BBCدنیا بھر کے متعدد مالک میں ہم جنس پرستوں کو چھپ چھپ کر زندگی گذارنی پڑتی ہے
’وہ ہندو ہے اور میں مسلمان، لیکن اس سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور مل کر زندگی کی ہر جنگ جیتیں گے۔ ایک دوسرے کا مذہب ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘
یہ کہنا ہے مالتی اور روبینہ کی (دونوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں اور ان کی شناخت پوشیدہ رکھی گئی ہے)۔
مالتی اور روبینہ مغربی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے بھاگ کر کولکتہ آگئی ہیں۔ ان دونوں کی کہانی سکول سے شروع ہوئی جب یہ دونوں 11ویں جماعت میں ایک ساتھ پڑھتی تھیں اور مالتی نے جب بھی روبینہ کو دیکھا تو اسے گم سُم ہی پایا۔
مالتی کہتی ہیں، ’مجھے ہمیشہ سے لڑکیاں ہی پسند آیا کرتی تھی، لیکن میں یہ نہیں جانتی تھی کہ میری خواہش صرف لڑکی کے لیے ہے۔ میں ہی روبینہ کے قریب آئی وہ مجھے اچھی لگتی تھی، ہم دونوں میں دوستی ہوئی اور پھر بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’روبینہ خاموش رہتی تھی، میں اس سے پوچھتی تھی کہ وہ بات کیوں نہیں کرتی، لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ مجھ سے کھل کر بات کرنے لگی۔‘
والدین کی مخالفت
روبینہ بتاتی ہیں کہ اس دوران ایک لڑکے سے انکی دوستی ہوئی اور اس نے ان پر رشتہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ روبینہ نے انکار کر دیا اور انکی دوستی ٹوٹ گئی، لیکن اس کے گھر والوں کو لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی کا پتہ چل گیا۔
اس کے بعد گویا ان پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
روبینہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی ہیں، ’مجھے طعنے دیئے جاتے تھے، گالیاں دی جاتی تھیں، بہت مارا جاتا تھا۔ مجھے کھانا نہیں دیا گیا۔ اسی دوران مالتی میری زندگی میں آئی، میری زندگی میں پہلی بار وہ ایک ایسی لڑکی تھی، جو دل سے جاننا چاہتی تھی کہ میں اس قدر خاموش اور اداس کیوں رہتی ہوں اور بس پہلے باتیں پھر دوستی اور پھر محبت شروعہوگئی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد نے مجھ پر شادی کے لیے دباؤ نہیں ڈالا بلکہ وہ مجھے مارتے تھے۔ میری والدہ مجھے جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر ٹارچر کرتی تھیں۔ یہی نہیں میرے نانا کے خاندان سے بھی گالی گلوچ، تشدد اور طعنے کا سلسلہ جاری تھا۔
23 سالہ روبینہ بی اے (ہسٹری آنرز) اور 22 سالہ مالتی بی اے (بنگلہ) کر رہی ہیں۔
مالتی این سی سی کیڈٹ رہ چکی ہیں اور پولیس میں بھرتی ہونے کی تیاری کر رہی ہیں، جب کہ روبینہ پڑھائی میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
Getty Imagesاس وقت سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کی درخواستوں پر سماعت جاری ہےپہلے دوستی اور پھر محبت
مالتی کو پہلی نظر میں روبینہ سے پیار ہو گیا تھا۔
روبینہ نے دھیرے دھیرے اپنے دل کی گرہ کھولنا شروع کی اور اپنا درد بیان کیا۔ اسے یقین تھا کہ مالتی اس کا خیال رکھتی ہے، اس کے دکھ کو دل سے دور کرنا چاہتی ہے اور اس کی بات تحمل سے سنتی ہے۔
دونوں سکول میں بہت باتیں کیا کرتے تھے، ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگے۔ ملاقاتوں سے فاصلے کم ہونے لگے اور پھر دوستی محبت میں بدل گئی۔
روبینہ کا کہنا ہے کہ ’پہلے تو میرے گھر والوں نے سوچا کہ مالتی کسی دوسرے لڑکے سے بات کرنے اور ملنے میں میری مدد کر رہی ہے، لیکن پھر انہیں معلوم ہوا کہ میں اور مالتی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ انہیں محسوس ہونے لگا تھا کہ ہمارے درمیان کچھ ہے اور اس کے بعد میرے خلاف تشدد شروع ہو گیا۔ کھانا نہیں دیا گیا اور شادی کا دباؤ ڈالنا شروع کر دیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں ویسے بھی لڑکی کی شادی 21 سال کی ہونے تک کر دی جاتی ہے۔‘
