ہومی بھابھا: انڈیا کے ایٹمی پروگرام کے بانی کی موت ایٹمی پروگرام کو روکنے کی سازش تھی یا محض حادثہ؟

بی بی سی اردو  |  May 06, 2023

وہ 23 جنوری 1966 کا دن تھا جب ہومی بھابھا نے سارا دن ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ (ٹی آئی ایف آر) میں اپنے دفتر کی چوتھی منزل پر مسلسل کام کیا۔

ہومی بھابھا کے معاونایم جی کے مینن نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہا،

’بھابھا نے اس دن مجھ سے تقریباً دو گھنٹے بات کی تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں اندرا گاندھی کا فون آیا تھا، جو فقط چار روز قبلوزیر اعظم بنی تھیں۔ انھوں نے بھابھا سے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہر معاملے میں آپ میری مدد کریں۔ اگر وہ یہ ذمہ داری قبول کر لیتے تو انہیں ممبئی سے دہلی منتقل ہونا پڑتا۔ بھابھا نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اندرا گاندھی کی پیشکش قبول کر لی ہے، اور وہ ویانا سے واپس آنے کے بعد کونسل کو تجویز کریں گے کہ مجھے ٹی آئی ایف آرکا ڈائریکٹر بنایا جائے۔‘

بھابھا کے بھائی جمشید، والدہ مہر بائی، جے آر ڈی ٹاٹا، دوست پپسی واڈیا اور ان کے ڈینٹسٹ فالی مہتا کو بھی اندرا گاندھی کی پیشکش کا علم تھا۔

ہومی بھابھا کی حال ہی میں شائع ہونے والی سوانح عمری ہومی بھابھا اے لائف کے مصنف بختیار کے دادا بھائی لکھتے ہیں، ’بھابھا نے واضح طور پر مینن کو یہ نہیں بتایاتھا کہ اندرا گاندھی نے انھیں کیا پیشکش کی تھی تاہم مینن کا خیال تھا کہ اندرا گاندھی نے انھیں اپنی کابینہ میںوزارت کے عہدے کی پیشکش کی تھی۔‘

Getty Images وہ لمحات جب بھابھا کا جہاز پہاڑ سے ٹکرا گیا

24 جنوری 1966 کو بھابھا ویانا جانے کے لیے ایئر انڈیا کی پرواز 101 میں سوار ہوئے۔ان دنوں بمبئی سے ویانا کے لیے کوئی براہ راست فلائٹ نہیں تھی اور لوگوں کو ویانا جانے کے لیے جنیوا میں فلائٹ تبدیل کرنی پڑتی تھی۔

بھابھا نے ایک دن پہلے جنیوا کے لیے فلائٹ بک کرائی تھی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر ان کو اپنا سفر ایک دن کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔

ایئرانڈیا کا بوئنگ 707جہاز 'کنچن جنگا' 24 جنوری کی صبح سات با کر دو منٹ پر موبلان کی پہاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد چار ہزار آٹھ سو سات میٹر کی بلندی سےگر کر تباہ ہو گیا۔

یہ طیارہ دہلی، بیروت اور جنیوا کے راستے لندن جا رہا تھا۔ اس حادثے میں تمام 106 مسافر اور 11فضائی عملے کے افرادہلاک ہو گئے۔ کنچن جنگا تقریباً اسی جگہ گر کر تباہ ہوا جہاں اس سے قبل نومبر 1950 میں ایئر انڈیا کا ایک اور طیارہ 'مالابار شہزادی' گر کر تباہ ہوا تھا۔ انڈیا کےمالابار پرائز اور کنجن جنگا دونوں طیاروں کا ملبہ اور اس میں سوار لوگوں کی لاشیں کبھی نہیں مل سکیں اور نہ ہی اس طیارے کا بلیک باکس ملا۔ خراب موسم کے باعث طیارے کے ملبے کو تلاش کرنے کا کام روکنا پڑا۔

