شکمینہ سازی: حمل کے دوران ہماری زندگیوں کا سب سے اہم اور پراسرار سمجھا جانے والا لمحہ

بی بی سی اردو  |  May 06, 2023

Getty Images

سنہ 1978 میں یعنی جس سال دنیا کا پہلا ’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘ پیدا ہوا انسانی عمل تولید کے ماہرین نے ایک اصول پر اتفاق کیا جو پوری دنیا میں نافذ کیا گیا۔ انھوں نے 14 دن سے زیادہ وٹرو میں انسانی ایمبرایو یا جینین کی افزائش پر پابندی لگا دی۔

اس پابندی کا مقصد جنین کی تحقیق کے بڑھتے ہوئے میدان پر اخلاقی حد قائم کرنا تھا جبکہ بعض ممالک میں، اس دو ہفتے کی حد کو قانون میں بھی شامل کر دیا گیا۔

لیکن 14 دن ہی کیوں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر انسانی نشوونما کا ایک ایسا پیچیدہ عمل شروع ہوتا ہے جسے بہت سے لوگ ہماری تخلیق کا سب سے بنیادی حصہ تصور کرتے ہیں۔ یعنی دوسرے ہفتے کے اختتام پر گیسٹرولیشن یا شکمینہ سازی کا عمل شروع ہوتا ہے اور اس دوران وہ بنیادیں رکھی جاتی ہیں جو ہمارے جسم کے تمام اعضاء اور بافتوں کو تشکیل دینے کا باعث ہوں گی۔

یہ مرحلہ وہ ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہم جسمانی طور پر کیسے ہوں گے اور کیا چیز ہمیں انفرادی اور اور دوسروں سے مختلف بنائے گی کیونکہ گیسٹرولیشن کے عمل کے آغاز میں جب ہمارا نام نہاد ابتدائی شجرہ بنتا تو یہ ہوتا ہے کہ جنین جڑواں بچے کے طور پر مزید تقسیم نہیں ہو سکتا۔

حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے کے درمیان والی مدت نہ صرف ہمارے بننے، اپنے آپ کو خلیات کے ایک گروہ سے انفرادی جاندار میں تبدیل کرنے کے لیے سب سے اہم ہے، بلکہ یہ حمل کا سب سے نازک وقت بھی ہے۔

اس وقت بہت سے اسقاط حمل ہوتے ہیں اور بہت سی پیدائشی خرابیاں جو ہمارے لیے زندگی بھر صحت کے مسائل کا باعث بنتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے سب سے ممتاز ایمبریولوجسٹ میں سے ایک برطانیہ کے لیوس وولپرٹ جن کی سنہ 2021 میں موت ہو گئی تھی، نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ 'پیدائش، شادی یا موت سب سے اہم مرحلہ نہیں ہے بلکہ شکمینہ سازی کا دور ہی آپ کی زندگی کا سب سے اہم لمحہ ہے۔'

Getty Imagesسائنسدانوں کو حمل کے معاملے میں دو ہفتے سے قبل اور چار ہفتے کے بعد کی زیادہ تر معلومات ہیںایک پہیلی

حمل کے 14 سے 28 دنوں کے درمیان والے مرحلے کی اہمیت کے باوجود اس مرحلے کو اب بھی انسانی نشوونما کا بلیک باکس سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ واحد مرحلہ ہے جس کا سائنس دان ابھی تک اپنی لیبارٹریوں میں مطالعہ نہیں کر سکے ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی نے حمل کے پہلے دو ہفتوں کے دوران وٹرو میں بنائے گئے جنین کا مشاہدہ کرنے کی اہلیت دی ہے۔

اور ماہرین 28 دن کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کی تشکیل نو کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں اور یہ جنین کے ان بافتوں کے تجزیے کی بدولت ہوا جو قدرتی طور پر یا رضاکارانہ طور پر تجربے کے لیے سائنس کو عطیہ کیے گئے تھے۔

لیکن جیسا کہ ارجنٹائن کے ماہر ایمبریولوجسٹ اور ہسپانوی گروپ یوگین کے ایک محقق فلیسیٹاس ایزپیروز نے وضاحت کی ہے کہ ایک ماہ سے کم عمر کے جنین تک تقریباً کوئی رسائی نہیں ہو سکی ہے۔

