اس تحریرمیں ایسی تفصیلات درج جو بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
جب مہدی حسین تری کی تعیناتی ضلع کرم میں افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقے تری منگل کے ایک سرکاری ہائی سکول میں ہوئی تو وہ پریشان تھے۔
تری منگل افغانستان سرحد کے ساتھ پاکستان کا آخری گاؤں ہے اور یہاں سکیورٹی کے حوالے سے اساتذہ کو ایک عرصے سے خدشات لاحق تھے۔
مہدی حسین نے فزکس میں ایم فل کر رکھا تھا اور وہ گذشتہ ایک سال سے اس سکول میں سینیئر سائنس ٹیچر کے طور پر پڑھا رہے تھے۔ یہی وہ سکول ہے جہاں جمعرات کو ان سمیت سات افراد کو ہلاک کیا گیا جن میں تین دیگر اساتذہ بھی شامل تھے۔
’وہ کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اس علاقے میں نہ جائے۔ اس نے مجھے کہا کہ بے شک میں ان کے بچوں کو پڑھا رہا ہوں، مگر میں یہاں کچھ لوگوں پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ مجھے جان کا خطرہ ہے۔‘
کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مظہر تری جب اپنے بچپن کے دوست مہدی حسین تری کے بارے میں یہ بتا رہے تھے تو ان کی آواز بھر آئی۔
وہ بی بی سی سے بات کرتے وقت قبرستان میں مہدی حسین کی قبر کے قریب موجود تھے۔ مظہر اپنے دوست کو ’محنتی، محبت کرنے والے اور نفیس انسان‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ہائی سکول مہدی حسین کے گھر سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ حالات خراب تھے مگر انھوں نے اس دوران تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔‘
کرم ایجنسی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مہدی حسین کی لاش منھ کے بل زمین پر پڑی ہے اور ویڈیو بنانے والا شخص ان کی پیٹھ پر پاؤں رکھے ہوئے ہے۔
مظہر تری ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے تدفین سے پہلے مہدی حسین تری کی میت کو غسل دیا اور وہ بتاتے ہیں کہ ان کے جسم پر ’تشدد کے نشان تھے اور ان کی لاش کو مسخ کیا گیا تھا۔‘
’مجھے افسوس ہے کہ ایک ایسے شخص کے بچوں کو یتیم کیا گیا ہے جو ان کے بچوں کو پڑھا رہا تھا۔‘
وہ اس حوالے سے ہولناک تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مہدی حسین کی آنکھیں نکالی گئی تھیں اور ان کی ٹانگوں پر کلہاڑی سے وار کیے گئے تھے۔ ان کی گردن پر بھی کلہاڑی کے نشان تھے۔
’ان کی انگلیوں کے ناخن تک نکال دیے گئے تھے۔ انھیں مارنے کے بعد ان پر بیہمانہ تشدد کیا گیا۔ مہدی اور سکول میں قتل ہونے والے دیگر افراد بے گناہ تھے، ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا، انھیں ایک عمارت میں گھیر کر کے قتل کیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پارہ چنار میں ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تمام سات افراد کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی جبکہ ان میں سے دو افراد کے گلے کاٹنے کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔
ٹیچر اسوسی ایشن اور محکمہ تعلیم کے مطابققتل ہونے والے چاروں استاد اسی سکول میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
ٹیچر اسوسی ایشن کرم کے رہنما سید زاہد حسین کے مطابق قتل ہونے والے استاد لیاقت حسین اور ان کے ساتھ سید علی شاہ دس اور آٹھ سال سے اسی سکول میں خدمات سرانجام دے رہے تھے جبکہ مہدی حسین اور سید حسین گذشتہ دو برسوں سے اس سکول میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
اہلخانہ کی جانب سے بی بی سی کے ساتھ شیئر کی گئی تصاویر جو ہسپتال میں لی گئی ہیں، میں بعض لاشوں پرتشدد کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