فرانسیسی کمیٹی آف انکوائری نے ستمبر 1966 میں اپنی تحقیقات کا دوبارہ آغاز کیا اور مارچ 1967 میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’پہاڑ پر شدید برف باری ، پائلٹ اور ائیر ٹریفک کنٹرولر کے درمیان غلط فہمی اس حادثے کا سبب بنی۔ کمانڈر نے اپنے فاصلے کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ موبلین کے ہوائی جہاز کا ایک ریسیور بھی کام نہیں کر رہا تھا۔‘

انڈین حکومت نے اس فرانسیسی تحقیقاتی رپورٹ کو قبول کر لیا تھا۔

انڈین ایٹمی پروگرام کے بانی

ہومی بھابھا کی عمر محض 56 سالتھی جبوہ اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ کاسمک ایز (کائناتی شعاعوں) پر کام کے حوالے سے بھابھا کو سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے جسپر انھیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تاہم بھابھا کا اصل کارنامہ انڈیا کے جوہری توانائی پروگرام اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ کا قیام تھا۔

بھابھا کی اچانک موت نے پورےانڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ اس وقت کے سب سے بڑے صنعت کار جے آر ڈی ٹاٹا کے لیے دوہرا نقصان تھا۔ ان کے بہنوئی گنیش برٹولی جو ایئر انڈیا کے یورپ کے لیے علاقائی ڈائریکٹر تھے، اسی طیارے میں سفر کر رہے تھے۔

ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے دو دن پہلے بھابھا نے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے اعزاز میں ایک تعزیتی اجلاس کی صدارت کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ لال بہادر شاستری نے بھابھا کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے کی تجویز بھی دی تھی، لیکن تب بھابھا نے سیاسی عہدے کے بجائے سائنسی کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

بھابھا کی موت میں سی آئی اے کے کردار پر سوالات

سال 2017 کی بات ہے جب سوئس کوہ پیما ڈینیئل روشے کو الپس کے پہاڑوں میں ایک طیارے کا ملبہ ملا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسی طیارے کا ملبہ ہے جس میں ہومی بھابھا سفر کر رہے تھے۔

اس حادثے سے متعلق کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہاس سازش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔

سال 2008 میں ایک کتاب ’کنورسیشن ودھ دا کرو‘ (Conversations with the Crow) میں سی آئی اے کے سابق افسر رابرٹ کراؤلی اور صحافی گریگوری ڈگلس کے درمیان ہونے والیایسی مبینہ گفتگو شائع ہوئی ہے جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ اس حادثے میں سی آئی اے ملوثہو سکتی ہے۔

سی آئی اے میں کراؤلی کو ’کرو‘کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس نے اپنا پورا کریئر سی آئی اے کے شعبہڈائریکٹوریٹ آف پلاننگ میں گزارا، جسے ’ڈیپارٹمنٹ آف ڈرٹی ٹرکس ‘ بھی کہا جاتا تھا۔

کرولی نے سال 2000 کے اکتوبر میں اپنی موت سے پہلے ڈگلس کے ساتھ کئی بار گفتگو کی تھی۔ انھوں نے ڈگلس کو دستاویزات سے بھرے دو بکس بھیجے اور ان کی موت کے بعد انھیں کھولنے کی ہدایت کی۔

پانچ جولائی 1996 کو ہونے والی گفتگو میں ڈگلس نے کراؤلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ساٹھ کی دہائی میں انڈیا کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے ایٹم بم پر کام کرنا شروع کیا اور ایک بڑی عالمی طاقت بن گئی۔ دوسری بات یہبھی تھی کہ وہ سوویت یونین کے بہت قریب ہو رہے تھے۔‘

اسی کتاب میں کرو نے بھابھا کے بارے میں کہا تھا ’وہ انڈیا کے ایٹمی پروگرام کے فادر ہیں اور وہ ایٹم بم بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ بھابھا کو کئی بار اس بارے میں خبردار کیا گیا تھا لیکن انھوں نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ بھابھا نے اسے بنایا تھا۔‘

کرو نے واضحکیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں اور انڈیا کو دوسری ایٹمی طاقتوں کے برابر آنے سے نہیں روک سکتی تھی۔ ’وہ ہمارے لیے خطرہ بن گئے تھے۔ وہ ایک فضائی حادثے میں مارے گئےجب انکے طیارے بوئنگ 707 کے کارگو ہولڈ میں رکھا گیاایک بم پھٹ گیا۔‘

