کے لیے حمایت بڑھ سکتی ہے۔‘
ڈرون دراندازی اور جنگلوں میں گھات
انڈین فوجی حکام کئی ماہ سے یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ پاکستانی حمایت یافتہ مسلح گروپ سرحد پار سے ڈرونز کے ذریعہ ایل او سی کے قریب جموں کے علاقوں میں ہتھیار پھینکتے ہیں۔
انڈین بارڈر سکیورٹی فورس نے کہا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ڈرون دراندازی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے حالانکہ انڈیا اور پاکستان کی افواج نے ایل او سی پر جنگ بندی کی تجدید کا نیا معاہدہ پانچ اگست 2019 کو جموں کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے چند ماہ بعد ہی کیا تھا، اور تب سے سرحدیں خاموش ہیں۔
لیکن راجوری اور پونچھ میں رونما ہوئے حالیہ واقعات کے بعد سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ سرحد کے قریب گھنے جنگلوں میں شدت پسندوں کی پناہ گاہیں ہیں جنھیں تباہ کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی بنائی گئی ہے۔
راجوری کے کیسر گلی علاقے میں ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے شدت پسند تنظیم پی اے ایف ایف نے اسے ایک حربہ قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ 20 اپریل کے حملے کے بعد فوجیوں کو جنگلوں کی طرف متوجہ کیا گیا اور جمعے کے روز سرچ آپریشن کی مہم کو نشانہ بنایا گیا۔
دلی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
وادی میں مجموعی طور پر حالات تو پُرامن ہیں، لیکن گذشتہ تین روز کے دوران یہاں بھی دو جھڑپوں کے دوران چار شدت پسند مارے گئے اور ایک حملے میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
مسلح تشدد کا گراف ایسے وقت بڑھا ہے جب انڈیا نے نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کی ہے بلکہ جی 20 کے سربراہ کی حیثیت سے ملک میں اس گروپ کے متعدد اجلاس منعقد کروا رہا ہے۔
جی 20 دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ان 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے۔ جموں کشمیر میں بھی بعض اجلاس طے ہیں۔ ایسے میں مسلح تشدد میں اضافے سے سرکاری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
تجزیہ نگار ظفرچودھری کہتے ہیں کہ ’اس وقت فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے پاس بہت کم انٹیلی جنس ہے، کیونکہ سیاسی سٹرکچر موجود نہیں اور لوگوں کے ساتھ اینگیج نہیں کیا جار ہا ہے۔‘
’عراق، شام اور افغانستان میں بھی لوگوں کو اینگیج کیے بغیر دہشت گردی کو ہرایا نہیں جا سکا۔ اگر امریکہ جیسی سپر پاور طالبان سے مذاکرات کرتی ہے، تو ظاہر ہے جموں و کشمیرمیں کم از کم مقامی سیاست کو بحال کرکے امن میں لوگوں کا سٹیک پیدا کیا جائے۔‘
واضح رہے گذشتہ ہفتے انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین پالیسی کے ساتھ کشمیر میں سیاسی اور جمہوری عمل کو بحال کرنا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور وسیع سکیورٹی کے لیے ناگزیر ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’ہمیشہ انڈیا کا ساتھ دیا مگر آج ہم پر تشدد ہو رہا ہے‘ پونچھ حملے کے بعد گرفتاریاں اور مبینہ خودکشی
’مجھے چپ رہنے کو کہا گیا‘: سابق گورنر نے پلوامہ حملے پر مودی حکومت کو کیوں موردالزام ٹھہرایا؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حکام ایل او سی کے قریبی اضلاع میں اقلیتوں کو مسلح کیوں کر رہے ہیں؟
مظفرآباد میں کیا تبدیلی آرہی ہے؟
صحافی اور تجزیہ نگار ظفر چودھری کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران انھوں نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ہزاروں لوگوں سے براہ راست بات کی ہے۔
’کئی سال پہلے جب پاکستان اور انڈیا کے کشمیری خطوں کے درمیان کراس بارڈر تجارت شروع ہوئی تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیرمیں یہ بیانیہ شروع ہوا کہ انڈین کشمیر نے بہت ترقی کی ہے اور ہم لوگوں کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ وہاں تو شدت پسندی کی مخالفت شروع ہوئی تھی، بلکہ لوگوں نے شدت پسندوں کے کیمپ منہدم کر دیے۔‘
’لیکن 2019 میں کشمیریوں کی خودمختاری ختم کی گئی تو پاکستان کا ردعمل صفر تھا، جس سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ سخت ناراض ہو گئے۔‘
ظفر کہتے ہیں کہ ’مظفرآباد کے لیے کشمیر ایک جذباتی معاملہ ہے اور وہاں مسلح تشدد کی حمایت میں اضافہ اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ انڈیا کی جانب راجوری اور پونچھ سیکٹر کے اکثر لوگوں کی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رشتہ داریاں ہیں۔‘
راجوری اور پونچھ سیکٹر کی آبادی خوفزدہ
ایل او سی کے قریب انڈیا کے زیر انتظام جموں خطے میں واقع راجوری اور پونچھ کے جڑواں اضلاع میں عام لوگ نئے حالات سے خوفزدہ ہیں۔
مینڈھرپونچھ سیکٹر کے ایک رہائشی عبدالسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایل او سی پر سیزفائر کی وجہ سے ہم لوگ خوش تھے۔ بچے سکول بھی جاتے تھے اور ہم کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ لیکن یہ واقعات ہمارے لیے زندگی مشکل بنا سکتے ہیں۔ کوئی حملہ کرتا ہے اور غائب ہوجاتا ہے لیکن تھانوں میں طلبی تو ہماری ہوتی ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سال کے اوائل میں نامعلوم مسلح افراد نے راجوری کے ڈانگری علاقے میں سات ہندو شہریوں کو گھروں میں گھس کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد مقامی ہندو آبادیوں کو مسلح کرنے کی پالیسی کو دوبارہ اپنایا گیا۔
BBC
راجوری کے رہنے والے سیاسی کارکن فاروق انقلابی کا کہنا ہے کہ ’ایک ہی فرقے کے لوگوں کو مسلح کیا گیا تو مسلمان غیر محفوظ محسوس کریں گے۔‘
اس دوران جموں اور کشمیر میں سیکورٹی انتظامات کو مزید سخت کیا گیا ہے۔ راجوری میں ہوئی جھڑپ کے بعد ضلع میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس کو معطل کیا گیا ہے اور کشمیر اور جموں میں خصوصی کمانڈو دستوں کو تعینات کیا گیا ہے۔
انڈیا کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھی سنیچر کو اعلیٰ فوجی قیادت کے ہمراہ راجوری کا دورہ کیا اور جموں میں اعلیٰ سطح کے سیکورٹی جائزہ اجلاس کی قیادت کی۔
فوجی ترجمان کے مطابق سنیچر کے روز کیسرگلی جنگلوں میں چھپے شدت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی تک ایک شدت پسند کو ہلاک کیا گیا ہے۔ تاہم فوج نے مارے گئے شدت پسند کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران ہی شمالی کمان کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل منوج دویدی نے راجوری کا دورہ کیا جہاں انھیں اس وسیع آپریشن کے سبھی پہلووں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