مہدی حسین نے سوگواران میں اہلیہ اور تین بچے چھوڑے ہیں۔
BBC’اساتذہ کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی‘
بی بی سی کی جانب سے تری منگل کے دیگر رہائشیوں سے بات کر کے یہاں اس وقت کی صورتحال اور ماضی میں اساتذہ کو درپیش خطرات کے حوالے سے تفصیل سے بات کی ہے۔
ان ہی میں سے ایک نوجوان شاہ زیب (فرضی نام) کے استاد لیاقت حسین بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ شاہ زیب انھیں اپنا استاد ہی نہیں محسن بھی مانتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد علاقے کے دیگر نوجوانوں اور بچوں کی طرح مجھے بھی کام پر لگانا چاہتے تھے مگر لیاقت حسین صاحب نے میرے والد سے کہا کہ بچہ پڑھنے والا اور ذہین ہے اس کو پڑھنے دو۔ میں ایف اے کے بعد کام پر لگا اب اپنا کاروبار کرتا ہوں۔ خوشحال زندگی گزارتا ہوں ورنہ اب بھی کوئی چھوٹی موٹی مزدوری ہی کر رہا ہوتا۔‘
شاہ زیب ہی نہیں بلکہ اس علاقے کے کئی نوجوانوں کو تعلیم دینے میں لیاقت حسین سمیت دیگر اساتذہ کا بڑا کردار تھا۔
شاہ زیب کو ڈر ہے کہ اب پتا نہیں اس سکول میں کوئی استاد پڑھانے آئے گا بھی یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’واقعے کے بعد میری اپنے علاقے میں بہت لوگوں سے بات ہوئی ہے زیادہ تر لوگ خفا ہیں مگر وہ اظہار نہیں کرتے کئی دوستوں نے کہا ہے کہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
شاہ زیب کہتے ہیں کہ ’واقعہ ہو چکا ہے مگر یقین کریں کہ مقامی لوگوں کی اکثریت بہت ناراض ہے۔ بالخصوص نوجوان تو بہت ہی ناراض ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ برسوں سے ہمارے استاد اور پھر مہمان تھے ہمارے گھر (علاقے) میں موجود تھے۔ گھر میں موجود مہمان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہونی چاہیے۔‘
لیاقت حسین کے دوست سید زاہد حسین بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ’ایک فرقے کے لوگوں کے لیے تو صورتحال بہت ہی گھمبیر تھی مگر اس کے باوجود بھی لیاقت حسین نے سارے خطرات مول لیے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران کئی واقعات ہوئے جس پر محکمہ تعلیم کے افسران اور مقامی مشران سے بات ہوئی۔ اور مذاکرات میں یہی کہا گیا تھا کہ ’علاقے کے جو بھی مسائل ہیں مگر اساتذہ کو نہیں چھیڑا جائے گا۔‘
زاہد حسین کے مطابق دو سال پہلے لیاقت حسین اور سید علی شاہ دونوں نے محکمہ تعلیم سے اپنا تبادلہ کرنے کی درخواست دی تھی جس پر یہ کہا گیا تھا کہ آپ کی ذمہ داری علاقہ مشران اور لوگوں پر ہے پریشان نہ ہوں۔
Getty Images’واقعہ تقریباً ڈیڑھ بجے ہوا، صورتحال انتہائی ہولناک تھی‘
زاہد حسین نے اس دن کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ واقعہ تقریباً ڈیڑھ بجے ہوا ہے۔ میں خود متاثرہ سکول کا دورہ کیا ہے وہاں موقع پر موجود لوگوں سے معلومات حاصل کی ہیں۔ صورتحال انتہائی ہولناک تھی۔‘
واقعے کے وقت سکول میں طالب علم اور اساتذہ موجود تھے۔ اس وقت میڑک اور نویں کلاس کے امتحانات ختم ہو چکے تھے اور نگران عملہ جا چکا تھا جبکہ یہ چار استاد سکول میں تھے۔
سید زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’مجھے ملنی والی معلومات کے مطابق سکول میں چھٹی کا وقت تھا۔ یہ چاروں استاد اپنی اپنی کلاس میں موجود تھے۔ ایسے میں مسلح لوگ سکول میں داخل ہوئے اور انھوں نے ان چاروں کو تلاش کر کے نشانہ بنایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ان چاروں کو تلاش کیا بلکہ سکول کی لیبارٹری تعمیر ہو رہی تھی، اس پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