’ایک شخص کو مار نے کے لیے 117 لوگوں کو مارنا سمجھ سے بالاتر ہے‘

اس کتاب کے مطابق کراؤلی نے اس بات پر فخر کیا کہ وہ ویانا کے اوپر ہوائی جہاز میں دھماکہ کرنا چاہتے تھے۔لیکن یہ طے تھا کہ اونچے پہاڑوں پر دھماکہ کم نقصان کرے گا۔کراولی کے مطابق وہ سمجھتے تھے کہ بڑے شہر پر بڑے جہاز کے گرنے کے مقابلے میں پہاڑوں پر جہاز گرنے سے کم نقصان ہوگا۔

کرولی کوان کی ایجنسی کے اندر سوویت خفیہ ایجنسی کے جی بی کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔

کتاب میں موجود ان کے ایک حوالے کے مطابق ’دراصل شاستری انڈیا کا جوہری پروگرام شروع کرنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے ان سے بھی جان چھڑائی۔ بھابھا ایک باصلاحیت سائنسدان تھے جو ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے، اس لیے ہم نے ان دونوں سے جان چھڑائی۔‘

بھابھا کے سوانح نگار بختیار کے دادا بھائی لکھتے ہیں۔ ’بھابھا کی موت اٹلی کے تیل کے ایک تاجر اینریکو میٹی کی طرح تھی۔ انھوں نے اٹلی کا پہلا جوہری ری ایکٹر بنایا تھا اور مبینہ طور پر سی آئی اےنے ان کے نجی جہازکوتخریب کاری سے تباہ کر کے ان کو ہلاک کر دیا تھا۔‘

دادا بھائی کےمطابق ان چونکا دینے والے دعوؤں کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی۔

’ممکن ہے کہ سچ کبھی سامنے نہ آئے۔ گریگوری ڈگلس کو بہترین طور پر ایک ناقابل اعتبار ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔امریکی بھلے ہی یہ نہ چاہیں کہ انڈیا ایٹم بم بنائے لیکن ایک شخص کو مار نے کے لیے 117 لوگوں کو مارنا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

ایٹم بم کے معاملے پر بھابھا اور شاستری کے درمیان اختلافات

ہومی بھابھا نے 24 اکتوبر 1964 کو آل انڈیا ریڈیو پراسلحہ کی تخفیف سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پچاس ایٹم بموں کا ذخیرہ بنانے پر صرف 10 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اگر دنیا کے مختلف ممالک کے فوجی بجٹ پر غور کیا جائے تو یہ خرچ بہت معمولی ہے۔‘

نہرو کے جانشین لال بہادر شاستری گاندھی کے اصولوں پر کمر پابند سمجھے جاتے تھے اور ان کی ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت مشہور تھی۔ اس وقت تک نہرو سے قربت کی وجہ سے بھابھا کی نیوکلیئر پالیسی پر عمل کیا جا رہا تھا، لیکن شاستری کے آتے ہی صورتحال بدل گئی۔

بختیار دادابھائی لکھتے ہیں، ’بھابھا اس بات سے بہت پریشان تھے کہ وہ اب ملاقاتکی اجازت کے بغیر وزیر اعظم کے دفتر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ شاستری کو یہ سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ بھابھا انھیں کیا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین کے جوہری تجربات سے پہلے 8 اکتوبر 1964 کو بھابھا نے لندن میں اعلان کیا تھا کہ انڈیا فیصلہ لینے کے 18 ماہ کے اندر ایٹم بم کا تجربہ کر سکتا ہے۔‘

بھابھا کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لال بہادر شاستری نے کہا تھا ’جوہری انتظامیہ کو سخت حکم دیا گیا ہے کہ ایسی کوئی بھی چیز استعمال نہ کی جائے جو جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے خلاف ہو۔‘

’کابینہ کی منظوری کے بغیر کوئی تجربہ نہ کریں‘

اس بات کے کچھ ہی دنوں میں بھابھا نے شاستری کو ایٹمی طاقت کے پرامن استعمال کے لیے راضی کر لیا تھا۔