اسی وجہ سے اب تک انسانی شکمینہ سازی کے پراسرار طریقہ کار کی تحقیق کرنا ممکن نہیں ہوسکا ہے کہ اس وقت کیا ہوتا ہے جب خلیات کا ایک چھوٹا گروپ جو دو ہفتے پرانے جنین کو تشکیل دیتا ہے تین جراثیم کی پرتیں بناتا ہے، جس میں سٹیم سیل ہوتے ہیں اور جو ہمارے جسم کو ہمارے دل اور اعصابی نظام سے لے کر ہمارے ناخنوں اور بالوں تک تشکیل دیتا ہے۔

سائنس دانوں کو 14 دن کے اصول تک محدود رکھا گیا ہے، نہیں تو وہ انھیں یہ دیکھنے کی اجازت دیتا کہ حمل کے تیسرے ہفتے میں داخل ہوتے ہی جنین کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

ایسا بھی ہے کہ موجودہ تکنیکی صلاحیتیں انھیں اتنے عرصے تک انسانی جنین تیار کرنے کی اہلیت نہیں دیتے۔ لیکن سائنسی ترقی کا، خاص طور پر سٹیم سیل ریسرچ کے میدان میں، مطلب یہ ہے کہ یہ آخری حد بھی اب ناقابل تسخیر نہیں رہی۔

Getty Imagesتجربے میں دیکھا گیا ہے کہ دو ہفتے بعد جنین زیادہ سے زیادہ پانچ چھ دن ہی زندہ رہے

یہی وجہ ہے کہ مئی سنہ 2021 میں ماہرین کے ایک بین الاقوامی پینل نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس مدت میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بات کا مطالعہ کرنے کے امکانات کے دروازے کھل جائیں پراسرار شکمینہ سازی کے دوران کیا ہوتا ہے۔

انٹرنیشنل سوسائٹی فار سٹیم سیل ریسرچ (آئی ایس ایس آر سی) نے وضاحت کی ہے کہ بعض سخت شرائط کے تحت دو ہفتوں سے زیادہ عرصے تک کے لیے جنین کی نشوونما کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ ہر ملک اس بارے میں اپنے طور پر طے کرے کہ آیا اس قسم کے تجربے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔

نئی گائڈ لائنز پر کام کرنے والے ماہرین میں سے ایک اور کیمبرج یونیورسٹی کی ماہر حیاتیات کیتھی نیاکن نے کہا: ’اس کا مطلب یہ گروپوں کے لیے ہری جھنڈی دکھنا نہیں ہے کہ وہ انسانی جنین کو 14 دنوں سے آگے بڑھا سکیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ غیر ذمہ دارانہ ہوگا، اور بہت سے ممالک میں ایسا کرنا غیر قانونی ہوگا۔ اس کے بجائے، یہ رہنما خطوط انسانی جنین کے کلچر پر 14 دن کی حد کا جائزہ لینے کے لیے عوام کے ساتھ دو طرفہ بات چیت میں فعال طور پر مشغول ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ کے ماہر حیاتیات رابن لوول-بیج، جنہوں نے سائنسدانوں کے آئی ایس ایس سی آر کے پینل کی سربراہی کی، نے کہا کہ اگر شکمینہ سازی کے عمل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سمجھنا ممکن ہو سکتا ہے کہ چار میں سے ایک حمل کیوں کامیاب نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ جان سکیں کہ کیا غلط ہوا تو ہم اسقاط حمل اور خرابی کو روکنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‘

جانوروں پر تجربہ

کچھ عرصہ پہلے تک سائنس دان صرف جانوروں کے جنین کے بافتوں کا تجزیہ کرکے شکمینہ سازی کا مطالعہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

سنہ 2019 میں ہسپانوی سائنسدان جوان کارلوس ایزپیسوا نے چینی لیبارٹری میں ایک متنازع تجربہ کیا جس میں انھوں نے بندر کے 132 جنین میں انسانی سٹیم سیلز لگائے۔

سائنسی جریدے سیل میں سنہ 2021 میں شائع ہونے والی تحقیق کی تفصیلات کے مطابق تین ہائبرڈ ایمبریو تباہ ہونے سے پہلے 19 دن تک وٹرو میں بڑھتے رہے۔