’مسلح افراد سکول کے دیگر اساتذہ، طالب علموں کے سامنے ان کو گھیر کر سکول پرنسیپل کے دفتر لے گئے۔‘
سید زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’مجھے کئی لوگوں نے بتایا ہے کہ وہاں پر پہلے ان سات لوگوں جن میں تین مزدور بھی شامل تھے پر تشدد کیا گیاپھر باری باری فائرنگ کر کے ایک دوسرے کے سامنے قتل کیا گیا۔‘
’سید حسین شاہ کی ایک ہفتے بعد شادی تھی‘
پارہ چنار کالجکے اسسٹنٹ پروفیسر سید اطہرعلی شاہ کہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے ایک استاد سید حسین شاہ اپنے گاؤں سے باٹنی میں ایم فل کی تعلیم حاصل کرنے والے پہلے سکالر تھے۔
’وہ اس وقت پی ایچ ڈی بھی کر رہے تھے۔ ان کی تین ماہ پہلے منگنی ہوئی تھی۔ ایک ہفتے بعد شادی تھی۔ ہمارا علاقہ ایک ہی ہے روزانہ تقریباً صبح جاتے ہوئے ہماری ملاقات ہوتی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے شاید واقعہ والے روز سے ایک دو دن پہلے پوچھا تھا کہ شادی قریب ہے اور اس کی تیاریاں بھی کرنی ہے تو چھٹیاں کیوں نہیں کیں تو انھوں نے کہا کہ میڑک اور نویں کلاس کے امتحانات ہو رہے ہیں طالب علموں کے ساتھ رابطہ رکھتا ہوں انھیں گائیڈ کرتا ہوں کوشش کروں گا کہ کم سے کم چھٹیاں کروں۔‘
سید اطہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ سید حسین ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے بڑی مشکل اور محنت سے تعلیم حاصل کی تھی۔
’ٹیچنگ کا شعبہ ان کی اپنی خواہش تھا حلانکہ ان کو دوسرے شہروں میں بھی ملازمتیں مل رہی تھیں۔ مگر انھوں نے اپنے علاقے میں رہ کر کام کرنا بہتر سمجھا۔‘
انکے مطابق وہ انتہائی صلح جو شخص تھے اور خاندان اور علاقے میں جو بھی چھوٹے موٹے مسائل ہوتے حل کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کے خاندان میں بھی زمین جائیداد کا کوئی مسئلہ ہوا تھا۔ ہمارے قبائلی علاقہ جات میں لوگ زمین جائیداد پر غصے میں آ کر دشمنی کر لیتے ہیں۔ لوگوں کو اندیشہ تھا کہ شاید ان کے خاندان میں بھی ایسا ہی ہو مگر سید حسین نےاپنے حق کی قربانی دی اور معاملے کو احسن طریقے سے حل کیا۔‘
اطہرعلی شاہ کہتے ہیں کہ ’وہ بالکل بھیلڑائی جھگڑے والے انسان نہیں تھے۔‘
ان کے مطابق علاقے کے پسماندہ رہ جانے کی ایک وجہ لڑائی جھگڑا اور تعلیم کی کمی ہے۔ مہدی حسن اورسید حسین نے تقریباً اکھٹے ہی ملازمت کا آغاز کیا تھا۔
Getty Images’پولیس، ایف سی اور مقامی حکومت کو کئی بار ممکنہ فرقہ واریت پر خبردار کیا‘
مظہر حسین کہتے ہیں کہ اس واقعے پر ان کے گاؤں اور علاقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یہیں موجود ایک اور شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نماز جنازہ کے بعد مقامی مشران نے تقاریر کیں اور عوام کو صبر و تحمل کی تلقین کی ہے۔
تقاریر کے دوران مشران نے کہا ہے کہ ’شرپسند عناصر کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دینا۔ مگر مشران اور علاقے کے لوگوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سخت تنقید بھی کی۔ ہم نے احتجاج کیا ہے اور ہمیں سکیورٹی اداروں اور حکومت سے شکایت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمارے مشران طویل عرصے سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ ’ہم نے پولیس، ایف سی اور مقامی حکومت کو کئی بار یہ بتایا تھا کہ فرقہ واریت ہو سکتی ہے۔ یہ حکومت کا کام تھا کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں تماشائی بننے کی بجائے ہمارے لوگوں کی لاشوں کو مسخ ہونے سے بچانا چاہیے تھا۔ مگر یہ نہیں کیا گیا۔ ہمیں لوگوں سے شکایت نہیں، ہمیں حکومت سے شکایت ہے۔‘