معروف ایٹمی سائنسدان راجہ رمنا نے اندرا چودھری کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا، ’ہم نے اس بات پر بحث نہیں کی کہ ہمیں بم بنانا چاہیے یا نہیں، یہ ہمارے لیے زیادہ اہم تھا کہ اسے کیسے بنایا جائے؟ ہمارے لیے یہہماری انا اور عزت نفس کا معاملہ تھا۔ روک تھام (ڈیٹرنس) کا سوال بہت بعد میں آیا۔ بطور انڈین سائنسدان، ہم اپنے مغربی ہم منصبوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں۔‘

امریکہکی اس معاملے میں مدد نہ کرنے کے ارادے کو بھانپتے ہوئے اپریل 1965 میں بھابھا نے ’پرامن مقاصد کے لیے جوہری دھماکے‘ کے لیے ایک چھوٹا گروپ بنایا، جس کے سربراہ راجہ رمنا تھے۔

بختیار دادابھائی لکھتے ہیں ’دسمبر 1965 میں لال بہادر شاستری نے بھابھا سے کہا کہ وہ جوہری دھماکوں کے کام کو پرامن مقاصد کے لیے تیز کریں۔ ہومی سیٹھنا یہاں تک کہتے ہیں کہ 1965 میں پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران شاستری نے بھابھا سے کچھ خاص کرنے کو کہا۔ بھابھا نے کہا کہ اس سمت میں کام ہو رہا ہے، اس پر شاستری نے کہا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں لیکن کابینہ کی منظوری کے بغیر کوئی تجربہ نہ کریں۔‘

ایٹم بم سے متعلق فیصلے فائل پر نہیں کیے گئے تھے

لال بہادر شاستری 11 جنوری 1966 کو تاشقند میں اچانکوفات پا گئے۔ ان کی جانشین اندرا گاندھی کو بھابھا کی خدمات استعمال کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا کیونکہ بھابھا کی حلف برداری کے فوراً بعد 24 جنوری کو ایک فضائی حادثے میں ان کی موت ہوگئی۔

پندرہ دن کے اندر شاستری اور بھابھا دونوں ہلاک ہو گئے۔ حکومت میں کسی اور کوکانوں کان خبر نہ تھی کہ شاستری اور بھابھا کے درمیان زیر بحث مسائل کیا ہیں کیونکہ ایٹم بم سے متعلق فیصلے فائل پر نہیں کیے گئے تھے۔

بھابھا کی موت نے انڈیا کی جوہری پالیسی کی تشکیل میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کر دیا تھا۔

ہومی بھابھا کے بھائی جمشید بھابھا نے اندرا چودھری کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی والدہ یہ حقیقت کبھی ہضم نہیں کر سکتیں کہ بھابھا نے اس جہاز سے سفر نہیں کیا جس سے انھیں پہلے جانا تھا۔

دادابھائی لکھتے ہیں ’بھابھا کی والدہ مہربائی کو اتنا برا لگا کہ انھوں نے پوری زندگی پپسی واڈیا کو معاف نہیں کیا۔ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب پر سبقت لے جانے کے لیے ایک سائنسدان کی موت، لیکن بھابھا کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔جس دن اندرا گاندھی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا، بھابھا کی ایک ہوائی حادثے میں موت ہو گئی۔ اگلے دن تمام اخبارات نے اسے اپنی ہیڈ لائن سٹوری بنایا۔‘

’ہومی بھابھا وہ واحد شخص ہیں جنھیں مکمل آدمی کہا جا سکتا ہے‘

25 اگست کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ میں بھابھا کے اعزاز میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ بھابھا نے کسی بڑے شخص کے زندہ ہوتے ہی اس کی موت پر چھٹی دینے کے رواج پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ کسی شخص کی موت پر سب سے بڑا خراج تحسین کام کو روک کر نہیں بلکہ زیادہ کام کرنے سے ہوتا ہے۔

بھابھا کی موت پر ان کے پالتو کتے کیوپڈ نے سب سے پہلے کھانا چھوڑ دیا اور کچھ دنوں کے بعد وہ اپنے مالک سے جدائی کی وجہ سے مر گیا۔