ایزپیسوا اور ان کی ٹیم کا فرضی مقصد یہ دریافت کرنا تھا کہ آیا مستقبل میں جانوروں میں انسانی اعضاء کی افزائش ممکن ہوگی، لیکن اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ 14 دن کی رکاوٹ کو دور کیا جا سکتا ہے۔

آخر کار اس کا اظہار اگست 2022 میں اس وقت ہوا جب سائنسدانوں کے دو مختلف گروہوں، ایک اسرائیل اور ایک برطانیہنے بالآخر وہ ہدف حاصل کر لیا جس کی برسوں سے کوشش کی جا رہی تھی اور وہ چوہوں کا مصنوعی جنین تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو سٹیم سیلز سے بنائے گئے تھے، جو شکمینہ سازی یا گیسٹرولیشن کے مراحل کو مکمل کرتے تھے۔

ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی جیکب حنا اور کیمبرج یونیورسٹی کی میگدالینا زرنیکا گوئٹز نے ان دونوں مطالعات کی قیادت کی اور ان کے یہ مطالعات بالترتیب سیل اور نیچر میں شائع ہوئے۔

دونوں صورتوں میں مصنوعی جنین کو تقریباً آٹھ دنوں تک تیار کیا گیا جو کہ چوہے کے حمل کے ایک تہائی عرصے کی نمائندگی کرتا ہےاور پھر آخرکار دھڑکتے دل اور دماغ کی بنیادیں تیار ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ماں کی دوران حمل جڑواں بچوں میں سے ایک کو گرانے کی درخواست

وہ غیر معمولی آپریشن جس میں ڈاکٹروں نے رحم میں موجود بچے کی رسولی ختم کی

رواں سال اپریل میں شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے چینی سائنسدانوں نے سٹیم سیل کے جریدے سیل میں ایک اور سنگ میل مطالعہ شائع کیا۔ انھوں نے سیوڈو ایمبریوز یا مصنوعی جنین تیار کیے لیکن یہ کام انھوں نے چوہوں کے بجائے بندروں سے کیا۔ اور بندروں کی نشوونما چوہوں سے زیادہ انسانوں سے ملتی ہے۔ اور ان میں سے کچھ میکاک بلاسٹائڈز بنانے میں کامیاب ہوئے (جب جنین میں 200 سے زیادہ خلیے ہوتے ہیں) اور یہ شکمینہ سازی کے دوران وٹرو میں 18 دن تک رہے گا۔

مصنوعی جنین

پچھلے تین سالوں میں جنین کی نشوونما سے جڑے اخلاقی مخمصوں میں جائے بغیر کچھ لوگوں انسانوں کی نشوونما میں ہونے والے رجحان کا مطالعہ کرنے کے نئے طریقے تلاش کیے ہیں۔

سب سے زیادہ جدید طریقے میں مصنوعی جنین یا ایمبریوئڈز کی تخلیق شامل ہے جو کہ انسانی جنین کے خلیات کے مجموعے ہیں جو سٹیم سیلز سے تیار کیے گئے ہیں۔

اگرچہ یہ جنین بغیر بیضے اور نطفہ کے تخلیق کیے گئے ہیں لیکن وہ ہماری نسلوں کی نشوونما کے عمومی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے انسانی جنین کی طرح بڑھتے ہیں۔

سنہ 2020 میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین ہسپانوی الفانسو مارٹنیز ایریاس کی سربراہی میں جنین کے سٹیم خلیوں سے مصنوعی جنین تیار کرنے میں کامیاب ہوئے جو 18 سے 21 دن کے درمیان کے جنین کی ضروری خصوصیات کی نقل کرتے ہیں۔

انھیں 'گیسٹرولائڈز' کا عرفی نام دیا گیا کیونکہ انھوں نے شکمینہ سازی کے مرحلے میں ایک ایمبریو کی نقل تیار کی تھی۔

