پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر مردان کی پولیس کے مطابق ایک سیاسی جلسے میں کی جانے والی تقریر سے مشتعل ہونے والے افراد نے ایک شخص کو توہین مذہب کا الزام لگانے کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ ہلاک ہو گیا ہے۔
ڈی پی او مردان نجیب الرحمان نے تصدیق کی ہے کہ سنیچر کی شام مردان کے نواحی علاقے ساول ڈھیر میں ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں شریک مولانا نگار علی نامی شخص نے جلسے میں موجود ایک مقامی سیاسی رہنما کے بارے میں کچھ ایسے کلمات ادا کیے جس سے وہاں موجود لوگ مشتعل ہو گئے تھے۔
پولیس کی جانب سے اب تک اس واقعے کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ مختلف ذرائع سے ملزمان کی شناخت اور نشاندہی کر رہے ہیں اور تفتیش کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا۔
بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق ہلاک کیے جانے والے مولانا نگار علی مقامی مسجد کے امام تھے جن کی لاش مقامی ہسپتال منتقل کر دی گئی ہے۔
مردان پولیس کے ایک اہلکار نے صحافی محمد زبیر خان کو بتایا کہ سیاسی جماعت کے جلسے میں مولانا نگار علی کے خطاب پر جب شرکا مشتعل ہوئے تو موقع پر موجود اہلکاروں نے انھیں مشتعل ہجوم سے چھڑوا کر قریب واقع ایک دکان میں پہنچا دیا تھا۔
اہلکار کا کہنا ہے کہ اس موقع پر علما اور مشران بھی وہاں پہنچ گئے اور مذاکرات کا عمل شروع کر دیا گیا جبکہ صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس کی مزید نفری طلب کی گئی تھی۔
پولیس اہلکار کے مطابق مذاکرات کا عمل جاری تھا کہ مشتعل ہجوم نے دکان پر دھاوا بول دیا اور مولانا نگار کو دکان سے زبردستی نکال کر تشدد کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا اور ان کی جان لے لی۔
ان کا کہنا تھا کہ مشتعل لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے پولیس انھیں روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ تاہم پولیس نے ’سیاسی جماعت کے دیگر رہنماؤں کو محفوظ بنانے میں کامیاب رہی۔‘
پولیس اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ ہجوم اتنا مشتعل تھا کہ وہ لاش بھی حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا تاہم پولیس نے مقتول کی لاش بالآخر حاصل کر لی اور اسے ہسپتال منتقل کیا۔
نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے مردان میں پیش آنے والے واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جلسوں کو سیاسی بیانات تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ ایک پریس ریلیز کے مطابق ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی معاملات کو مذہبی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ نے اپیل کی کہ عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ ’ایسے معاملات میں قانون کو اپنا راستہ اپنانے دینا چاہیے، موجودہ صورتحال میں صبر و تحمل کی اشد ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ واقعے کے تناظر میں علمائے کرام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ’علمائے کرام آگے بڑھ کر امن و امان کی فضا اور مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔‘
’ماب جسٹس کے بڑھتے کینسر سے کوئی محفوظ نہیں‘
https://twitter.com/AmmarRashidT/status/1654954844359204866
سوشل میڈیا پر مذکورہ واقعے سے متعلق کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں تاہم بی بی سی ان مناظر کی آزادانہ تصدیق نہیں کرسکا ہے۔
صارفین کی جانب سے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔
صارف عمار راشد نے لکھا ہے کہ مردان واقعے کے مناظر خوفناک ہیں۔ ’مقتول ایک عالم دین تھا جو اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان میں ’ماب جسٹس‘ کے بڑھتے کینسر سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ہم نے تصوراتی مذہبی جرم کے ردعمل میں قتل کو معمول بنا دیا ہے۔‘
https://twitter.com/TheMarwahKhan/status/1654932755967545345
مرواہ خان نامی صارف نے لکھا کہ ’جس شخص کو توہین الزام میں قتل کیا گیا ان کی اطلاعات کے مطابق اس کی چھ بیٹیاں ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے یہ واقعہ دیکھا ہے مگر لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔ میرا دل رو رہا ہے۔‘
ریحانہ نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ ’پاکستان میں توہین مذہب کا کھیل جاری ہے، لوگ بلا خوف کسی کو بھی توہین مذہب کے الزام پر قتل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ پولیس کی موجودگی میں خون کے پیاسے ہجوم نے آج ایک شخص کو مار دیا۔‘
بعض صارفین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی نظروں سے اس واقعے سے جڑی غیر مصدقہ ویڈیوز گزری ہیں جس سے وہ کافی پریشان ہوئے ہیں۔
ایک صارف نے بتایا کہ ویڈیوز دیکھنے کے بعد وہ ذہنی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’یہ ملک نہیں جنگل ہے۔‘
https://twitter.com/fafaouski/status/1654935800247885824
ایک اور صارف نے کہا کہ اگر کسی نے مذہب کی توہین کی بھی تھی تو انھیں قانون کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا۔ ’آپ نے پیارے اور پُرامن مذہب کے نام پر کسی کا قتل کر دیا۔‘