ایم جی کے مینن کا خیال تھا کہ بھابھا کی موت اپنے کیریئر کے عروج پر ہوئی اور وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جو اپنی زندگی کے دوران ایک لیجنڈ بن گئے۔

اندرا گاندھی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا’ہمارے ایٹمی پروگرام کے ایک اہم مرحلے پر ہومی بھابھا کا کھو جانا ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کا کثیر الجہتی ذہن، زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں ان کی دلچسپی اور ملک میں سائنس کو فروغ کے لیے ان کے عزم کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔‘

جے آر ڈی ٹاٹا نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ’ہومی بھابھا ان تین عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں مجھے اس دنیا میں جاننے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ایک جواہر لال نہرو، دوسرے مہاتما گاندھی اور تیسرے نمبر پر ہومی بھابھا۔ ہومی نہ صرف ایک عظیم ریاضی دان اور سائنسدان بلکہ ایک عظیم انجینیئر اور بلڈر بھی تھے۔ وہ ایک مصور بھی تھے۔ ہومی بھابھا وہ واحد شخص ہیں جنھیں مکمل آدمی کہا جا سکتا ہے۔‘

وہ لمحہ جب بھابھا کا خواب پورا ہوا

بھابھا کی موت کے بعد وکرم سارا بھائی کو اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا۔ لیکن وہ پہلے شخص نہیں تھے جنھیں یہ عہدہ پیش کیا گیا تھا۔

ایس چندر شیکھر کی سوانح عمری میں کہا گیا ہے، ’بھابھا کی موت کے بعد، وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشہور سائنسدان ایس چندر شیکھر کو یہ عہدہ دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ چندر شیکھر ایک امریکی شہری ہیں۔ جب چندر شیکھر نومبر 1968 میں دوسرے نہرو بنے تو وہ آئے۔

یادگاری تقریر کرنے کے لیے انھوں نے وزیر اعظم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی،اس ملاقات میں انھوں نے اندرا گاندھی پر واضح کر دیا کہ ان کے پاس انڈیا کی شہریت نہیں ہے۔ پھر یہ عہدہ وکرم سارا بھائی کو دے دیا گیا۔‘

وکرم سارا بھائی جوہری ہتھیاروں اور پرامن جوہری تجربات کے پروگرام کے خلاف تھے۔ سارا بھائی نے جوہری پروگرام تیار کرنے کی اخلاقیات اور افادیت پر سوال اٹھائے اور اس پورے منصوبے کو پلٹنے پر زور دیا جس کے سب سے بڑے وکیل بھابھا تھے۔

سارا بھائی کو ہومی سیٹھنا کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا جونیوکلئیر سائنسدان ہونے کے ناطے خود کو بھابھا کا فطری جانشین سمجھتے تھے اور عہدہ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے تھے۔

وکرم سارا بھائی بھیبہت چھوٹی عمر میں وفات پا گئے۔ بالآخر ہومی بھابھا کا ایٹمی دھماکے کا خواب مئی 1974 میں راجہ رمنا اور ہومی سیٹھنا نے پورا کیا۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان، انڈیا کی نصف صدی پر محیط جوہری ہتھیاروں کی دوڑ امریکی خفیہ دستاویزات کی روشنی میں

پاکستانی ایٹمی پروگرام کی کہانی

وہ نظام جو ایٹمی جنگ کے ممکنہ خطرے کا اندازہ لگاتا ہے

سارا بھائی نے اس وقت کے کابینہ سیکریٹری دھرم ویرا سے کہا تھا ’بھابھا کا جانشین بننا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کا مطلب نہ صرف ان کا عہدہ سنبھالنا ہے بلکہ ان کے نظریے کو مکمل اپنانا بھی ہے۔‘

سارا بھائی کو ہومی سیٹھنا کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا جونیوکلئیر سائنسدان ہونے کے ناطے خود کو بھابھا کا فطری جانشین سمجھتے تھے اور عہدہ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے تھے۔

وکرم سارا بھائی بھیبہت کم عمری میں وفات پا گئے۔ بالآخر ہومی بھابھا کا ایٹمی دھماکے کا خواب مئی 1974 میں راجہ رمنا اور ہومی سیٹھنا نے پورا کیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More