وہ ایک عام نوجوان تھا، دیہاتی زندگی کا ایک متحرک نوجوان جو اچھی کرکٹ کھیلتا تھا لیکن پھر اچانک علاقے میں ضمنی انتخاب کے دوران سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں جہاں مختلف سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں متحرک ہوئیں۔
تب ہی اقبال کا رابطہ ایک کالعدم تنظیم سے ہوا اور پھر وہ اقبال سے بالی کھیارہ بن گیا تھا۔
یہ کہانی ہے ایک ایسے شدت پسند کی ہے جو پولیس کو متعدد قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی جیسے واقعات میں انتہائی مطلوب تھا۔
جمعرات چار مئی کو خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے ساتھ ایک جھڑپ میں دو شدت پسند ہلاک اور اور ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس عابد اقبال زخمی ہو گئے تھے۔
اس کارروائی میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے شدت پسند اقبال عرف بالی کھیارہ بھی ہلاک ہوئے۔
پولیس حکام کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پرووا سرکل کے ڈی ایس پی عابد اقبال اپنی نجی گاڑی میں گن مین کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان سے پرووا جا رہے تھے کہ راستے میں فتح موڑ میں ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلع پولیس افسر عبدالرؤف بابر قیصرانی نے صحافیوں کو بتایا کہ حملہ آوروں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی زحمی ہوئے، جنھیں تین گولیاں لگیں۔ لیکن اس دوران ان کے گن مین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں پر فائرنگ کی ہے، جس سے دونوں حملہ آور ہلاک ہو گئے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ان دونوں افراد کی ابتدائی شناخت اقبال عرف بالی کھیارہ اور مفتی جاوید کے نام سے ہوئی ہے۔
اقبال عرف بالی کھیارہ خیبر پختونخوا اور پنجاب پولیس کو قتل، اقدام قتل، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے 26 مقدمات میں انتہائی مطلوب تھے، جن میں 21 مقدمات ڈیرہ اسماعیل خان اور پانچ مقدمات ملتان میں درج تھے۔
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ بالی کھیارہ کے سر کی قیمت ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔
عام دیہاتی سے کالعدم تنظیم کے کمانڈر تک
ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئی 34 کلومیٹر جنوب میں تحصیل پرووا ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ اگرچہ یہ تحصیل انّس ہائی وے پر واقع ہے لیکن یہاں پانی کی قلت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے غربت عام ہے۔
اس علاقے کے گاؤں چاہ خان والا کے چٹیل میدانوں میں اقبال عرف بالا بچپن میں کرکٹ کھیلتے تھے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ انھیں کرکٹ کا شوق تھا اور مقامی سطح پر اچھے کرکٹر تھے۔
اقبال نے تعلیم بمشکل میٹرک تک حاصل کی لیکن میٹرک کے امتحان سے پہلے وہ کالعدم تنظیم کے کچھ لوگوں سے ملے تھے۔
اقبال کے سکول کے ایک دوست نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس وقت بھی اقبال اہل تشیع کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا اور ان کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا۔‘
مقامی لوگوں نے بتایا کہ سال 2005 اپریل میں سابق صوبائی وزیر سردار عنایت اللہ خان کی وفات کی وجہ سے پرووا سے ان کی صوبائی اسمبلی کی یہ نشست خالی ہو گئی۔
اس نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا تو تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہو گئیں، جن میں جمعیت علما اسلام، پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار سردار ثنااللہ خان میانخیل نے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
اس دوران کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں بھی اس علاقے میں شروع ہوئیں تو اقبال کا رابطہ بھی کچھ ایسے ہی لوگوں سے ہو گیا تھا۔
مقامی لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اقبال کی سرگرمیاں مشکوک ہوئیں تو ان کے خاندان کے لوگوں نے انھیں منع کیا کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے دور رہیں۔