روبینہ نے کہا، ’وہ مجھ سے پوچھتے تھے کہ ہمارے درمیان کیا چل رہا ہے؟ ساتھ ہی وہ کہتے کہ ہم دونوں کو ساتھ رہنے دیں گے لیکن پہلے ہم یہ بتائیں کہ ہمارے درمیان کیا ہے۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اگر میں نے انہیں کھل کر کچھ کہا تو میرے والدین مجھے کہیں دور بھیج دیں گے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر ہم جیسے لوگوں کی کہانیاں دیکھیں اور فیصلہ کیا کہ ہم بھی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ لیکن گاؤں میں اس طرح رہنا ممکن نہیں تھا۔ وہاں پوری زندگی چھپ چھپ کر گزارنی پڑے گی۔‘
گھر سے بھاگنے کا منصوبہ
اپنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے مالتی کہتی ہے کہ انہوں نے گاؤں سے بھاگ کر شہر جانے کا فیصلہ کیا اور تمام دستاویزات جمع کرنا شروع کر دیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ نوکری کے لیے سرٹیفکیٹ اور دستاویزات کی ضرورت ہوگی۔
مالتی کہتی ہیں: ’ہم نے سال 2021 میں سکالرشپ کی رقم جمع کرنا شروع کی اور وہاں ایک ٹرانس مین سے مدد مانگی۔ اس کے بعد اس شخص نے ہمارا رابطہ سی ای ایف او فار ایکوالٹینامی تنظیم سے کروایا، جہاں ہمیں مدد کا یقین دلایا گیا اور اس طرح ہمارا کولکتہ جانے کا راستہ صاف ہوگیا۔‘
سی ای ایف او فار ایکوالٹینامی تنظیم ہم جنس پرست کمیونٹی کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ اب مالتی اور روبینہ اس تنظیم کی پناہ میں ہیں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اس وقت سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کی درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
گھر کی یاد
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو گھر یاد نہیں آتی؟ کیا والدین کا خیال نہیں آتا؟ مالتی کہتی ہیں ’کہ وہ اپنے گھر والوں سے رابطے میں ہیں اور روبینہ کے گھر والے بھی گاؤں سے بھاگنے کے بعد ان کے گھر آئے تھے۔‘
مالتی دھیمی آواز میں کہتی ہے، ’میری ماں شاید اس رشتے کے لیے راضی ہو جائے، لیکن میرے خاندان کے دیگر افراد میری ماں کو پریشان کریں گے۔ میری والدہ نے مجھے کہا ہے کہ جب روبینہ کے گھر والے رضامندی کا اظہار کریں تب ہی واپس آؤ ورنہ یہ الزام لگے گا کہ میں نے روبینہ کو اغوا کیا اور یہ دونوں فرقوں کے درمیان جھگڑے کا سبب بن جائے گا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے گھر کا کھانا بہت یاد آتا ہے۔ مجھے اپنی ماں اور گھر والوں کے ساتھ تفریح کرنا یاد آتا ہے۔ کئی بار ان کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں۔ لیکن میں روبینہ کے بغیر گھر نہیں جاؤں گی۔‘
مالتی کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے اس رشتے کو بالکل نہیں سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے کہا کہ ہم دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ساتھ کیوں رہنا چاہتے ہو؟ یہ انکی سمجھ سے باہر ہے اور انہیں سمجھانا بھی مشکل ہے۔‘
روبینہ کا کہنا ہے کہ میرے والد کے ساتھ میرے تعلقات اچھے نہیں ہیں لیکن میں ان کی بڑی بیٹی ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب بھی باہر سے آتے تھے تو سب سے پہلے میرا چہرہ دیکھتے تھے۔ وہ مجھے مارتے تھے، لیکن مجھ سے پیار بھی کرتے تھے۔
’جب میں نے اپنی بہن سے انسٹاگرام پر بات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ مجھے میرے پرانے فون نمبر پر کال کرتی رہی تھی حالانکہ میں نے وہ سم پھینک دی ہے۔ میری بہن نے بتایا کہ میرے والد نماز پڑھتے ہوئے روتے ہیں اور میں بھی روتی ہوں۔‘
مالتی اور روبینہ کا کہنا ہے کہ ’اگر انکی برادری کے لوگوں کو شادی کا حق مل جائے تو بہت اچھا ہو گا۔ لیکن ان کی شادی میں گھر والوں کی رضامندی ہونی چاہیے۔‘