ان گیسٹرولائڈز میں مکمل طور پر بننے والے جنین میں نشوونما پانے کی صلاحیت نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس دماغی خلیات یا بچہ دانی میں امپلانٹیشن کے لیے ضروری ٹشوز نہیں تھے لیکن اگرچہ وہ صرف چند دنوں کے لیے تیار ہوئے تھے انھوں نے ایک روشن دان کھولا اور اس کا مشاہدہ کیا گیا جو کہ اب تک صیغۂ راز میں تھا۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع مطالعے میں مارٹنیز آریاس نے اس تحقیق کے بارے میں کہا کہ 'ہمارا کام ہمیں اخلاقی طور پر انسانی ترقی کے اس اہم مرحلے کا مطالعہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔'

ماہر حیاتیات نے مزید کہا کہ اس سائنسی پیشرفت میں پہلی بار ’اس لمحے کا تجزیہ کرنے کا امکان ہے جس میں بہت سی پیتھالوجیز پیدا ہوتی ہیں۔'

ایک قدم آگے

اس کے بعد سے مصنوعی جنین بنانے کے اور بھی جدید طریقے تلاش کیے گئے ہیں جو ایک دن چپکے سے شکمینہ سازی کے عمل کو دیکھنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

سنہ 2021 میں ارجنٹائن کے بایو کیمسٹ ہوزے پولو کی سربراہی والی آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے ایسا انسانی مصنوعی جنین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس اب سٹیم سیل کے بجائے بالغ انسان کی جدل سے لیے گئے سٹیم سیل سے تیار کیا گیا ہے اور اسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ جنین والی حالت میں جا سکے۔

تاہم دوسرے سائنسدان مزید آگے بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آخر مصنوعی جنین کو حقیقی جنین سے الگ کرنے والی حد کہاں ختم ہوتی ہے۔

ویانا کے انسٹی ٹیوٹ فار مالیکیولر بائیوٹیکنالوجی میں فرانسیسی ماہر حیاتیات نکولس ریورون کی قیادت میں ایک ٹیم نے بالغ کے سٹیم سیلز سے مصنوعی بلاسٹوسائٹس (جسے 'بلاسٹائڈز' کہا گیا) بنائے۔

سنہ 2021 کے آخر میں وہ کامیابی کے ساتھ ان کو وٹرو میں تیار کیے جانے والے اینڈومیٹریال خلیوں میں بھی لگانے میں کامیاب ہو گئے۔

اگرچہ ابھی تک انسانی جنین مکمل طور پر شکمینہ سازی تک نہیں پہنچ پائے ہیں لیکن ازپیروز بتاتے ہیں کہ اگر ان کی نشوونما کے لیے موجودہ وقت میں اضافے کی اجازت دی گئی تو 'مستقبل میں یہ اس پیچیدہ عمل (کے سربستہ راز) کو کھولنے کی جانب ایک اور قدم ہو سکتا ہے۔'

ایزپیروز نے خبردار کیا ہے کہ ان تمام تجربات میں انسانوں اور جانوروں دونوں سے جو مصنوعی ایمبریوز بنائے گئے تھے ان میں اصلی ایمبریو جیسی خصوصیات اور صلاحیتیں نہیں تھیں، اور وہ کچھ دنوں تک ہی بڑھ سکے اس کے بعد ایسا کرنے سے قاصر رہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اس سمت بہت امکانات ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 'ہر چیز ہمارے لیے کچھ اور دروازے کھولتی ہے تاکہ کل انسانوں کے ساتھ ایسا ہو سکے۔'

وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ آج ہم ابھی بھی بہت دور ہیں لیکن اگر سائنس اسی طرح آگے بڑھتی رہی تو ہم نہ صرف ممکنہ طور پر ایسے مصنوعی انسانی ایمبریوز تیار کر سکتے ہیں جو شکمینہ سازی کے عمل کو مکمل کرتے ہیں بلکہ ہم اس انسانی بلیک باکس میں جھانک بھی سکتے ہیں کہ آخر انسانی جنین کی نشوونما میں ترقی کس طرح ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم اس حد تک بھی پہنچ سکتے ہیں جو آج صرف سائنس فکشن میں ہی ممکن ہے۔

وہ ان تمام پیش رفت سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ 'کیا ہم کسی انسان کا کلون بنا سکتے ہیں یا اعضاء بنا سکتے ہیں؟ ہر چیز اسی طرف جاتی نظر آ رہی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More