اقبال کو یہ باتیں پسند نہ آئیں اور وہ اپنے اس سفر میں دور تک آگے نکل گیا، جہاں اقبال ٹارگٹ کلنگ اور قتل کے دیگر واقعات میں نامزد ہوا۔
پولیس نے اقبال کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس میں اقبال کے کچھ رشتہ داروں کو بھی مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا جس کے بعد اقبال کی کارروائیاں پولیس کے خلاف بڑھ گئی تھیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پولیس کی جانب سے ان کے خاندان کے کچھ افراد کی گرفتاریوں اور ان پر تشدد کے واقعات کے بعد اقبال اپنے ان رشتہ داروں سے ملنے بھی گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستانی طالبان کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کون چلاتا ہے؟
سوات میں 15 سال بعد لڑکیوں کے ہائی سکول اور کالج میں تعلیم کا آغاز: ’یقین نہیں تھا ہم کالج پڑھنے آئیں گے‘
بھنگ کی کاشت کے لیے مشہور وادی تیراہ کے عوام سکیورٹی چوکیوں کی تعمیر کے لیے درکار زمینیں دینے کو کیوں تیار نہیں؟
اقبال سے بالی کھیارہ
پولیس حکام کے مطابق اقبال کا تعلق پہلے سپاہ صحابہ پاکستان سے تھا اور پھر بعد میں وہ لشکر جھنگوی سے منسلک ہو گئے تھے۔
چار مئی کو اقبال کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے ڈیرہ اسماعیل خان میں تھانہ یونیورسٹی کی حدود میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے اس ضلع کے ان کے ساتھی کمانڈر محمد اقبال عرف شانی بھائی اور مولانا شوکت بلوچ عرف مولانا جاوید ایک کارروائی میں مارے گئے ہیں۔
مقامی پولیس ذرائع نے بتایا کہ اقبال عرف بالی کھیارہ کی سرگرمیاں جب بڑھ گئی تھیں تو وہ ٹی ٹی پی کے استرانہ گروپ میں شامل ہوئے اور پھر اپنا علیحدہ گروپ بالی کھیارہ بنا لیا تھا۔
اقبال عرف بالی کھیارہ نے اس دوران زیادہ تر حملے پولیس، اہل تشیع اور پولیس اہلکاروں پر کیے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے شیعہ خاندان کے ایک سربراہ نے بتایا کہ ان کے ایک بھائی 15 برس قبل قتل ہوئے جس میں بالی کھیارہ کو نامزد کیا گیا تھا۔
لیکن بالی کھیارہ کو گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی سمیت ان کے خاندان کے کچھ افراد کو تسلسل سے اسی طرح ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاک کیا گیا۔
ان کے مطابق ایک شخص کو اس لیے مار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے چنگ چی رکشے پر کبھی کبھار نوحے لگا کر سنتا تھا۔ ایک دکاندار کو دھمکیاں دی گئیں اور جب وہ دکاندار علاقہ چھوڑ کر جانے لگا تو اسے آخری رات کو ہی قتل کر دیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کے محکمے کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق اقبال عرف بالی آٹھ جماعت پاس تھا اور وہ سنہ 2009 میں لاہور میں میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے میں بھی ملوث تھا۔ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سول ہسپتال کے اندر ایک دھماکے میں بھی بالی کھیارہ کے ملوث ہونے کا بتایا جاتا ہے۔
ٹارگٹڈ آپریشنز
موجودہ حکومت اور عسکری حکام کی جانب سے جب سے آپریشن کا اعلان ہوا تو یہ ایک خوف پایا جاتا ہے کہ اگر اس مرتبہ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیا گیا تو پھر کون سے علاقے زیادہ متاثر ہوںگے۔
لیکن بعد میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ آپریشنز ٹارگٹڈ ہوں گے اور ان مقامات پر کارروائی ہو گی جہاں شدت پسند روپوش ہوں گے۔
اسی تناظر میں ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف مقامات پر ٹارگٹڈ آپریشنز کیے گئے، جن میں اہم شدت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
یہ آپریشنز سکیورٹی حکام، سی ٹی ڈی اور پولیس نے مشترکہ طور پر کیے ہیں۔
لگ بھگ ایک ماہ کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں درابن چودھوان اور کلاچی کے بعض علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشنز کیے گئے ہیں۔ اس طرح ضلع لکی مروت میں کرنل ریٹائرڈ مقرب خان کی ٹارگٹ کلنگ میں ہلاکت کے بعد قریبی علاقے پہاڑ خیل میں آپریشن کیا گیا، جس میں شدت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